23 مارچ کی تاریخ کو نہ صرف قیام پاکستان کے لیئے1940 میں
پیش کی گئی قراردادا پاکستان کے حوالے سے تاریخی اور سیاسی اہمیت حاصل ہے
بلکہ پاکستانی سیاست میں ایک نئے ،ولولے ،جذبے اور پہچان کے ساتھ از سرنو
قدم رکھنے والے قابل ،فعال اور دلیر سیاسی رہنما مصطفی کمال کی قائم کردہ
نئی سیاسی جماعت ’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کے حوالے سے بھی ایک یادگار دن ہے
کہ آج سے ٹھیک 3 سال قبل 23 مارچ 2016 کومصطفی کمال نے اپنی نئی سیاسی
جماعت کو’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کا نام دے کر اس کے باقاعدہ قیام کا اعلان
کیا تھا جس کی مناسبت سے آج پاک سرزمین پارٹی کا تیسرا ـ’’ یوم تاسیس
‘‘منایا جارہا ہے۔ کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیئے درست وقت اور تاریخ
کا انتخاب نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ درست وقت پر درست اور انقلابی
فیصلے کرنے والے لوگ ہی وہ کچھ کر جاتے ہیں جس کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی
اکثر لوگ گھبرا کر اپنا راستہ بدل لیتے ہیں،موجودہ دور سیاست میں مصطفی
کمال کا اپنے موقف پر ثابت قدمی سے قائم رہنا اور اپنے جائز مقاصد کے لیئے
مسلسل جدوجہد کرکے سیاسی مقبولیت حاصل کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ملک
وقوم کے حوالے سے ارادے نیک اور نیت ٹھیک ہواور قائد اپنے ملک اور عوام کے
ساتھ مخلص ہو تواسے کبھی نہ کبھی کامیابی ضرور ملتی ہے ۔
قیام پاکستان کے سلسلے میں23 مارچ1940 کو لاہور میں مینار پاکستان کے
تاریخی مقام پر ’’قرارداد مقاصد‘‘ کے نام سے مسلمانوں کے لیئے ایک علیحدہ
وطن کے قیام کے لیئے جو اہم نکات پیش کیئے گئے وہ پاکستان کی بنیاد رکھنے
کی پہلی سنجیدہ کوشش تھی جس کی بنا پر آخر کار برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی
اور دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک پاکستان کا اضافہ ہوا۔اس قرارداد مقاصد کو
آگے چل کر’’ قرارداد پاکستان‘‘ کے نام سے مسلمانان ہند میں بے پناہ مقبولیت
اور پذیرائی حاصل ہوئی اور آج بھی 23 مارچ کو ہر سال پاکستان میں ’ ’ یوم
پاکستان ‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ 23 مارچ کا دن پاکستان
کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اسی تناظر میں یہ بات نہایت خوش
آئند ہے کہ صرف دو افراد مصطفی کمال اور انیس قائم خانی سے شروع ہونے والی
نئی سیاسی جماعت’’ پاک سرزمین پارٹی‘‘ نے برق رفتار سیاست کی منفرد مثال
قائم کرتے ہوئے 3 سال کے عرصہ میں اچھی خاصی مقبولیت حاصل کرلی ہے۔ مصطفی
کمال اور انیس قائم خانی کے جذبے اور خلوص کی سچائی نے انہیں تین سال میں
لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنادیا ہے کہ ان دونوں کی پاکستانیت سے بھرپور
دلیرانہ اور ولولہ انگیزطرز سیاست نے نہ صرف اردو بولنے والوں کوبلکہ
پاکستان کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف زبانیں بولنے والے افرادکو
اپنی جناب متوجہ کیا جس کے بعد کراچی کے تاریخ میں پہلی بار ایک اردو بولنے
