”ہم بین الاقوامی قوانین کا
احترام کرتے ہیں اور پاکستان سمیت دیگر ممالک سے بھی یہ امید کرتے ہیں۔ہم
گرفتار امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو رہا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ریمنڈ کی
رہائی کے لیے پاکستان پر دباﺅ برقرار رکھا جائے گا۔“ان خیالات کا اظہار
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان پی جے کراﺅلی نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران
کیا۔مذکورہ بیان کی واقعیت وحقیقت اپنے اندر صداقت وسچائی کا کتنا وزن لیے
ہوئے ہے؟اس کا جواب ارباب ِفہم ودانش پر ہرگز مخفی نہیں۔اب تک ملنے والے
تمام تر شواہد اور ٹھوس قرائن اس امر کی مکمل گواہی دے چکے ہیں کہ دہشت گرد
امریکی کو کسی بھی صورت ودرجے میں سفارتی استثنا اور رعایت حاصل نہیں ۔اس
کے برخلاف وبرعکس امریکی حکومت اور مادروطن میں موجود اُس کے سفارت کاروں
کے لب ولہجہ کو ”ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور“کے تناظر اور پس
منظر میں بخوبی سمجھا و پہچانا جاسکتا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ کراﺅلی جس
امریکی دباﺅ کو جاری وساری رکھنے کا عندیہ دے رہے ہیں ۔وہ ہمارے ابن الوقت
حکمرانوں کے اُن دعوؤں کا پول کھول دینے کے لیے کافی ہے ،جس میں کسی بھی
قسم کی ملفوف دھمکیوں اور بے جا زور و دباﺅ کی یکسر و مکمل نفی کی گئی تھی۔
زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو حالات وواقعات اس امر کی بخوبی نشاندہی
کر رہے ہیں کہ یہ سارا سوانگ وڈھونگ خونی امریکی کی ظالمانہ اور غیر
منصفانہ رہائی پر منتج وتمام ہوگا۔پاکستانی حکمران جو پہلے ہی امریکی
بیساکھیوں کے سہارے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔انکل سام کے روٹھے ہوئے
چہرے کی تاب نہیں لا پا رہے ۔وائٹ ہاﺅس کو قبلہ ماننے والے اربابِ اختیار و
اقتدار اپنے سفید فام آقاﺅں کا حق ِنمک ادا کرنے کی کوششوں میں پوری طرح
جتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ہر گزرتا لمحہ اور ہر آنے والی گھڑی اُن کے ایک
نئے روپ و رنگ کی خبر دے رہی ہے۔وگرنہ ریمنڈ کے معاملے پر پنجاب کو وفاق کی
جانب اپنا پانچواں” ملتجیانہ مکتوب “کیوں کر روانہ کرنا پڑا؟کیا حکومت
پاکستان اپنی ہی سرزمین پر اتنی بے دست وپا اور بے بس ہے کہ، ایک ثابت شدہ
مجرم وقاتل کے جرم وقتل میں تعاون ومدد کے لیے امریکی سفارت خانے اور
قونصیلٹ کو مجبور نہیں کر پارہی ؟کیا اقتدار و حکمرانی کے خمار میں مدہوش
ومست اربابِ حکومت کے سامنے ملک عزیز کی خود مختاری وآزادی کی کوئی اہمیت
وحیثیت نہیں؟
سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ امریکی سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ
سینیٹر جان کیری کا یہ کہنا:”ریمنڈ ڈیوس قونصیلٹ میں بطور ٹیکنکل اسٹاف کام
کرتا ہے، جسے ویانا کنونشن کے تحت استثنا حاصل ہے ۔اس لیے اس کے خلاف
پاکستان کی عدالت میں کوئی کیس نہیں چل سکتا۔“اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کا
عملی مصداق ونمونہ ہے۔کیا معصوم انسانوں اور پاکستانیوں کا مجرمانہ
وظالمانہ اور بہیمانہ قتل اس قدر چھوٹا اور نظرانداز کردینے والا معاملہ ہے
کہ جس کی بنیاد پر دو ملکوں کے تعلقات ومعاملات میں دراڑ تک نہیں
پڑسکتی؟کیا یہ روح فرسا قتل اتنا اوچھا اور کمتر مسئلہ ہے کہ جس کی طرف نظر
کرنے ،اُسے حل کرنے اور متذکرہ قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانے کی باتیں
کرنا ،جان کیری کی نظر میں غیر اہم اور وقت کا ضیاع ہے؟کیا بارک اوباما
