تحریر: مریم صدیقی
وہ قومیں ہمیشہ کامیاب و کامران رہتی ہیں جو اپنے قومی ورثے کو اپنی نسلوں
میں سینہ در سینہ منتقل کرتی ہیں۔ جو اپنی تاریخی داستانیں اپنی نسل نو تک
پہنچا کر نہ صرف ان کی ذہن سازی کرتی ہیں بلکہ ان میں جوش و ولولہ اور جذبہ
حب الوطنی بھی پیدا کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک داستان ہے ملک و قوم کے عظیم
سپوت محمد محمود عالم کی جنہوں نے شجاعت و بہادری کی وہ تاریخ رقم کی جسے
رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ قوم کے اس عظیم سپاہی کو ہم سے بچھڑے آج چھ
برس بیت گئے لیکن ان کا نام ہمارے دلوں میں اور تاریخ پاکستان میں ہمیشہ
زندہ رہے گا۔
محمد محمود عالم اقبال کے ایسے شاہین کا نام ہے جو آج بھی دشمن کو لرزانے
کے لیے کافی ہے۔ 6 جولائی 1935 کو کلکتہ کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں
آنکھ کھولی۔1951 میں سندھ گورنمنٹ ہائی اسکول ڈھاکہ (سابقہ مشرقی پاکستان)
سے ثانوی تعلیم مکمل کی۔ پائلٹ بننے کا جنون سوار ہوا تو 1952 میں پاک
فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور 2 اکتوبر 1953 کو کمیشنڈ عہدے پر فائز
ہوئے۔ دوران سروسز ایم ایم عالم کئی کورسز کرتے رہے جن میں فائٹر کنورژن
کورس، فائٹر لیڈر کورس، پی اے ایف اسٹاف کالج کورس۔ امریکا سے اورینٹیشن
ٹریننگ کورس اور برطانیہ سے رائل ڈیفنس اسٹدیز کورس شامل ہیں۔ ان کے بھائی
محمد شاہد عالم نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر تھے اور
دوسرے بھائی محمد سجاد البانی میں طبعیات دان تھے۔
ایم ایم عالم پاک فضائیہ کی تاریخ کے وہ جانباز و دلیر سپاہی ہیں جنہوں نے
1965 کی جنگ میں دشمن کو شکست سے دوچار کیا، جنہیں اس عظیم کارنامے اور
شجاعت و بہادری کے مظاہرے پر لٹل ڈریگن کا خطاب دیا گیا۔ 7ستمبر 1965 کی
صبح دشمن نے پاک فضائیہ کے اہم اڈے سرگودھا کو فضائی حملے کا نشانہ بنایا۔
بھارت کو علم تھا کہ پاک فضائیہ میں سرگودھا ائیر بیس کو مرکزی حیثیت حاصل
ہے۔ بھارتی فضائیہ کے ہلواڑہ کے اسکارڈن لیڈر ڈی ایس جوگ نے 5 ہنٹر طیاروں
کی قیادت کرتے ہوئے سرگودھا پر حملہ کیا۔ کنٹرول روم کو جیسے ہی حملے کی سن
گن ملی تو ایم ایم عالم اور ان کے ساتھی فلائٹ لیفٹننٹ مسعود اختر کو ان
طیاروں کا پیچھا کرنے کو کہا گیا۔ 1965 کی جنگ کے وقت ایم ایم عالم پاک
فضائیہ کے اسکوارڈن نمبر 11 کی کمان کر رہے تھے جب کہ بھارت کو منہ توڑ
جواب دینے والے سیبرز کی قیادت فلائٹ لیفٹننٹ امتیاز بھٹی کر رہے تھے۔ ایم
ایم عالم کی نظر دشمن کے ہنٹرز طیاروں پر تھی۔ ان میں سے ایک طیارے نے
درختوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی اور عین اسی وقت ایم ایم عالم کے میزائل
کی زد میں آگیا۔ نشانے سے آگاہ کرنے والے آلے نے ہنٹر طیارے سے خارج ہونے
والی تپش سے سگنل کو آگاہ کیا۔
بہترین عقابی بصیرت اور اپنی ذہانت کا بروقت استعمال کرتے ہوئے ایم ایم
عالم نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر دوسرا میزائل بھی داغ دیا۔ جس کے بعد