والے لیڈر مصطفی کمال کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں پذیرائی حاصل ہوئی
ورنہ اس سے قبل اردو بولنے والے ہر سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعت کا ووٹ بینک
صرف کراچی ،حیدرآباد اور میرپورخاص تک ہی محدود رہا لیکن یہ مصطفی کمال ،انیس
قائم خانی اور ان کے ساتھ ابتدامیں شامل ہونے والی دیگر نامور سیاسی شخصیات
جن میں رضا ہارون، ہارون،انیس ایڈوکیٹ،وسیم آفتاب اور افتخار عالم وغیرہ
شامل تھے کے قول وفعل اور کردار کی سچائی تھی کہ’’ لوگ ملتے گئے اور قافلہ
بنتا گیا ‘‘ کے مصداق ان مذکورہ سیاست دانوں کو بہت جلد عوامی سطح پر کراچی
سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پذیرائی حاصل ہوگئی جس کے بعد مصطفی
کمال کی قیادت میں ان سب نے اپنی ایک علیحدہ سیاسی جماعت ’’ پاک سرزمین
پارٹی ‘‘ کے نام سے قائم کرنے کا اعلان کردیا جس کی سب سے خاص بات یہ تھی
کہ اس نئی سیاسی جماعت کے قیام اور اس جماعت کے نام کے اعلان کے لیئے جس
تاریخ کا انتخاب کیا گیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کے لحاظ سے بڑی اہمیت کی
حامل رہی ہے ۔ مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے 23 مارچ2016 کوجب اپنی نئی
سیاسی جماعت’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کے نام سے قائم کرنے کا اعلان کیا جسے
کراچی سمیت ملک بھر میں اچھی نگاہوں سے دیکھا گیا کہ کراچی سے تعلق رکھنے
والے کسی اردو بولنے والے سیاسی لیڈر کی جانب سے پاکستانیت کے جذبے سے سر
شار ہوکر وفاقی سیاست میں قدم رکھنے کاایک طویل عرصہ بعد یہ پہلا موقع
تھاکیونکہ ’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کے قیام سے قبل کراچی لسانی سیاست میں اس
بری طرح جکڑا ہوا تھا کہ عمران خان جیسے ہمت نہ ہارنے والے سیاست دان کی
جماعت پاکستان تحریک انصاف اپنی بھر پور کوششوں کے باوجودایک طویل عرصہ تک
کراچی میں ایم کیو ایم کے زور کو توڑنے میں کامیابی حاصل نہ کرسکی البتہ
گزشتہ انتخابات میں عمران خان اور پی ٹی آئی کو اردو بولنے والوں نے بھی دل
بھر کر ووٹ دیے اوریوں کراچی کی سیاست میں پہلی بار عمران خان اور ان کی
سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی کامیابی حاصل ہوئی جس پر بعض
سیاسی لیڈروں کی جانب سے عمران خان کو مقتدر حلقوں کا سلیکٹڈ وزیراعظم ہونے
کا طعنہ دیا گیا لیکن جو ہونا تھا وہ ہوگیا اور آج عمران خان اس ملک کے
وزیراعظم ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے ایم کیو ایم کی دہشت گردی ،بھتہ خوری ،بدمعاشی ،قتل وغارت گری
اور فرعونیت کو ختم کرنے کے لیئے خود ایم کیو ایم کے ہی ایک بہت قابل ،فعال
اور مقبول رہنما مصطفی کمال کو چناجس نے انیس قائم خانی کے ہمراہ کراچی آکر
ایم کیوا یم کے قائد الطاف حسین اور ان کی قائم کردہ لسانی سیاسی پارٹی ایم
کیو ایم سے ببانگ دہل علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایک دھواں دار پریس
کانفرنس کے ذریعے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا سار اکچاچٹھا عوام کے
