پاکستان میں سعودی عرب کے سفارتخانے نے
ٹویٹرپراردوزبان میں ایک پیغام جاری کیاہے جس میں کہاہے کہ پاک بھارت
معاملات معمول پر لانے میں ریاض نے اہم کردار اداکرتے ہوئے علاقائی امن
خراب ہونے سے بچالیا، وزیر مملکت خارجہ عادل الجبیر کے دونوں ملکوں کے دورے
بھی اسی سلسلے کی کڑی تھے۔ ترجمان سعودی سفارتخانے نے مزید کہا ہے کہ
پاکستان اور بھارت کے معاملات معمول پر آرہے ہیں۔عادل الجبیر کے دونوں
ممالک کے دوروں کو بہت پذیرائی ملی سعودی سفارتخانے نے مزید کہا عادل
الجبیر کے دورے سعودی قیادت کی ہدایت کی روشنی میں ہوئے، عادل الجبیر نے
علاقائی سلامتی و امن کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری طرف سعودی کابینہ کا اجلاس خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز
کی زیر صدارت ریاض کے قصر یمامہ میں منعقد ہوا۔میڈیارپورٹس کے مطابق کابینہ
نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کم کرانے سے متعلق سعودی قیادت
کے مشن کے نتائج پر مشتمل رپورٹ وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر
سے سنی۔ جس پراطمینان کااظہارکیاگیا، الجبیر شاہی ہدایت پر پاکستان اور
ہندوستان کے دورے پر آئے تھے۔ انہوں نے یہاں دونوں ملکوں کے درمیان گرما
گرمی کو کم کرنے اور حالات کو معمول پر لانے کے حوالے سے سعودی قیادت کی
ہدایات کے مطابق ملاقاتیں کرکے مذاکرات کئے۔ انہوں نے خطے میں امن و
استحکام کو متاثر کرنے والے کسی بھی اقدام سے دونوں ملکوں کو باز رکھنے کی
بابت سعودی قیادت کا پیغام دونوں ملکوں کے رہنماؤں کو پہنچایا۔
دوسری طرف چین نے مولانامسعود ازہرکودہشت گردقراردینے کی قراردادویٹوکرکے
بھارتی سازش ناکام بنادی چین نے پاکستان کے ساتھ سچی دوستی ایک بار پھرثبوت
دے دیاقراردادپرچین کے تکنیکی اعتراض کے بعد معاملے کو چوتھی بارموخرکردیا
گیا، یوں چنددنوں میں بھارت کوایک اورشکست کاسامناکرناپڑا،بھارت کی تمام
ترسفارت کاری چین کے ایک منٹ کے ویٹونے ختم کردی ۔مسعود اظہر کو عالمی دہشت
گرد قرار دینے کی تجویز سلامتی کونسل کے پانچ میں سے تین مستقل اراکین
امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے 27 فروری کودی تھی۔یہ تجویز انڈیا کے زیرِ
انتظام کشمیر میں 14 فروری کو ضلع پلوامہ میں ہونے والے ایک فدائی حملے کے
بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1267 سینکشنز کمیٹی کے تحت دی گئی
تھی۔سفارتی ذرائع کے مطابق چین کی جانب سے تکنیکی طور پر قرارداد کو
موخرکروانے کا دورانیہ 6ماہ ہوگا اور اس میں مزید 3ماہ کا وقت لگ سکتا ہے،
تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ اس ویٹوسے قبل چین نے اپنے وزیر خارجہ کو
پاکستان بھیجا اور انڈیا سے بھی بات کرکے ثالثی کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
سعودی عرب کی طرح چین بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرانا چاہتا
ہے۔
سلامتی کونسل میں مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی تجویز پر چین کی
جانب سے ویٹو کئے جانے کے بعد بھارت میں شدید ناراضی دیکھی جا رہی ہے،بھارت
میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کردی گئی ہے،کنفیڈریشن آف آل
انڈیاٹریڈرز نے تاجروں سے کہا کہ تاجر چینی مصنوعات خریدیں نہ فروخت کریں
تاہم ایک رپورٹ کیمطابق اقدام سے بھارت میں مہنگائی کا طوفان آئیگا ،دوسری
جانب حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے پر شدید الزامات بھی لگانا شروع کردیے
ہیں، سعودی عرب اورچین یہ پاکستان کے وہ دوست ممالک ہیں کہ جن کی دوستی
پرپاکستان کوہمیشہ فخررہاہے حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں سعودی عرب اورچین
نے جہاں جنگ روکنے میں نہایت اہم کرداراداکیاہے وہاں دونوں ممالک نے بھارت
کے ساتھ تجارتی اورمعاشی مفادات وابستہ ہونے کے باوجود انڈیاکے مؤقف کی کسی
بھی سطح پر حمایت نہیں کی ہے ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے خلاف حالیہ
کشیدگی میں یہ خبریں بھی منظرعام پرآئیں کہ بھارت اسرائیل اورایک تیسراملک
