آج میں اپنے کالم کو پاکستانی تھانوں کے چہرے اور
پاکستانی آئین و قانون کی دھجیوں،رسوائی،بے بسی، لاچارگی، کمزوری اور ملک
دشمنی کے اسباب بیان کرکے امید کرونگا کہ ایوان میں بیٹھنے والے عوامی
نمائندے شاید اب سدھر گئےہونگے اور ریاست پاکستان ، پاکستان کی سلامتی و
بقا کیلئے قانون کو اصل روح میں منتقل کرکے آزاد خود مختار بنانے کیلئے
اپنا مثبت کردار ادا کرینگے اگر اب بھی ایسا نہ کیا تو ایسی جمہوریت پر
لعنت اور ایسے ایوان کی عوام کو ضرورت نہیں پھر تو بہتر ہے خلافت یا صدراتی
نظام ہی رائج رہے۔میں اپنے کالم کو بڑھانے سے قبل اپنے قارئین کی خدمت میں
سابق سیشن جج ثنا اللہ خان صاحب کے زندگی کا تلخ اور تکلیف دہ تجربے کو پیش
کرنا چاہونگا، آپ نے تحریرکیا۔سن دو ہزار آٹھ کی تپتی دوپہر میں ایک عورت
ہانپتی کانپتی میری عدالت میں داخل ہوئی اور روتے ہوئے فریاد کرنے لگی کہ
اس کے بیٹے کو آج خان پور کا ایس ایچ او جعلی پولیس مقابلے میں مار دے
گا،میں نے وہاں موجود ایک وکیل کو اس عورت کی درخوست لکھنے کا کہا اور اس
درخواست پر اسی وقت تھانیدار کو بلا لیا،ایس ایچ او نے لا علمی کا اظہار
کیاتو عورت نے بتایا کہ وہ خود بیٹے کو تھانے میں مل کر آئی ہے، ایس ایچ
او نے کہا کہ اس عورت کے بیٹے کے خلاف دو مقدمات رجسٹرڈ ہیں اور پولیس اس
کو تلاش کر رہی ہے،میں نے دونوں مقدمات کیایف آئی آر منگوالیں اور اسی
وقت پولیس کو کہا کہ دونوں مقدمات کے مدعیان کو گھر سے لے آئے،کیونکہ عورت
بضد تھی کہ اس کے بیٹے کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کے لیئے جھوٹی ایف آئی
آر اس ایس ایچ او نے درج کی ہیں، ایس ایچ او کو میں نے عدالت میں بٹھا لیا
اور دوسرے تھانے کے ایس ایچ او کو بلا کر اسی وقت مدعیان کو بلوا لیا،دونوں
ایف آئی آر کے مدعی کہنے لگے کہ انھیں اس ایف آئی آر کا کوئی علم نہیں
ہےاور مقدمہ جھوٹا ہےجس پر میں نے ایس ایچ او کو کہا کہ جب تک وہ ملزم یہاں
نہیں آئے گا تم عدالت سے باہر نہیں جاؤ گے،بہرحال ملزم کوہتھکڑیوںمیں
میرے سامنے پیش کیا گیا اور مجھے مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ ایس ایچ او اس
ملزم کی بیوی کا عاشق تھا اور اس سے مجبور کرتا تھا کہ وہ اس کو طلاق دے دے
تاکہ ایس ایچ اواپنی گندی خواہشات کو عملی جامہ پہنا سکےاور ملزم کے انکار
پر اس کے خلاف دو جھوٹے مقدمات بنا کر اس کو گرفتار کر لیا اور گرفتاری
خفیہ رکھی ریکارڈ میں کوئی گرفتاری کا اندراج نہ تھا اور ملزم کو جعلی
مقابلے میں قتل کرنے کا پروگرام تھا،ملزم کو پولیس کے قبضے سے فارغ کروا کر
میں نے تمام واقعےکی اطلاع اسوقت کے ڈویژنل سربراہ کو دی جس نے اسی روز اس
ایس ایچ او کا تبادلہ کر دیا مگر وہ ایس ایچ او ایک ماہ بعد پھر اسی تھانہ
میں تعینات کر دیا گیا،اس قسم کے بے شمار واقعات لکھ سکتاہوں جو پولیس کی
زیادتیوں کی گواہی دیں گے مگر کیا ان حالات میں پولیس کو آئین کے آرٹیکل