سامنے کھول کررکھ دیاجس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی سیاست کے کئی شرمناک
خفیہ گوشے پہلی بار منظر عام پر آئے اور یہ سب باتیں کرنے والا کسی اور
پارٹی کا لیڈر نہیں بلکہ ایک طویل عرصہ تک ایم کیو ایم میں اہم ترین عہدوں
پر فائز رہنے والا باصلاحیت ،فعال اور مقبول سیاسی رہنما مصطفی کمال کررہا
تھا جس کی کہی گئی باتوں کو بہت سنجیدگی کے ساتھ سنا اور سمجھا گیا یہی وجہ
ہے کہ کراچی کی سیاست میں کئی عشروں سے لسانی سیات کرکے بلاشرکت غیرے
اقتدار کے مزے لوٹنے والی ایم کیو ایم کا3سال کے اندر وہ حشر نشر ہوا کہ اس
سے قبل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کسی اور سیاسی پارٹی کا ایسا
عبرتناک انجام ہوا ہویہی وجہ تھی کہ گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کو وہ
کامیابی نہیں مل سکی جو اسے ہمیشہ ملتی رہی تھی بلکہ کراچی اور حیدرآباد سے
بھی انتخابی معرکہ پی ٹی آئی نے کافی اکثریت سے جیت لیا اور ایم کیو ایم
بمشکل چند سیٹیں ہی جیت پائی البتہ گزشتہ الیکشن کے نتائج کے حوالے سے حیرت
انگیز بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی ایک بھی سیٹ جیتنے
میں کامیاب نہ ہوسکی جبکہ توقع یہ تھی کہ پی ایس پی اس بار ایم کیو ایم کو
ٹف ٹائم دے گی اور زیادہ نہیں تو 10 سیٹیں تو جیت ہی جائے گی اوریہ توقع
بھی مصطفی کمال کی مسلسل جدوجہد اور بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت کی وجہ سے
قائم کی گئی لیکن غیر متوقع طور پر انتخابی نتائج کے مطابق پاک سرزمین
پارٹی انتخابی میدان میں بری طر ح ناکامی کا شکار ہوئی جس پر بہت سے لوگوں
کو یقین نہیں آیا کہ پی ایس پی کے ساتھ ایسا بھی ہوسکتا ہے یہی وجہ تھی کہ
پی ایس پی کی مرکزی قیادت کی جانب سے انتخابی عمل کو مشکوک قرار دیا گیا
لیکن پھرسب ہی جماعتوں نے انتخابی دھاندلی کے الزامات اور شور مچانے کے بعد
آخر کار الیکشن کے رزلٹ کو تسلیم کرتے ہوئے عمران خان اور پی ٹی آئی کی
حکومت کو بھی تسلیم کر ہی لیا ۔
پاک سرزمین پارٹی کے قیام کے لیئے 23 مارچ کی تاریخ منتخب کرنے اور اپنی اس
نئی سیاسی جماعت کا نام پاکستان کے قومی ترانے کے پہلے مصرعے ’’ پاک سرزمین
شاد باد‘‘ سے مستعار لے کر رکھنے سے ہی مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی
سیاسی سوچ اور عزائم کی جھلک سامنے آگئی تھی۔پاک سرزمین پارٹی کے قیام سے
لرکر آج اس سیاسی جماعت کے تیسرے یوم تاسیس کی تاریخ تک پی ایس پی کی پوری
قیادت کی جانب سے حب الوطنی، بہادری اور سچائی پر مبنی جس سیاسی طرز عمل کا
مسلسل مظاہرہ کیا گیا اس کی وجہ سے کراچی کے خوف و دہشت زدہ ماحول میں
الطاف حسین اور ایم کیوا یم کی کھل کر مخالفت کرنے والے کسی اردو بولنے
والے سیاست دان کی یہ پہلی بغاوت تھی جو کامیاب رہی۔
پاک سرزمین پارٹی نے اپنے قیام کے صرف ایک ماہ بعد کراچی میں 24 اپریل کو
اپنا پہلا جلسہ عام منعقد کیا جبکہ پی ایس پی کا دوسرا جلسہ عام 23 دسمبر
2016 کو پکہ قلعہ حیدرآباد میں ہوا جو عوامی حاضری کے حوالے سے خاصہ کامیاب
رہا اور پھر مصطفی کمال نے اپنی پارٹی کا تیسرا جلسہ عام کرنے کے لیئے ایک
