بلاشبہ شرم آنی چاہیے۔
بلکہ کسی تالاب میں ڈوب مرنا چاہیے ۔۔۔
جو اگر ایسے بے ضمیر لوگوں کوسیاسی کارکن کہا جائے کہ جن کی آنکھیں اپنی
قیادت کی ننگی و بے رحم لوٹ مار کی جانب سے نہ صرف بند رہیں بلکہ الٹا وہ
ان ڈاکوؤں اور لٹیروں کے دفاع میں سڑکوں پہ آکے قانون کا رستہ روکنے کی
کوششیں کریں ۔۔۔
اسلام آباد میں نیب کے دفتر پہ پیپلز پارٹی کی چڑھائی اسی وافر بے حیائی کا
کھلا مظاہرہ تھی ۔۔۔ یہ کارکن نہیں سیاسی وحشی ہیں اور ریاست کو ان سے آہنی
ہاتھوں سے نپٹا چاہیے اور انکے ساتھ ہرگز کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جانی
چاہیے ۔۔۔ کیونکہ سامنے کا سوال یہ ہے کہ کیا کرپشن کی جانچ کرنا کوئی غلط
عمل ہے اور کیا پی پی قیادت پاکستان کے دائرہء قانون سے بلند تر ہے ؟۔۔۔۔
جبکہ ان قائدین کا بدترین کرپشن میں ملوث ہونا ایک طے شدہ حقیقت کے طور پہ
معروف ہے جسکی متعدد مثالیں سب کے سامنے ہیں ۔۔۔ ان کارکن نما ذہنی غلاموں
بلکہ غنڈوں کو یہ یاد کیوں نہیں رہا کہ ابھی چند برس پہلے ہی برسرعام آصف
زرداری اور بینظیر علی الاعلان یہ دعویٰ کررہے تھے کہ برطانیہ میں موجود
سرے محل انکا نہیں ہے اور اس سے انکا کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، لیکن جب اس کے
کچھ عرصے بعد انکی اپنی حکومت آگئی اور اسی دوران برطانوی حکومت نے اسی سرے
محل کی فروخت کا فیصلہ کیا تو یہی قیادت لپک کے سامنے آگئی اور اس محل کی
ملکیت کا اقرار کرکے اسے اپنی تحویل میں لے کے فروخت بھی کردیا ۔۔۔ لیکن اس
کے باوجود کارکنان کے نام پہ غلامانہ گردن جھکائے رکھنے والے بلاول ہاؤس کے
ان چوکیداروں کا ضمیر نہیں جاگا اور ان میں سے کسی نے بھی بینظیر اور
زرداری کی کرپٹ قیادت کا گریبان نہیں پکڑا کہ اے لٹیرو تم اب کیسے اس محل
کو اپنا بتا رہے ہو جبکہ دن کی روشنی میں اور پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکے اس کی
ملکیت سے انکار کرچکے ہو اور یہ کام کسی اور رہنماء نے نہیں سب سے پہلے خود
مرحومہ محترمہ بینظیر نے کیا تھا اور قومی اسمبلی کے فلور پہ کھڑے ہوکے سرے
محل کی ملکیت کو سفید جھوٹ اور شرمناک الزام قرار دیا تھا ۔۔۔ یہ کارکن یہ
کیوں بھول گئے کہ طویل عرصے سے انکے زیراقتدار چلے آرہے صوبے کے علاقے تھر
میں بچے غذا اور دوا کی قلت کے سبب موت کے گھاٹ اترتے چلے جارہے ہیں اور یہ
کہ یہی وہ قیادت ہے جو کہ 2010 کے بدترین سیلاب میں ڈوبے ہوئے سندھ کو چھوڑ
کے پیرس کے محل میں گلچھڑے اڑا رہی تھی ۔۔۔
