ڈاکٹر دانش بڑے سمجھ دار انسان ہیں لیکن ہر سیانا کوئی نہ
کوئی غلطی تو کر ہی جاتا ہے۔پتہ نہیں زلفی بخاری نے ان کا کیا بگاڑا ہے ۔
ہے بہت آسان کسی کی بھی پگڑی اچھالنی ہو چھوٹے موٹے چینل کے صحافی اٹھا لیں
گے مائیک اور بنا دیں گے بات کا بتنگڑ۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنے
آٹھ ماہ ہوئے ہیں ۔لیکن مہاشے اینکرز او میڈیا چینیلز کے لوگ اسے سمجھ
بیٹھے ہیں کہ یہ برسوں کے تجربہ کار لوگ ہیں اور ان کی کارکردگی کے معیار
وہ رکھ دئے ہیں جن تک پہنچنے میں بھی مدت لگے گی۔اس پون سال کے عرصے میں
کوئی ایک سکینڈل کوئی ایک کرپشن کا واقعہ تو سامنے آیا نہیں بس ادھر ادھر
کی پکڑ کے انہیں پریشان کرنے کی کوشش جاری ہے۔
توقعات تمنائیں اور خواب واقعی بہت سی تھیں اور رہیں گی لیکن استعجالی
کیفیت مناسب نہیں ہے دو روز پہلے پی پی ۱۸ اور این اے ۶۲ کے حلقے کے
کارکنوں سے ملنے گیا تنگ و تاریک گلیوں میں ملک عمران ضرب علی اور ان کے
دوستوں کے گلے شکوے سنے سچ پوچھیں اگر کارکنوں کی بات ہی سن لی جائے تو
کوئی بڑی بات نہیں۔دوسری بڑی بات ہمارے وزراء نے جو اچھے کام کئے جو کرنے
جا رہے ہیں ان کی تشہیر بھی تو نہیں ہوئی یہی رونا کے پی کے کی سابق حکومت
سے تھا کہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں وہ نظر کیوں نہیں آ رہا۔عوام پریشان تھی
اور ہے لیکن جو اچھے کام جو پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں نہیں کئے گئے وہ
اب ہو رہے ہیں ۔بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے نا آموز وزراء اپنے محکموں کی
کارکردگی کو اجاگر تو کریں۔بیورو کریسی کے اہل کار ہمارے وزراء کی اچھی
باتیں کہاں عامۃالناس کے سامنے آنے دیتے ہیں۔ایک لطیفہ سنئے ایک پی ایس نے
بڑے فخر سے کہا ھضور میں تین وزیروں کا پی ایس رہ چکا ہوں ۔مہاشے بڑے فخر
سے سینے پر ہاتھ مار کر کہہ رہے تھے کہ میں نے تین وزراء کے ساتھ کام کیا
ہے۔سیانے نے کہا ذرا یہ تو بتانا کہ ان تین وزراء نے اگلا الیکشن ہارا یا
جیتا؟جواب ملا نہیں۔یعنی معیار تو یہ ہونا چاہئے کہ وزیر پھر جیت کر اسمبلی
میں پہنچے۔ہمارے وزراء کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ اس ٹیم کو رکھے جو
مشکل دنوں میں ان کے ساتھ رہی ہے۔ورنہ یہ پی ایس آپ کو بھی اگلا الیکشن
ہروا دیں گے مثلا آپ پرانے کارکن ہیں آپ وزیر سے ملنا چاہتے ہیں آپ پی ایس
سے بات کریں گے وہ آپ کو ٹرخا دے گا اور آخر کار وزیر صاحب ایک ایسے شخص کی
حمائت سے محروم ہو جائیں گے جو ان کے لئے الیکشن میں مددگار ثابت ہوا تھا
یاد رکھئے کاروباری دنیا میں ناراض کسٹمر کے بارے میں ٹویوٹا کمپنی کی
تحقیق کے مطابق ایک راضی گاہک صرف ایک کو بتاتا ہے جب کے نارض دس لوگوں تک
بات پہنچاتا ہے ۔سیاسی کارکنوں میں یہ اس چیز کو دس سے ضرب دے لیجئے اور
سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تو یہ معاملہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ابھی کچھ دیر
پہلے ایک چینیل پر وزارت صحت کے بارے ایک صاحب بے پر کی چھوڑ رہے تھے کہ
ڈرگز کے معاملے میں ایک بڑا سکینڈل سامنے آ رہا ہے اور اس میں وزیر صحت
عامر محمود کیانی ملوث ہیں۔ایک بزرگ چودھری صاحب اپنے قاضی کے ساتھ منصف
بنے وزیر صحت کا قد چھوٹا کر رہے تھے۔اس قسم کی خبروں کا حقیقت سے دور کا
