پوری دنیا امن کی طلبگار ہے کیونکہ انسان جنگ و جدل کا
نہیں بلکہ امن وسکون اور محبت کا متلاشی ہے۔جنگ نفرت کی علامت ہے اور نفرت
قتلِ عام پر منتج ہوتی ہے۔ذاتی انا اور نفرت نے ہی تو دو عالم گیر جنگوں کو
برپا کیا تھا۔انانیت جب اپنی حدود سے تجاوز کر جاتی ہے تو پھر انسانیت کا
قتلِ عام ناگزیر ہو جاتا ہے۔انانیت دوسروں کوجھکانے اور انھیں غلام بنانے
کے ایسے جذبوں سے مزین ہوتی ہے جس کا نتیجہ فساد فی الا رض ہو تا ہے تبھی
تو فرمانِ الہی ہے کہ فتنہ کفر سے بھی شدید تر ہے اور پھر انہی فتنوں سے
انسانی قتلِ عام کا ایسا مظاہرہ ہوا کہ انسانیت نے آنسووں کا لبادہ پہن لیا
۔ لیکن اس کے باوجود انسان کی امن کی خوا ہش ملیا میٹ نہیں ہوتی بلکہ یہ
سدا زند ہ رہتی ہے کیونکہ اسی میں انسانیت کی بقا پرورش پاتی ہے۔اسلحہ کے
بڑے بڑے ڈپو جھنیں اپنی حفاظت کی خاطر قائم کیا جاتا ہے وہی اسلحہ جارحیت
پر منتج ہو تا ہے اور معصو موں کا لہو دھرتی کی پیاس بجھانے کے کام آتا ہے
حالانکہ تخلیقِ آدم کی رو سے صحنِ انسانیت کو مہکنا ہو تا ہے۔یہ بدنصیبی ہی
تو ہے کہ انسان ذاتی انا کی خاطر اپنے ہی ہم نفسوں کو ملیا میٹ کرنے پر تل
جاتا ہے ۔ تاریخ میں نام بنانے اور فاتح عالم کہلانے کا خناس انسانی تباہی
کا پیش خیمہ بن جاتا ہے لیکن بے شمار کشت و خون کے باوجود انسان مشکل ترین
گھڑیوں میں بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتا ۔وہ اچھے دنوں کی آس میں جنگ کو
بھی برداشت کر جاتا ہے کیونکہ اسے یقین ہو تاہے کہ محبت کی بستیاں ضرور
آباد ہوں گی اور آنے والی نسلیں اس کے ثمرات سے بہرہ ور ہوں گی ۔ جنگ وقتی
ابال اور جذباتیت کا نام ہے جبکہ امن خوشخالی اور رجائیت کے تسلسل کا نام
ہے اور یہی ارتقاء اس کے حسن کی بنیاد ہے ۔ہم نے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم
میں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اترتے دیکھا ہے جس سے جنگ کے خلاف نفرت
کی شدت کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔جنگ سے گھر اجڑ جاتے ہیں،بستیاں
ویران ہو جاتی ہیں اور محبت کے پجاری آنسوؤں اور سسکیوں میں گھٹ گھٹ کردم
توڑ دیتے ہیں اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ان کی زندگی بیم و رجا
کے درمیان پنڈولم کی طرح معلق رہتی ہے کیونکہ بارود کا دھواں ان سے ساری
مسکراہٹیں چھین لیتا ہے۔ یورپ کی ترقی ان کی امن پسندی کا تحفہ ہے ۔امریکہ
جو موجودہ دنیا کا چوہدری ہے وہ جنگ کوا پنی دہلیزتک پہنچنے نہیں دیتا بلکہ
دوسرے ممالک میں فوج کشی کر کے جنگ کے شعلے دوسرے برِ اعظموں میں بلند کرتا
رہتا ہے ۔ آجکل افغانستان اس کی جنگی سرگرمیوں کا محور بنا ہوا ہے۔،۔