بائیس اے کے اختیار دینا ٹھیک رہے گا؟؟؟ پنجاب اورسندھ کا ہر تھانہ اس قسم
کے واقعات سے بھرا پڑاہے،پولیس کو عدالت کا ڈر نہیں ہوتا ہےاسی سبب یہ
فرعونیت میں حد درجہ بلند ہوتے ہیں۔۔۔ معزز قارئین !!جن جن کا تھانے جانے
کا اتفاق ہوا ہو یا کسی بھی کیس کے سلسلے میں تھانے گئے ہو تو وہ بہت اچھے
طرح وافق ہونگے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تھانے کس لیئے بنائے گئے ہیں
اور تھانے دار یعنی ایس ایچ او کی کیا کیا کارفرمائیاں ہوتی ہیں، وہ کس طرح
بے قصور کو قصور وار اور گناہ گار کو بے قصور بنادیتے ہیں ؟؟؟ پاکستانی قوم
اچھی طرح واقف ہیں کہ عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لینی والی پولیس اپنی عوام پر
ظلم و بربریت کے پہاڑ کھڑے کرتے ہیں ،تھانوں میں تفتیش کا محکمہ اور تفتیشی
افسر ہی دراصل تھانے کی بربادی اور بے عزتی کا باعث بنتا ہے ،تفتیشی افسر
ایس ایچ او کے حکم پر جس طرح تفتیشی تحریریں لکھتا ہے اس کے اس عمل پر دنیا
بھر کے شیطان لعنت بھیجتے ہیں اور فرعونیت بھی ان کی غلاظت و خباثت ذہن اور
شیطانی عوامل پر حیران و پریشان ہوجاتے ہیں ،شیطان اور اس کے تمام چیلے یہ
کہنے پر حق بجانب ہوتے ہیں کہ ان کا کام ختم ہوگیا حضرت پولیس نے ہم
شیطانوں کو بھی مات دیدی، محکمہ پولیس میں نوے فیصد لوگ کرپٹ، بد اخلاق، بد
تمیز، بیہودہ، بے شرم، بے حیا، راشی، نشائی ،شرابی اور زانی ہیں، حقیقت تو
یہ ہے کہ سیاسی لیڈروں کو ہی اس ادارے کو اس نہج پر پہنچایا ہے ، سندھ اور
پنجاب کے وڈیروں، جاگیرداروں نے پولیس کے محکمے کو مکمل یر غمال بنائے رکھا
ہوا ہے کیونکہ ایوان میں اکژریت انہیں وڈیروں، جاگیرداروں ہوتی ہے جو اپنے
ناجائز دولت کے بل بوتے پر ہر ایک کو خریدنے یا مار ڈالنے کے عادی ہوتے ہیں
، پولیس محکمے میں دس فیصد ایماندار ،سچے، مخلص، جذبہ حب الوطنی رکھنے
والوں کو خود محکمہ کے اہلکار و افسران جینا محال کردیتے ہیں، سابق سیشن جج
ثنا اللہ خان صاحب کے منصب میں روزانہ پولیس کیس آتے تھے یہی کیا ہر سیشن
جج، ہر ہائی کورٹ جج، ہر سپریم کورٹ جج صاحبان کے سامنے پولیس کے کرتوت
واضع ہوتے رہتے ہیں لیکن تمام ججز صاحبان مجبور ہیں کہ وہ آئین میں ایست
لوگوں کیلئے سخت احکامات نہیں ،اسی سبب صرف عارضی معطلی کا حکم نامہ جاری
کردیا جاتا ہے ، پولیس کی کالی بھیڑوں کو سبکدوش کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے
تو ممکن ہے تھانےدار ،تفتیشی افسر، ہیڈ محرر، کانسٹیبل سے لیکر پولیس کے
تمام اعلیٰ افسران اپنے منصب کو احسن طریقے سے سر انجام دیں گے اس عمل
کیلئے سب سے پہلے آئین میں تبدیلی کرنی ہوگی کہ پولیس کے محکمہ کو با
اختیار کرکے سیاسی مداخلت مکمل ختم کردی جائے،تفتیش کے عمل کو مکمل شفاف
بنایا جائے اور اگر تفتیش میں خیانت پائی جائے تو اسی وقت نوکری سے برخاست
