لیکن زریں نے انھیں سمجھایا تھا کہ وہ اس کی وجہ سے
خاندان کو نہ چھوڑیں . فریدہ کو اس کی اس قربانی پر بھی جی بھر کر رونا آیا
تھا اور ہنسی بھی کہ یہ دنیا کتنی عجیب ہے کہ انسان کے ایک عیب کے بدلے اس
کی باقی اچھائیوں کو بھی رد کر دیتی ہے . ایک اچھا انسان گنوا دیتی ہے .
اور پھر رشتے والی بوا آذر کا رشتہ لے آئیں .آذر پہلے سے شادی شدہ اور تین
بچوں کا باپ تھا . بیوی مر چکی تھی . اس لئے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے شادی
کا خواہشمند تھا . فریدہ بیگم نے سنتے ہی انکار کر دیا تھا .
"بوا ! میری زریں اب اتنی بھی گئی گزری نہیں ہے کہ اسے رنڈوے سے بیاہ دیا
جائے ." یہ کہتے ہویے فریدہ بیگم کی آواز بھر آئ تھی .
" اے بی بی ! اتنی گئی گزری نہیں تھی تو خاندان والوں کو کیوں قبول نہ کی .
وہ محاورہ تو سنا ہو گا نہ کہ اپنے ہی اپنوں کے کام آتے ہیں تو بتاؤ کہاں
گئے اپنے .ارے بس ایک پاؤں کا ہی مسلہ ہوا ہے نہ باقی تو لاکھوں میں ایک ہے
. سلیقہ طریقہ میں اول نمبر ہنے . سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تمہارا تمہاری
بیٹیوں کے رکھ رکھاؤ کو جانتا ہے . اس کے باوجود کسی نے ہاتھ نہیں بڑھایا .
ماں لو بی بی ! یہاں ہر بندہ چڑھتے سورج کی پوجا کرتا ہے . چاہے اپنا ہو یہ
غیر . جب تک یہ مسلہ نہیں تھا تو ہر بندہ میری زریں کے گن گاتا تھا . اب
بتاؤ کہاں گئی میری زریں . زریں ووہی ہے مگر اب وہ عیب دار ہو گئی ہے اور
یہ دنیا عیبوں کو معاف نہیں کرتی . " وہ یہ کہ کر رکی نہیں تھیں . جبکہ
فریدہ بیگم کی آنکھیں چھم چھم برستے آنسوؤں سے تر تھیں اس تلخ سچائی نے
انھیں غم زد ہ کر دیا تھا . |