بار پھر کراچی کا انتخاب کیا اور 29 جنوری 2017 کو ایم اے جناح روڈ پر پاک
سرزمین پارٹی نے ایک کامیاب اور تاریخ ساز جلسہ کیا جس میں مصطفی کمال اور
رضا ہارون کی جانب سے ایک نہایت اہم8 نکاتی قرار داد پیش کی گئی جسے ’’
قرارداد کراچی ‘‘ کا نام دیا گیا ۔کراچی کے مخصوص طرز سیاست کے حوالے سے
پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد کراچی کو عوامی سطح پر
بہت پذیرائی حاصل ہوئی کہ یہ قرار داد کسی مقامی لسانی سیاسی پارٹی کی جانب
سے نہیں بلکہ ایک نئی ملک گیر محبت وطن سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کی
جانب سے پیش کی گئی ہے ۔ مصطفی کمال اور رضا ہارون کی پیش کردہ ’’ قرار داد
کراچی ‘‘ کے نکات کو پڑھ کر باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصطفی کمال
اور ان کی پارٹی اس قرارداد کو کن مقاصد کے حصول کے لیئے بروئے کار
لاناچاہتی ہے۔
مصطفی کمال ،انیس قائم خانی اور پاک سرزمین پارٹی کے دیگررہنماؤں کی گزشتہ
تین سال کے دوران کی گئی پریس کانفرنسوں ،تقریروں،بیانات اور ٹی وی ٹاک شوز
میں کی گئی باتوں پر غورکیا جائے توہمیں ان کے طرز عمل اور شخصیت میں جو
باتیں بہت واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں وہ ہے ان کی سچائی ،بے خوفی ،اﷲ
تعالیٰ کی ذات پر ان کا بھروسہ ،مختلف زبانیں بولنے والوں اور مختلف
قومیتوں رکھنے والوں کے درمیان سیاسی اختلافات اور دشمنیوں کو ختم کروانے
کے لیئے ان کی عملی کوششیں ،پاکستان ،پاکستانی جھنڈے اور پاکستانی عوام سے
سچی محبت ،رنگ ونسل اور قومیت کے تعصب کے بغیر پاکستانی عوام کی فلاح
وبہبود کے لیئے کام کرنے کا جذبہ اورخاص طور پر کراچی اور حیدرآباد کے
باشندوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹوں کی دہشت گردانہ اور مفاد
پرستانہ سیاست سے نجات دلا کر کراچی کو ایک بار پھر امن وامان کا گہوارہ
اور روشنیوں کا شہر بنانے کے لیئے انتھک محنت اور نمایاں کوششوں کے ذریعے
لوگوں کی سوچ بدلنے کا مشکل اور انقلابی کام جسے مصطفی کمال اور ان کے
ساتھی پاک سرزمین پارٹی کے پلیٹ فارم کے ذریعے بڑی دلیری اور ولولے کے ساتھ
انجام دے رہے ہیں اور ان کی بے خوفی ، جذبہ اور ولولہ ہی ہے جس کی وجہ سے
عوامی سطح پر انہیں اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔
اگر ہم23 مارچ 2019 کو پاک سرزمین پارٹی کے پہلے یوم تاسیس کے موقع پر
مصطفی کمال اور ان کی قائم کردہ پاک سرزمین پارٹی کی گزشتہ تین سال کی برق
رفتارسیاسی جدوجہد کا غیر جانبدارنہ تجزیہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے
کہ مصطفی کمال ،ان کے ساتھی اور پاک سرزمین پارٹی پوری سچائی ،حب الوطنی ،بہادری
اور بھرپور محنت کے ذریعے زبان اورنسل یا قومیت کے تعصب کے بغیر پاکستانی
عوام کے دلوں میں یہاں کے بعض مفاد پرست سیاست دانوں کی جانب سے ایک دوسرے
کے لیئے پیدا کی گئی نفرت کو دور کرنے کے لیئے ان کے دل آپس میں جوڑنے کے
لیئے مصروف عمل ہے اور اس میں پاک سرزمین پارٹی کو مصطفی کمال اور انیس