اپنے جلادی اور نام نہاد سفارت کار کو رہا کروا کر ،ملک میں موجود اسی قبیل
کے دوسرے گماشتوں اور کالے پانی کے کارندوں کے ہاتھوں مظلوم،نہتے اور بے بس
اہلیان ِپاکستان کے قتل عام کا کھلا لائسنس تھمانا چاہتے ہیں؟کیا اقتدار کی
کرسیوں پر براجمان مقتدر شخصیات امریکی صدر کے اس حکم :”ہم ریمنڈ کو سفارت
کار سمجھتے ہیں اور پاکستان کو بھی ایسا ہی سمجھنا چاہتے ہیں“سے سرمو
انحراف کرنے کا حوصلہ،ہمت اور سکت رکھتی ہیں؟
بظاہر حکومتی جماعت کی سیکرٹری اطلاعات فوزیہ وہاب کی جانب سے سنایا گیا
حالیہ اعلامیہ ،مذکورہ بالا سوال کا جواب انکار میں دے رہا ہے۔جان کیری کی
جانب سے وفاقی وزیر داخلہ کے پاس ایسے” کاغذات“ کے ہونے کا اعلان ،جس سے
مجرم کو سفارت کار قرار دے کر ممکنہ رعایت ورہائی فراہم کی جاسکتی ہے۔ اِس
کے علاوہ اور کیا معنی رکھ سکتا ہے کہ پس پردہ معاملات اور طریقہ کار طے
پاچکے ہیں۔حکومت عوام کو مطمئن کرنے کے لیے عدالت پر مکمل اعتماد کا پرفریب
جھانسہ دے کر حقائق کو مسخ کرنے کی بھرپور اور ذوجہتین پالیسی پر گامزن
ہے۔سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اسی مبنی برحق موقف اپنانے اور
حکومتی سازباز میں آڑ بننے کی بنا پر کنارے کر دیا گیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پوری قوم عجیب مخمصے اور تعجب کا شکار ہے۔ایک پہلو چار
پاکستانیوں کے خون ناحق کا ہے تو دوسرا رخ اہل سیاست وحکومت کی کہہ مکرنیوں
کا۔ایک سمت اٹھارہ کروڑ عوام ہیں جن کا مطالبہ اور سوال فقط انصاف وعدل کی
بالادستی اور مجرم کا کڑے سے کڑا احتساب ہے تو دوسری جانب قومی سلامتی کو
داﺅ پر لگا دینے والے حکمران اور جبین نیاز امریکی چوکھٹ پر ٹیک دینے والے
خادمان ِ قوم۔ جو ہر حال میں امریکہ کی اطاعت گزاری اور وفا شعاری کو اپنا
فرض منصبی بنائے ہوئے ہیں۔دھونس و دھمکی ،لالچ وطمع اور خوف وہراس کا وہ
کون سا ہتھکنڈا ہے جسے برت کر فیضان حیدر اور فہیم کے اہل خانہ اور ورثا کی
زبان بندی کی سعی نہ کی گئی ہو؟اگر مالکان ِقوم ووطن نے حالات کی نزاکت
وحساسیت کا عدم احساس کر کے، اپنے طاغوتی اور فرعون صفت آقاومولیٰ کے ایجنٹ
کو رہا کردیا ۔تو یقیناً پاکستان تو دور کی بات ،پوری دنیا میں باشندگان
ِوطن کا خون پانی سے زیادہ سستا اور ہلکا سمجھا جائے گا۔
ملکی تاریخ کے اس نازک دوراہے پر جب ہم قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کی بابت کی
جانے والی حکومتی کوششوں وکاوشوں کا موازنہ اور مقابلہ ،حالیہ واقعے سے
کرتے ہیں تو ہماری گردنیں شرم سے جھک جاتی ہیں ۔ایک بے گناہ،بے کس اور
لاچار عورت پر ستم کے کون سے پہاڑ نہ توڑے گئے؟کرب والم کی وہ کون سی سیاہ
رات اور تاریکی ہے جو اس پہ نہ بیتی ہو؟جس کا جرم فقط دعویٰ ایمانی اور
حمیت اسلامی ہے۔جس کا ناتواں جسم، امریکہ کی بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں
اڑانے اور انہیں اپنے پاﺅں کی ٹھوکر پر رکھنے کا، منہ بولتا ثبوت ہے۔جس کی
مرجھائی ہوئی تصویر اور کملائی ہوئی صورت ،ہمارے زرخرید حکمرانوں اور ملک
وبیرون ملک بیٹھے ان کے کاسہ لیسوں کی عدم توجہی ،غیر سنجیدگی اور اپنے
جائز مطالبات سے پسپائی کا مرثیہ پڑھتی اور نوحہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔آج
ایک مرتبہ پھر قومی وملی غیرت سے عاری صاحبانِ کرسی فہیم ،فیضان حید
ر،عبادالرحمن اور مقتول فہیم کی بیوہ شمائلہ کے خون کا سودا کرنے کے لیے،
اپنی بدخوئی وبدفطرتی کے حمام میں ننگے ہونے جارہے ہیں۔کاش اہل حکومت عوامی
امنگوں اور خواہشوں کے تحت مقدمہ کا فیصلہ کر کے ،عوام میں اپنا کھویا ہوا
وقار ومقام بحال کرنے کی فکروسعی کرلیں! |