لیکن ان سیاسی بچہ جمہوروں کی خاموشی کا یہ سنگین جرم صرف ایک دو یا تین
بار کی بات نہیں ۔۔۔ کیونکہ یہ کارکن تواس وقت بھی خاموش رہے کہ جب گیلانی
کے دور میں حج جیسے مقدس معاملے تک کو لوٹ مار کا ذریعہ بنایا گیا اور راؤ
شکیل جیسے عادی مجرم و بدنام زمانہ کرپٹ فرد کو وزارت حج کا مدارالمہام
متعین کیا گیا جس کے نتیجے میں حاجیوں کے ساتھ کرپشن کا رسوائے زمانہ
اسکینڈل سامنے آیا ۔۔۔ یہ کارکن اس وقت بھی احتجاج کیوں کرتے نہیں دیکھے
گئے کہ جب بینظیر حکومت کی سرکاری سرپرستی میں بڑے پیمانے پہ چینی کی ذخیرہ
اندوزی کرکے چینی کو بے انتہا مہنگا کردیا گیا تھا کیونکہ زیادہ تر شوگر
ملیں اسی سیاسی اشرافیہ کے قبضے میں تھیں اور سپریم کورٹ کی جانب سے اسکا
سوموٹو نوٹس ہوا میں اُڑا ڈالا گیا تھا مگر اپنی اور زرداری اور دیگر سیاسی
اشرافیہ کی شوگر کی ایک فصل کو چار فصلوں کی قیمت کے برابر فروخت کرواکے
اربوں روپے کھرے کرلیئے گئے تھے اور یہی نہیں بلکہ اس ناپاک مقصد کو حاصل
کرنے کی خاطر اس وقت کے متعلقہ وفاقی وزیرمخدوم امین فہیم نے چینی کے بحران
کے بدترین وقت عوام کو ریلیف دینے سے انکار کرتے ہوئے تاخیری ہتھکنڈوں سے
کئی لاکھ ٹن سستی شوگر درآمد کرنے کے سپریم کورٹ کے احکامت کی دھجیاں بکھیر
دی تھیں ۔ اورجس سے ملک میں چینی کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچی تھیں اور یوں
عوام کی چیخیں نکال دی گئی تھیں ۔
ان لوگوں نے تو اس وقت بھی غلامانہ طور پہ اپنی کرپٹ قیادت کے سامنے اپنی
گردنیں ڈالے رکھیں تھیں کہ جب اسی رنگین مزاج مخدوم نے دبئی میں عیاشی کی
سہولتیں فراہم کرنے کے انعام میں وہاں کے ایک نائٹ کلب کے مینجر اکمل نیازی
کو براہ راست نیشنل انشورنس کارپوریشن کا چیئرمین لگا دیا تھا جو کہ بھیانک
قومی جرم سے کم ہرگز نہیں تھا ۔۔۔ واضح رہے کہ ایسی ہی ‘شاندار’ خدمات کے
عیوض نہ صرف یہ مخدوم صاحب پی پی پی کے ہر دور میں وزارت یافتہ رہے بلکہ
انکے ایک صاحبزادے کو بغیر پبلک سروس کمیش کا امتحان دیئے اسسٹنٹ کمشنری
دیدی گئی تھی اور ایک صاحبزادی کو وزارت خارجہ میں براہ راست ایک اہم عہدے
پہ لا بٹھایا گیا تھا جہاں یہ دونوں ‘نابغے ‘ آج بھی ‘سرگرم عمل’ ہیں مگر
کبھی کسی کارکن کی یہ ہمت نہ ہوسکی کہ اپنی قیادت سے یہ پوچھے کہ یہ سب تم
نے کیوں کیا اور ان میں سے کچھ گستاخ یہ واویلا ہی کرپائیں کہ کم ازکم ایسی
بے ایمانیوں کے وقت بھی تم لوگ ہم جیسے قربانیاں دینے والے جوشیلے کارکنوں
کو یاد کیوں نہیں رکھتے !!