قائم خانی کی اعلی قائدانہ اور تنظیمی صلاحیتوں کی وجہ سے خاصی مقبولیت اور
کامیابی حاصل ہورہی ہے اور عوام کی بڑی تعداد ان کے جلسوں جلوسوں میں شرکت
بھی کر رہی ہے ۔ لوگوں کے دلوں میں مصطفی کمال ،انیس قائم خانی ان کے
ساتھیوں اور پاک سرزمین پارٹی کا پیغام بہت تیزی کے ساتھ اپنی جگہ بنا رہا
ہے اور اگر اسی طرح لوگ پاک سرزمین پارٹی کے پیغام پر لبیک کہتے رہے تو وہ
دن دور نہیں جب پاک سرزمین پارٹی کا شمار پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں
کیا جانے لگے گا۔
پاک سرزمین پارٹی کے تیسرے یوم تاسیس کے موقع پر اگر اس پارٹی کی تین سال
کی کارکردگی کو جانچا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جس برق رفتاری سے
صرف تین سال کے عرصے میں مصطفی کمال اور ان کی سیاسی پارٹی نے لوگوں کے
دلوں میں عوامی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے اپنی جگہ بنائی ہے وہ اس نئی
سیاسی پارٹی کے روشن مستقبل کی ضامن ہے ۔ گوکہ 9 ماہ قبل ہونے والے الیکشن
میں پاک سرزمین پارٹی کوئی انتخابی کامیابی حاصل نہیں کرسکی لیکن اس کے
باوجود اس پارٹی کے قائدین کی استقامت اور جدوجہد کو دیکھتے ہوئے اندازہ
لگایا جاسکتا ہے کہ آج نہیں تو کل یا کچھ سال بعد پی ایس پی انتخابی سیاست
میں بھی کامیابی حاصل کرلے گی۔
کراچی جہاں ایک طویل عرصہ سے رنگ ونسل اور زبان کو بنیاد بنا کر سیاست کی
جارہی ہے وہاں آکر مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے اپنی نئی سیاسی جماعت
پاک سرزمین پارٹی کے پہلے ہی جلسے میں پاکستانیت کے فروغ کا جو بے مثال
مظاہرہ کیا تھا اس کا تسلسل آج تک جاری ہے اور یہ مثبت طرز سیاست کا وہ
عملی مظاہرہ ہے جو ان کی نیتوں اور ارادوں کو ظاہر کرنے کے لیئے کافی ہے
جبکہ مصطفی کمال نے اپنی جماعت کے ایک ورکرز کنونش میں اپنی پارٹی کے
کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ جو کارکن برائی کا راستہ ترک نہیں
کرسکتے وہ ابھی ہماری پارٹی کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں ،ایم کیو ایم سے پی ایس
پی میں آنے والے لوگ ہماری پارٹی میں یہ سوچ کرآئیں کہ جو کچھ غلط کام ایم
کیو ایم میں ہوتا رہا ہے وہ پاک سرزمین پارٹی میں نہیں ہوگا ،میری پارٹی
میں آنے والا ماضی میں کچھ بھی کرتا رہا ہو لیکن پی ایس پی کا رکن بننے کے
بعد اسے کوئی غلط کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لہذا پاک سرزمین پارٹی
کو ایم کیوا یم سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے‘‘۔ اتنے واضح سیاسی موقف ،سوچ
اورحب الوطنی کے مسلسل اظہار پر مشتمل طرز سیاست کے باوجود اگر مصطفی کمال
کی نیت اور ارادوں پر شک کیا جائے تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔مصطفی
کمال کے قول وفعل اور کردار کی روز روشن کی طرح عیاں ہونے والی سچائی کے
باوجود کچھ لوگ تال حال ان سے بدگمان ہیں جو ان کی قائم کردہ نئی سیاسی
جماعت پاک سرزمین پارٹی کو ہنوز ’’ کمال گروپ ‘‘ کا نام دے کران کی پارٹی
کو ایم کیوایم کا ہی ایک ’’دھڑا ‘‘ قرار دینے پر مصر ہیں جو بہت ہی
غیرمناسب طرز عمل نہیں ہے۔ |