بی تعلق نہیں ہوا بھی تو جس عمران خان کو میں جانتا ہوں وہ نشان عبرت بنا
دے گا۔عمران خان کی سب سے بڑی اچھائی یا اسے برائی بھی کہہ لیں وہ کسی کرپٹ
کا دفاع نہیں کرتا۔وہ بھول جاتا ہے کہ کوئی اس کا دوست تھا۔یہ جھوٹ اس وقت
تک سچ بن کے لوگوں کے سامنے رہے گا جب تک عمار کیانی اور ملک محسن اس کی
تردید نہیں کریں گے اور تردید کرنے کے لئے صحافتی تجربہ کار لوگوں کی اشد
ضرورت ہے۔بھولے لوگ سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا اور خاص طور پر پرنٹ میڈیا
کی طاقت سے محروم ہیں۔میں دیکھ رہا ہوں کہ ایسے ایڈیٹرز جن کے احترام میں
دنیا کھڑی ہو جاتی ہے ان سے ملنا ہمارے وزراء اور ذمہ داران برا سمجھتے ہیں
۔
پاکستان تحریک انصاف کے وزراء سخت محنت کرتے ہیں لیکن دلی دکھ اس بات کا ہے
بہت سوں نے اقتتدار کو منزل سمجھ لیا ہے حالنکہ یہ جد وجہد کا نیا فیز
ہے۔انہیں میڈیا سے ہر سطح پر تعلقات رکھنے ہیں۔نئے سیکرٹری اطلاعات عمر
چیمہ اور ان کی ٹیم اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتی ہے۔ہمارے مرکزی اور
صوبائی وزراء ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کا
بند فون ،جواب نہ دینا آپ کے پاؤں کی زنجیر بن سکتا ہے۔میں جاوید ہاشمی کے
ساتھ بیٹھا ہوا تھا ہر گھنٹے بعد ان کا پی ایس انہیں بتا رہا تھا کہ فلاں
فلں کا فون ہے ہاشمی انہیں فوری طور پر ہدائت دیتے ان سے بات کراؤ ان سے
شکریہ کہہ کر کہو کہ ملتان فلاں دن آ جائیں باقی کا کام نوٹ کر لیں۔جاوید
ہاشمی سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر جن لوگوں نے حلقے کی سیاست کرنی ہے ان
کے انداز اس طرح کے ہوتے ہیں۔
اﷲ پاک ہمارے ممبران اسمبلی اور وزراء کو اپنے طرز سیاست میں اس طرح کی
تبدیلی لانا ہو گی
آپ کو ایک ایسے جھوٹ کا مقابلہ کرنا ہے جو اس وقت تک جھوٹ نہیں جب تک آپ
اسے ثابت نہیں کر دیتے۔ابھی ٹی وی پر ایک کلپ دیکھا جو ایک ممتاز اینکر
پرسن نے زلفی بخاری کے بارے میں لکھ دیا کہ اﷲ پاک اس طرح کے لوگوں سے
بچائے۔اس اینکر پرسن کو اینکروفوبیا ہو گیا ہے میں نے یہ اصطلاح خود نکالی
ہے انکرو فوبیا ایک ایسی بیماری ہے کہ آپ اینکر ہیں اور آپ ہی عقل کل
ہیں۔یعنی سیاست دان کو آپ کے مشوروں پر چلنا ہے اس اینکروفوبیا میں بڑے بڑے
لوگوں کی طرح ایک ڈاکٹر دانش بھی ہیں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عمران خان
کو حکومت دلائی ہے بابا یہ دنیا معاش کی ہے گزشتہ تین چار سالوں میں
پاکستانی میڈیا میں عمران خان کا ساتھ دینے والے یا پھر اس کی ڈٹ کر مخالفت
کرنے والے ہی سودا بیچ سکے۔رات کے ٹی وی شوز میں اگر عمران خان کا تڑکا
نہیں ہوتا تھا تو کوئی اس چینل کو دیکھتا تھا بھی نہیں۔روئف کلاسرہ ہارون
الرشید ڈاکٹر دانش سب لوگ دیکھے جاتے تھے کاشف عباسی ارشد شریف ندیم ملک یہ
سب لوگ پرو عمران تھے ۔میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہوں گا کہ سب کچھ
ٹھیک تھا لیکن ھضور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کی ذاتی خواہشات کو اگر پورا
نہیں کیا گیا تو آپ لٹھ لے کر عمران خان اور اس کی حکومت کے پیچھے پڑ گئے۔
زلفی بخاری کو ایک پدی سے چینل کے ذیعے بدنا کرنے کی کوشش کی گئی۔ڈاکٹر
دانش کی ٹویٹ دیکھئے فرما رہے ہیں کہ ہمارے اوپر زلفی بخاری جیسے لوگ ٹھونس
