پاکستان میں بڑھتے ہوئے ایڈزکے مرض کے لیے قانون سازی
کرنا ضروری ہوگی۔کیونکہ ملک بھرمیں ایچ آئی وی، ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی
تعداد تین لاکھ سے تجاویز کرچکی ہے۔اس حوالے سے پنجاب کے اضلاع مظفرگڑھ،
ڈیرہ غازی خان ، راجن پور، سرگودھا سمیت دیگر علاقوں شامل ہیں جن کوٹ مومن
سرفہرست ہے۔اس بارے میں ماہر ین کئی تقریبات میں کہہ چکے ہیں کہ ہر سال
ایڈز میں تقریباً 30ہزار افراد مبتلاہوتے ہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ
پرائمری سکینڈری ہیلتھ کیئریراور ایڈ زکنٹرول پنجاب ڈاکٹر عاصم لطاف اور
سجاد حفیظ بہت ہی ایماندار شخصیات ہیں۔ اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔
کیونکہ محترم ڈاکٹرعاصم الطاف صاحب ایڈز توکنٹرول پروگرام کے ذریعے اس وقت
ارب پتی بن چکے ہیں۔ایسے لگتا ہے ڈاکٹر عاصم الطاف بھی ایک بے حس اور ضمیر
فروشوں کی طرح ایڈز کے مریضوں کو فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔بتایا جاتاہے کہ
ڈاکٹر عاصم الطاف نے ایڈزکنٹرول پروگرام کا چارج سنبھالتے ہی ایک گروہ
تشکیل دیااور ایڈزکنٹرول پروگرام کے فنڈز سے مختلف ممالک کے دورہ میں اربوں
روپے ضائع کرچکے ہیں۔دوسری جانب حکومتی سطح پر دعویٰ کیا جارہاہے کی
پاکستان میں 2030ء تک ایڈز کے مرض پر مکمل قابو پالیا جائے گا۔ لیکن حقیقت
یہ ہے کہ 2030ء تک صرف پاکستان بھر میں ایڈزکے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے
تجاویز کرجائے گی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ چند دنوں تک ایڈز کنٹرول پروگرام اپنے انچارج سے محروم
ہو جائے گا کیو نکہ ڈاکٹر عاصم الطاف اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ احتساب سے
بچنے کے لیے بیرون ملک منتقل ہونے جارہے ہیں۔ ڈبلیوایچ اوسمیت دیگرخیراتی
اداروں کی فنڈنگ کاآڈٹ کیا جائے گا۔جس کا اعلان باقاعدحکومت کرچکی ہے۔
محکمہ صحت پنجاب میں کرپٹ ترین افرادمیں ڈاکٹر عاصم الطاف سرفہر ست ہیں۔
گزشتہ سال وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ورلڈ ایڈز ڈے سے متعلق
گول میز کانفرنس میں ماہرین طب نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال 20 ہزار سے
زائد افراد کو ایچ آئی وی ایڈز ہو رہا ہے۔ 60 فیصد سے زائد ایڈز کے مریض
پنجاب میں ہیں۔تفصیلات کے مطابق ورلڈ ایڈز ڈے سے متعلق گول میز کانفرنس
منعقد ہوئی جس میں ارکان پارلیمنٹ نے شرکت کی۔کانفرنس میں ماہر طب ڈاکٹر
بصیر نے بتایا کہ پاکستان میں ایک لاکھ 50 ہزار افراد ایچ آئی وی ایڈز کا
شکار ہیں جن میں سے صرف 25 ہزار افراد علاج کے لیے رجسٹر ہیں۔انہوں نے
بتایا کہ مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے مگر متاثرہ لوگ علاج کروانے نہیں
آتے، ہر سال 20 ہزار سے زائد افراد کو ایچ آئی وی ایڈز ہو رہا ہے۔ ’60 فیصد
سے زائد ایڈز کے مریض پنجاب میں ہیں‘۔کانفرنس میں رکن قومی اسمبلی ستارہ
ایاز نے کہا کہ شہری علاقوں کے رہنے والے بھی علاج کروانے کے لیے نہیں آتے،
’ہماری ناکامی ہے کہ ہم نے قومی سطح پر ایڈز سے متعلق آگاہی نہیں دی‘۔یو
این ایڈز کے کنٹری ڈائریکٹر ایڈمرلین بورومیو نے کہا کہ پاکستان نے ایڈز کے