کرنے کے ساتھ ساتھ سزا کے عمل سے بھی گزارا جائے ،آپ دیکھیں گے کہ یہی
پولیس ہماری پاک افواج کی طرح مظبوط، مستحکم اور بہترین فورس کہلائی گی اور
دنیا پاکستانی پولیس کی معترف ہوگی ، عمران خان یوں تو نعرے نگاتے ہیں نیا
پاکستان تو ان کے وزرا ،اراکین، مشیر، سینیٹرز کو عمران خان کے اس عظیم وژن
کو پروان چڑھانے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہونگا تن تنہا عمران
تبدیلی نہیں لاسکتا ہے، میں نے علی زیدی ، صدر پاکستان عارف علوی، گورنر
سندھ عمران اسماعیل اور خود عمران خان کے واٹس اپ پر کئی بار لکھا کہ کراچی
پورٹ پر نظر ڈالیں ، اس میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا نوٹس لیں، اہل افسران
و ملازمین کے پروموشن و تقرریوں کو دیکھیں لیکن افسوس کہ سابقہ حکومتوں پر
انگلی اٹھانے کے باوجود خود اس پر توجہ دینے میں سستی برتتی جارہی ہے خاص
کر علی زیدی کواپنے اس کالم کے ذریعےبھی یاد دہانی کراتا ہوں کہ کراچی
معاشی حب ہے اور کراچی پورٹ اس حب کی ریڈھ ہے ،عمران خان کو چاہیئے کہ وہ
اپنے وزرا و دیگر لوگوں کو باز رکھیں کہ وہ ہر روز ٹی وی چینل میں بیٹھ کر
وقت ضائع نہ کریں صرف ہفتے ہیں ایک یا دو دن آئیں باقی پانچ دن اپنے اپنے
محکمے میں رہ کر مسائل کو حل کرنے کیلئے پورا وقت دیں بلکہ انہیں اضافی وقت
دینا ہوگا کیونکہ بقول ان کے سابقہ حکومتوں کو برباد کررکھا تھا تو درست
کرنے کیلئے تمام تر توجہ صرف کردیں، تحریک انصاف اور بلخصوص عمران خان کہتے
ہیں کہ انھوں نے خیبرپختونخوا کی پولیس کو ریفارم کیا ہے تو اب عمران خان
صاحب آپ پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور صدر پاکستان بھی آپ کا ہے تو
پھرریاستی اداروں کو درست کرنے میں آپ کے وزرا ،منتخب نمائندگان ،سینیٹرز
کیا کررہے ہیں ، وزرات قانون ، وزارت داخلہ و خارجہ، وزارت ڈیفنس، وزارت
مواصلات ، وزارت تعلیم، وزارت صحت اور وزارت فنانس سست روی کا شکار کیوں
؟؟؟ہم جانتے ہیں کہ بھارتی اسٹبلشمنٹ،بھارتی افواج اور بلخصوص بھارتی وزیر
اعظم نریندر مودی مسلسل پاکستان میں دراندازی پر اترا ہوا ہے اسی سبب ہمیں
کم وقت میں اپنے اداروں میں شفافیت کی جانب لیکر جانا ہے ، بھارت سمیت تمام
پاکستان مخالف قوتوں کو بتانا ہے کہ ہم اور ہمارے تمام ادارے مستحکم اور
مستعد ہیں،ہم دنیا کو بتادیں اپنے اچھے عمل سے کہ ہمارے ہاں انصاف اعلیٰ
ترین سطح پر موجود ہے یہاں قانون کی حکمرانی ہے ، یہاں نہ کرپشن ہے ،نہ
رشوت خوری، نہ اقربہ پروری اور نہ ہی غداری، ہم سب پاکستانی اپنے وطن کیلئے
جانیں قربان کرنے اور شہادت کیلئے بے چین ہیں ، اللہ پاکستان کی ہمیشہ
حفاظت کرے، ہمیں اپنی افواج پر ناز ہے، ہمیں اپنی آئی ایس آئی پر فخر ہے،
ہمیں اپنی قوم پرمان ہے کہ ہم ایک ہیں ، متحد ہیں ۔۔۔۔پاکستان زندہ باد،
پاکستان پائندہ باد، پاک فوج زندہ باد، پاک آئی ایس آئی پائندہ باد
۔۔۔۔!! |