تقسیمِ ہند میں ذاتی انا کی خاطر لاکھوں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا
اور ان کے لہو سے آزادی کے خواب کو داغدار کیاگیا۔۔اپنوں کے بہائے گے لہو
نے پاکستانیوں کو کبھی چین سے سونے نہیں دیا۔ایک کانٹا ہے جو ان کے دلوں
میں پیو ست ہے اور انہیں گاہے بگاہے بے چین و بے کل کر دیتا ہے۔نفرت کے
انہی شعلوں نے برِ صغیر کو کبھی امن کا ماحول نہیں دیا بلکہ مخاصمت اور
کچھاؤ کی کیفیت نے یہاں کے باسیوں کے سکھ چین کو گروی رکھ لیاہے ۔بھارت
اپنی طاقت کے زعم میں اپنے ہمسائیوں کو جس طرح دبا کر رکھنا چاہتا ہے اس سے
پورا خطہ جنگی کیفیت میں مبتلا ہے۔بھارت کا جنگی جنون امن کیلئے مسلسل خطرہ
ہے۔اس کا جب جی چاہتا ہے طبلِ جنگ بجا دیتا ہے ۔اپنے ہمسائیوں کو خوف
اوردباؤ میں رکھنے کیلئے بھارت نے ۱۹۷۲ میں ایٹمی دھماکے کئے تو طاقت کا
ساراتوازن بھارت کے حق میں چلا گیا جس سے پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات
لا حق ہو گے۔بھارتی سپر میسی سر چڑھ کر بول رہی تھی اور پاکستان بے بسی کی
تصویر بنا ہوا تھا۔آزمائش کی گھڑیوں میں پا کستان کیلئے کوئی راستہ نہیں
بچا تھا اور پھر بنگلہ دیش کے قیام نے اسے انتہائی حساس بنا رکھا تھا۔وہ
ایک اور بنگلہ دیش کا صدمہ سہنے کے قابل نہیں تھا ۔ بھارتی جنگی جنون کو
قابو میں رکھنا پاکستان کیلئے ممکن نہیں تھا۔وہ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا
تھا اور کسی ایسے معجزہ کی تلاش میں تھا جس سے اس کی عسکری حیثیت بھی مسلمہ
ہو جائے اور بھارت اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کر سکے۔لوہے
کو لوہا کاٹتا ہے لہذا ایٹم بم کا جواب ایٹم بم ہی ہو سکتا تھا۔قوت کو قوت
سے ہی روکا جا سکتا ہے۔اس زمانے میں ذولفقار علی بھٹو جیسا صاحبِ فہم و
فراست لیڈر اقتدار کی مسند پر برا جمان تھا اور اسے بخوبی علم تھا کہ برِ
صغیر کی بقا کس میں ہے؟ ذولفقار علی بھٹو نے ملکی دفاع کیلئے ایٹم بم کے
حصول کا فیصلہ کیا اور ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود اپنے فیصلے سے رو
گردانی نہ کی۔اقبال و قائد کے سچے پیرو کار کی حیثیت سے اپنی کرشماتی قیادت
سے شکست خوردہ قوم میں خود اعتمادی اورامید کے جو چراغ روشن کئے اس نے
بھارت کے اوسان خطا کر دئے ۔ذولفقار علی بھٹو کا ایٹمی قوت کے حصول کا
فیصلہ ایک ایسا عظیم فیصلہ تھا جس نے برِ صغیر کاپورا نقشہ بدل کر رکھ
دیا۔انھوں نے شملہ معاہدہ سے ایک طرف جنگ کے بادلوں کو ٹھنڈا کیا ، امن کو
پروان چڑھایا، تو دوسری طرف ایٹمی صلاحیت کے حصول کے کام کو مزید مہمیز دے
کر پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنادیا۔ان کی شہادت بھی اسی ایٹمی پروگرم کی