دئے گئے ہیں۔با با زلفی بخاری اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے مشیر ہے اس
نے کون سی داخلہ کی پالیسیاں دینا شروع کی ہیں۔صحافی بتا رہے کہ اڈیالہ جیل
کے سپرنٹنڈنٹ کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔اور اس کا کہنا تھا کہ صاحب
سلامے بڑے ایمان دار اور صالح افسر ہیں۔الزام یہ لگایا گیا ہے کہ زلفی
بخاری نے انہیں کہا ہے کہ ایک قیدی پر سختی کرو جس سے انہوں نے انکار کیا
ہے۔میں ڈاکٹر دانش سے صرف یہ پوچھنا چاہوں گا کہ حضور آپ نے صحافی کی رپورٹ
کو من و عن کیسے تسلیم کر لیا ہے۔پھر کیا آپ نے زلفی بخاری سے یہ پوچھا کہ
الزام ہے آپ پر اور آپ اس کا جواب دیں؟بلکل نہیں۔جدہ میں نوے کی دہائی کے
آخری سالوں میں جناب الطاف حسین قریشی حج کے لئے تشریف لائے اردو ڈائجسٹ کی
نمائیندگی دی میں نے ان سے ایک سوال پوچھا کہ کوئی خاص ہدائت دیجئے کہنے
لگے بس یہ خیال کیجئے کہ کسی کی عزت نہ اچھلے ایک ذرائع نے الزام لگایا ہے
تو دوسرے سے لازمی پوچھ لیں۔
پنڈی میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہو ا یہ پرانی اکھڑ بیورو کریسی پی ٹی آئی کے
وزراء ممبران اسمبلی پارٹی کارکنوں کو کچھ نہیں سمجھتی۔بے نظیر ہسپتال کے
ڈاکٹر نیازی نے راجہ بشارت سے بھی اس طرح کا پنگا لیا تھا۔اس کی جرائت
دیکھیں وہ صوبائی وزیر قانون کا فون ٹیپ کر رہا تھا جو بذات خود ایک جرم
ہے۔اسے اتھا کر پھینکا گیا تو پتہ چلا کہ دیسی گھیوء دی طاقت کیا ہوتی
ہے۔سرکاری افسران سب سے بڑے مزاحمت کار ہیں۔میں یہ تو نہیں کہتا لیکن سچ
پوچھیں شہباز شریف نے انہیں سیدھا کر کے رکھا ہوا تھا کوئی شکائت آئی نہیں
افسر لائن حاضر فیصل آباد میں تو اس نے ہتھکڑیاں بھی لگوا دی تھیں۔میں یہ
تو نہیں کہتا لیکن سچ پوچھے تبدیل کے ثمرات اگر عوام تک نہیں پہنچے تو اس
قسم کے افسران کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے۔جو ایک وفاقی وزیر کی عزت کو سر
بازار لے آئے ہیں۔میں زلفی بخاری کو قریب سے جانتا ہوں وہ یورپ کے ماحول
پلا بڑھا ایک شریف النفس انسان ہے۔عمران خان کا پرانا ساتھی ہے اوورسیز
پاکستانیوں کے لئے رات دن ایک کئے ہوئے ہے۔اس کے دفتر میں پارلیمانی
سیکرٹری جویریہ آہیر خوشاب کے سیاسی گھرانے کی چشم و چراغ تن دہی سے کام
کرنے والے سٹاف کے ساتھ اپنا کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر دانش آپ ایک اچھے انسان ہیں لیکن یہ اینکری کا زعم اور غرور سے بھرا
لہجہ آپ کو زیب نہیں دیتا۔
عمران خان کو مشورہ دیجئے اس کے لئے میڈیا کو آرڈینیشن کے لئے افتخار درانی
موجود ہیں ۔پورا میڈیا ڈیپارٹمنٹ آپ کی عزت کرتا ہے۔
کہتے ہیں ایک شریف آدمی کے بارے میں خبر اڑا دی گئی کہ اس کی بیٹی بھاگ گئی
ہے وہ گر آیا بیٹی جائے نماز پر تھی۔اس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا خبر
تو جھوٹی تھی لیکن بیٹی تیرا اﷲ نگہبان ہو ظالموں نے کمر توڑ کے رکھ دی ہے
میں کس کس کو بتاؤں گا کہ تو مصلے پر تھی بغیر تحقیق کے مصالحہ دار اور چٹ
پٹی خبروں کی بنیاد پر ٹویٹ کر دینے سے پی ٹی آئی کو تو کوئی فرق نہیں پڑے
گا لیکن اس سے آپ کا قد کم ہو گا۔اسی چینل نے نامور صحافی افتخار احمد کو
بھی تبصرے کے لئے لیا میں لکھ کے دیتا ہوں افتخار احمد کبھی اس چھوٹے چینل
کو وقت نہ دیتے اس کے پیچھے بھی بد نیتی کا عنصر شامل تھا۔ڈاکٹر دانش آپ سے
امید نہ تھی
|