مل کرپاکستان کے خلاف حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے توایسے حالات میں
پاکستان کے دوست ممالک کامتحرک ہوناہماری بڑی سفارتی کامیابی ہے ،خاص کرکے
جس طرح ان مشکل حالات میں سعودی عرب اورچین نے کرداراداکیاہے اس کی مثال
نہیں ملتی ۔سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت کے بعدان تینوں ممالک کے ہرقسم
کے مفادات یکساں ہوگئے ہیں، اب ان تینوں ممالک کے فائدہ ونقصان بھی مشترکہ
ہوگیاہے اس لیے یہ تینوں ممالک گیم چینجرکی حیثیت اختیارکرچکے ہیں اورحالیہ
پاک بھارت جنگ نے یہ ثابت کیاہے کہ اگران تینوں ممالک کایہ
اتحادبرقراررہاتودنیاکی کئی کوئی طاقت پاکستان کوشکست نہیں دے سکتی۔
پاکستان سعودی عرب اور چین کے درمیان ایک اہم معاشی پل کی حیثیت رکھتا ہے،
جس سے یہ دونوں ممالک فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ چین کی توانائی ضروریات (جو کل
دنیا کی ایک چوتھائی بنتی ہے)کا سب سے بڑا سپلائر سعودی عرب ہے، چین اس اہم
ذریعے کو محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ اس اقتصادی راہداری سے چین کا بنیادی مقصد
یہ ہے کہ وسط ایشیا کے واسطے یورپ تک زمینی تجارت کو بڑھایا جائے، تاکہ
سمندری تجارت کے مہنگے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔مشرق وسطی میں دنیا کے ثابت
شدہ خام تیل کے 50 فیصد سے زائد ذخائر ہیں اور چین اپنی ضرورت کا 50 فیصد
سے زائد تیل مشرق وسطی سے درآمد کرتا ہے اور یہ تیل ایک طویل سفر کے بعد
چین پہنچتا ہے، اس راہداری کی تکمیل کے بعد یہ مسافت 12000 کلومیٹرز کم
ہوجائے گی جو چین کے لیے یقینا بہت بڑا اقتصادی فائدہ ہے۔یوں یہ تینوں
ممالک قدرتی اورفطری طورپربھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ان تینوں ممالک
اوران سے وابستہ دیگرممالک کے اتحادکے ساتھ جوبلاگ بننے جارہاہے دراصل
انڈیاسے اس سے خائف ہے اوراسی لیے اس کی کوشش ہے کہ پاکستان کوعدم استحکام
کاشکارکیاجائے تاکہ مستقبل میں بننے والایہ اتحادختم ہوسکے مگرپھونکوں سے
یہ چراغ بجھایانہیں جائے گا ۔
پاکستان پر گزشتہ دوعشروں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کرپشن نے جو برے
اثرات مرتب کئے اس میں پاکستانی معیشت بہت بری طرح متاثر ہوئی،یہاں تک کہ
بعض بدخواہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کا اظہار کررہے تھے ۔ لیکن
چین اورسعودی عرب نے جس طرح آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی اسے ساری دنیا نے
دیکھا، تو یہ بات بلا خوف تردید ببانگ دہل کہی جا سکتی ہے کہ واقعی ان
ممالک کی پاکستان کے ساتھ دوستی اور ہمدردی وغمگساری ہر آزمائش پر پوری
اتری ہے ۔ اﷲ سے دعا ہے کہ پاکستان ان مشکلات سے سرخرو ہو کر نکلے اور ترقی
کی شاہراہ پر گامزن ہو۔ لیکن پاکستانی کبھی بھی ان ملکوں کا احسان بھلا نہ
سکیں گے۔ ان تین ملکوں کے دل جس طرح بیک وقت دھڑکتے ہیں شاید دنیا میں اور
کہیں ایسا ہو۔
پاک بھارت اس کشیدگی کے ماحول میں 23مارچ یوم پاکستان کے موقع پرمنعقدہونے
والی افواج پاکستان کی پریڈمیں پہلی مرتبہ سعودی عرب ،آذربائیجان کے فوجی
دستوں کامارچ پاسٹ اورسعودی عرب ،بحرین وسری لنکاکے پیراٹروپرسمیت ترکی کے
ایف 16اورچین کے جنگی لڑاکاطیارے J-10بھی مارچ پاسٹ میں شرکت کریں گے،یوم
پاکستان کے موقع پرپاکستان کے دوست ممالک کی شرکت بھارت جیسے دشمنوں کے لیے
یہ واضح پیغام ہے کہ پاکستان اکیلانہیں ،دوست ممالک پاکستان کے ساتھ
بھرپورقوت کے ساتھ کھڑے ہیں اورمشکل وقت میں بھی انہوں نے ہماراساتھ دے
کردوستی کاحق اداکیاہے ۔ ان دوست ممالک کاپاکستان کے اظہاریکجہتی اس بات کی
غمازی کررہاہے کہ پاکستان کے دوستوں میں اضافہ اوربھارت کے دوستوں میں کمی
ہورہی ہے خطے میں بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظرپاکستان کی اہمیت بڑھ رہی ہے
جبکہ بھارت مودی جیسے انتہاپسندوں کی وجہ سے مسائل کی دلدل میں
دھنستاجارہاہے ۔اگلے ماہ ہونے والے الیکشن میں بھارتی عوام نے اگرہوش مندی
سے کام نہ لیاتوان کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتاہے ۔
|