اسی طرح بہت سے ایسے کئی اور شرمناک کارناموں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے مثلاً
کسی کارکن نے اپنی کرپٹ قیادت سے کبھی یہ پوچھنے کی جسارت کیوں نہیں کی کہ
وزیراعظم بنتے ہی یوسف رضا گیلانی نے میڑک پاس عدنان خواجہ کو اور پھر انٹر
پاس توقیر صادق کوآئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کارپوریشن جیسی اہم کارپوریشن کا
سربراہ کیسے بنادیا تھا اور اس طرح انٹر پاس زین سکھیرا نامی لونڈے لپاڑے
کو آئی ٹی کے سرکاری ادارے کا منصب کیونکر سونپ دیا گیا تھا ۔۔ حد تو یہ ہے
ان نام نہاد سیاسی ورکرز کو اس بات پہ بھی کبھی کوئی تاسف نہیں ہوا کہ فوج
کے بعد ملک کے سب سے بڑے اور نہایت ٹیکنیکل ادارے پاکستان اسٹیل ملزکو بھی
نہ بخشا گیا اوراس کا چیئرمین ایک ایسے جیالے چور یعنی عثمان فاوقی ( بدنام
زمانہ و سدا بہار بیوروکریٹ سلمان فاروقی کا بھائی اور ایک جیالی شرمیلا
فاروقی کا باپو) کو مقرر کیا گیا تھا کہ جس نے بعد میں دوسرے دور میں
سزایاب ہو کے جیل جانے کے بعد وہاں انٹر کا امتحان دیا تھا اور جب اسے پکڑا
گیا تو میڈیا کی موجودگی میں اسکے لاکر سے اس وقت کے سترہ کروڑ کی مالیت کے
جواہرات اور نقدی برآمد ہوئی تھی – لیکن بعد میں سیاسی مفاہمت کا ایسا
شرمناک جھرلو چلا کہ آگے پیچھے قتدار میں آنے کے عادی ملک کے دونوں بڑے
سیاسی راجواڑوں نے میثاق جمہوریت کے نام پہ آپس میں مک مکا کرلیا اور ان
مقدمات کو ہلکا کرکے چلتا کیا گیا-
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ وہی نیب جس کو ملک کی دونوں بڑی حکمران جماعتوں نے
اپنے اپنے گھناؤنے مفادات کی تکمیل کا آلہ بنائے رکھا اور اپنے اپنے ادوار
میں اسکی کارکردگی کو مثالی قرار دیتے نہ تھکتے تھے اسی کی جانب سے اپنی
قیادت کی طلبی پہ اس قدر شور و غوغا کیوں ۔۔۔ قیادت کو تو صاف نظر آرہا ہے
کہ انکے کرتوتوں کی اصلی پڑتال انہیں کہیں کا نہ چھوڑے گی کیونکہ انکی تو
اپنی پور پور کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے جسکی ایک چھوٹی سی مثال عدلیہ عظمیٰ
کی ایک سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس کا یہ ریمارک تھا کہ لاڑکانہ کے نام
پہ 91 ارب تو کیا 91 کروڑ کا خرچ ہی ثابت کردیں ۔۔۔ یہ کارکن نما افراد یہ
بھی کیوں نہیں سوچتے کہ ان دونوں جماعتوں کے کارکنان کی حیثیت اور وقعت کیا
صرف اتنی ہی ہے کہ وہ اپنے اپنے قائدین کو کاندھوں پہ سوار کیئے رہیں اور
کسی نہ کسی طرح تخت اقتدار تک پہنچا دیں جبکہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ
خواہ کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دے ڈالیں مگر ان میں سے کوئی کبھی مرکزی
قیادت کا حصہ بنایا ہی نہیں جاسکتا اور انکے نصیب میں بس یہی منظرنامہ لکھا
ہے کہ وہ اپنی سیاسی قیادت کے بعد انکے بال بچوں کو سر پہ اٹھائے پھریں اور
انکو اقتدار دلانے کے لیئے لاٹھی اور گولی کا سامنا کریں ۔۔۔ حتیٰ کہ
اعتزاز احسن ، شیری رحمان اور رضا ربانی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ و متحرک
لوگوں کا مقسوم بھی چند مراعاتی عہدے یا اک وزارت پالینے کی منزل سے زیادہ
کچھ بھی نہیں اور انکا مقدر بھی اسی طرح کی تابعداری تک محدود ہے کہ وہ
بینظیر کے بعد پارٹی کی قیادت پہ اسکے ناتجربہ کار و نابالغ فرزند کو
براجمان ہوتے دیکھیں جسکا واحد میرٹ بینظیر کا بیٹا ہونا ہے اوریوں
خوشامدیوں کا یہ گروہ پھر وہی قصائد پڑھنے کو اپنی سعادت جانے کہ جو وہ
کبھی بینظیر اور آصف زرداری کے لیئے پڑھا کرتے تھے ۔۔۔
لیکن ایسا کب تک چلے گا ۔۔۔ ؟؟
ہمیشہ تو ہرگز نہیں چل سکتا ۔۔۔ !!
کیونکہ دنیا بدل رہی ہے اور سیاست کے نام پہ کارکنان کی یہ خوشامد اور یہ
برخوردارانہ عمل تو تعلیم اور شعور دونوں کے لیئے کسی گندی گالی سے ہرگز کم
نہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ میڈیا و جمہور کی بیداری کے اس دور میں کوئی
معاشرہ ایسے غلامی کے آداب کے ساتھ کبھی نہیں پنپ سکتا اور کسی مہابلی کے
لیئے قانون کا بلیدان ہرگز نہیں کیا جاسکتا |