خاتمے کے لیے اقدامات کیے ہیں، پاکستان میں صرف 16 فیصد ایڈز کے مریض چیک
اپ کرواتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایڈز کے خاتمے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی،
امید ہے کہ پاکستان 2030 تک ایڈز پر قابو پا لے گا۔ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی
قاسم سوری کا کہنا تھا کہ ایڈز پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے، یہ ایسی
بیماری جس کا نام لینے سے بھی لوگ گھبراتے ہیں۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار ایچ آئی
وی اور ایڈز کے مریض موجود ہیں۔پریس کلب پشاور میں نیشنل ایڈز کنٹرول
پروگرام کے زیر اہتمام آگاہی پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں
خیبرپختونخوا کے ماہر ڈاکٹر سعید، ڈاکٹر جمیل اور دیگر ڈاکٹرز سمیت یو این
ایڈز کنٹرول پروگرام کی ٹیم نے شرکت کی، اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ
ایچ آئی وی ایڈز جنسی تعلقات، استعمال شدہ انجیکشن کا دوبارہ استعمال، خون
کی منتقلی اور ماؤں سے بچوں کو منتقل ہوتا ہے خیبرپختونخوا میں 2005 سے لے
کراب تک 4622 رجسٹرڈ ایڈزکے مریضوں کو مفت ادویات دی گئیں ہیں جن سے وہ
مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں جبکہ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب
سے صوبے کی مختلف جگہوں پر سینٹرز بنائے گئے ہیں، جس کا مقصد لوگوں میں اس
بیماری کے حوالے سے شعور بیداری پیدا کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے
معاشرے میں جس شخص کو ایچ آئی وی ایڈز لاحق ہوتا ہے تو نہ ہی اس کا خیال
رکھا جاتا ہے بلکہ اس کو اپنے گھر سے باہر نکال دیا جاتا ہے جبکہ صوبے میں
سینٹرز قائم کرنے کا مقصد لوگوں میں ایچ آئی وی ایڈز کے بارے میں آگاہی
پیدا کرنا ہے تاکہ اس کی روک تھام اور علاج بروقت ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ اس
وقت ملک میں ایڈز ناسور کی طرح پھیل رہا ہے جس کی وجہ سے سے ایشیا میں
پاکستان دوسرے نمبر پر ہے اس وقت پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار
ایڈز کے مریض موجود ہیں جس میں صوبہ پنجاب میں پچاس فیصد، سندھ 43 فیصد،
خیبرپختونخوا بشمول قبائلی اضلاع 5 فیصد اور بلوچستان میں 2 فیصد مریض
موجود ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں 16 ہزار رجسٹرڈ کیسز ہیں جبکہ ملک میں غیر
رجسٹرڈ ایک لاکھ 74 ہزار خواتین، 8 لاکھ 35 ہزار مرد اور53 ہزار خواجہ سرا
کو ایڈز کا مرض لاحق ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں رجسٹرڈ مرد مریضوں کی تعداد
11 ہزار تین سو 38، خواتین تین ہزار ایک سو 71، خواجہ سرا 210، لڑکے 274
اور لڑکیوں کی تعداد 297 ہے۔وفاقی حکومت نے ایڈز کی روک تھام کیلئے رواں
سال 14 ملین روپے مختص کیے ہیں انہوں نے کہا کہ ایڈز ایک ایسا مرض ہے جس کا
علاج ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کو شرم اور دیگر مسائل
کی وجہ سے لوگ ظاہر نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہ بیماری پھیل رہی ہے انہوں نے
کہاکہ ایڈز کی بیماری سے بچاؤاور روک تھام کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا
ہوگا۔ |