کئی ہنٹرز طیارے بھاگتے دکھائی دیے۔ ایم ایم عالم نے اپنے ایف 86 سے ایک
منٹ کے اندر پانچ طیارے مار گرائے۔ جس میں سے ابتدائی 4 طیارے صرف 30
سیکنڈز میں تباہ کیے گئے اور یہ ایک عالمی ریکارڈ تھا۔ ان کا یہ کارنامہ
گنیز بک آف ورلڈ میں درج ہے۔ اس ناقابل یقین کامیابی جسے معجزہ کہا جائے تو
غلط نہ ہوگا کے بعد مسرت کے عالم میں 5 طیاروں کی تباہی کی خبر کنٹرول روم
میں دی گئی۔ یہ وہ تاریخ ساز کامیابی تھی جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے
گا۔
اس 17 روزہ جنگ میں ایسے ہی جانبازوں کی بدولت پی اے ایف نے مجموعی طور پر
دشمن کے 35 طیاروں کو فضا اور 43 کو زمین پر تباہ کیا جب کہ 32 طیاروں کو
شکن گنوں نے نشانہ بنایا۔ یوں مجموعی طور پر بھارت کے 110 طیارے تباہ ہوئے
جب کہ بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستان کے 19 طیاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
اس جنگ میں محدود وسائل کے باوجود پاک فضائیہ نے اپنے سے تین گنا زیادہ
مسلح اور دس گنا بڑے ملک کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ اس جنگ میں
پاک فضائیہ نے نہ صرف دشمن طیارے مارگرائے بلکہ دشمن کے طیارے کو کپتان
سمیت نیچے اترنے پر مجبور کردیا۔ یہ طیارہ آج بھی پی اے ایف میوزیم کراچی
میں بطور یادگار موجود ہے۔
7 ستمبر کے اس تاریخ ساز معرکہ حق و باطل سے متعلق قبل از وفات ایک انٹرویو
دیتے ہوئے ایم ایم عالم کے الفاظ تھے، ’’پانچ جہاز گرانا ایک معجزہ تھا۔ اﷲ
نے مجھے موقع دیا ورنہ ہوتا یہ ہے کہ جہاز پرواز کرکے چلے جاتے ہیں۔ دس
دفعہ مڈبھیڑ ہو تو اس میں ایک یا دو یا زیادہ سے زیادہ تین جہاز گرالیے
جاتے ہیں لیکن اکٹھے پانچ جہاز، میں سمجھتا ہوں اﷲ نے میرا جذبہ دیکھتے
ہوئے مجھے یہ اعزاز بخشا۔
وطن عزیز پاکستان کے اس درخشندہ ستارے کو اس تاریخ ساز کارنامے پر ستارہ
جرات سے نوازا گیا۔ جب کہ لاہور کے علاقے گلبرگ میں ایک اہم شاہراہ کا نام
ایم ایم عالم روڈ رکھا گیا۔ پی اے ایف میوزیم میں ایک کارنر بھی ایم ایم
عالم کے نام سے مختص کیا گیا ہے۔ایم ایم عالم کا یہ کارنامہ ہے جس کے باعث
آج بھی پوری دنیا پر پاکستان کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے آج بھی تمام ممالک
جانتے ہیں کہ پاکستان کی طرف ٹیڑھی نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں بھی
پاکستانی شاہین نوچ لیا کرتے ہیں لیکن اپنے وطن پر آنچ بھی نہیں دیتے۔ اس
قوم میں آج بھی کئی ایم ایم عالم موجود ہیں جو ہمہ وقت اپنے ملک و قوم کی
حفاظت کر رہے ہیں۔
پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والا قوم کا یہ عظیم سپوت 18 مارچ 2013
کو 73 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد اس جہانی فانی سے کوچ کرگئے۔
عقابوں کے تسلط پر فضائیں فخر کرتی ہیں
خودی کے رازدانوں پر دعائیں فخر کرتی ہیں
بطن کے جن سے بیٹے پیدا ہوں محمود عالم جیسے
وہ دھرتی سر اٹھاتی ہے، وہ مائیں فخر کرتی ہیں |