وجہ سے تھی۔وہ خود تو شہید ہو گئے لیکن پاکستان کو ایک ایسا استحکام اور
مضبوطی عطا کر گے کہ دشمن کو ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہی
۔ بھارت جنگ کی دھمکیاں دیتارہیگا ،جارحیت بھی کرتا رہیگا لیکن ایسا کرتے
وقت اس کے ہاتھ کانپتے رہیں گے کیونکہ اسے پاکستان کی ایٹمی صلا حیت نظر آ
جاتی ہے جو پورے بھارت کا صفایا کرنے کیلئے کافی ہے۔ میں اس وقت جنگ کا
ماحول دیکھ رہا ہوں تو میری آنکھوں میں ذولفقار علی بھٹو کی دور نگاہی گھوم
رہی ہے اور ان کے اعلی صلاحیتوں کے دیپ جل رہے ہیں۔دنیا نے انھیں ایک مدبر
کا نام ایسے ہی تو نہیں دیاتھا۔انھوں نے انتہائی چابکدستی سے مفلوک الحال
قوم کو ایٹم کا تحفہ ے کر امن کو یقینی بنایا ۔ برِ صغیر کا امن ذولفقار
علی بھٹو کے طاقتور ویژن کا مرہونِ منت ہے ۔ وہ عوام دوست اور دیش پریمی
تھا جو بیک وقت عوام اوروطن کو محفوظ بنا رہا تھا ۔ آج کا امن در اصل
ذولفقار علی بھٹو کی بلند نگاہی کا تحفہ ہے جس پر قوم سدا ان کی ممنون و
مشکور رہے گی ۔ اگرہمارے پاس ایٹمی صلاحیت نہ ہوتی تو بھارت کب کا ہم پر
چڑھ دوڑتا اور ہمیں اکھنڈ بھارت کا حصہ بنا لیتا۔وہ اکھنڈ بھارت جس کیلئے
وہ صدیوں سے پیچ و تاب کھا رہا ہے ۔ ایک طرف ایٹمی صلاحیت ہے تو دوسری طرف
جذبہ شہادت سے لیس پاک فوج ہے جو موت کو یوں گلے لگاتی ہے جیسے یہ کوئی
خوبصورت پھول ہو ۔پاک فوج کے ہر جوان کیلئے موت کی آرزو ایسے ہی جیسے کوئی
صالح انسان اولاد کی خواہش کرتا ہے۔ وہ جان نچھاور کرتے جاتے ہیں اور شہادت
کا جامہ پہنتے جاتے ہیں۔خوف کے کسی احساس کا ان کی زندگی میں کوئی گزر نہیں
ہوتا۔بھارت جیسے چھ گنا بڑے دشمن کو بزدلی سے تو نہیں روکا جاسکتابلکہ اس
کے لئے بسالتوں اور قربانیوں کا تیل درکار ہو تا ہے اور ہمارے فوجی جوان
اپنے لہو سے وطن کے دئے کو تیل دے رہے ہیں ۔ بھارت نے مشرقی پاکستان میں جو
کھیل کھیلا تھا وہ اسے ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہے لیکن اب ایسا ممکن نہیں
ہے ۔ آج کاپاکستان کوئی کمزور ریاست نہیں کہ جس پر جب چاہو چڑھ دوڑو ۔سچ تو
یہ ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اس کے جوان بسالتوں کے کو ہمالیہ
ہیں جو وطن کی جانب اٹھنے والے ہاتھوں کو کاٹنے کا فن جانتے ہیں ۔نریندر
مودی اس وقت ایک ایسی مچان پر بیٹھا ہوا ہے جس کا واحد مقصد پاکستان کو
شکار بنانا ہے لیکن اسے خبر نہیں کہ اس کا واسطہ کس قوم کے ساتھ ہے؟بھارت
جنگ کو جتنا بڑھاوا دے گا اسے اتنی ہی بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے
گاکیونکہ شیر دل بہادروں کے سامنے ٹھہرنا اس کی فوج کے بس میں نہیں ہے۔،۔ |