اب جب کہ لوک سبھا کے عام انتخابات کی بساط بچھ چکی
ہے ،شہ اور مات دینے کی مہم کا آ غاز ہو چکا ہے ۔ ایسے میں بھارتیہ جنتا
پارٹی حکومت کی پئے در پئے ناکامیوں کے باعث چھٹپٹاہٹ اور بے چینی بہت بڑھ
گئی ہے ۔چونکہ گزشتہ لوک سبھا کے عام ا نتخابات میں بھی بھاجپا کی
کارکردگی543 میں 281 سیٹیں لانے کے باوجود ووٹ کے تناسب کے لحاظ سے 31 فی
صد ہی پر محدود ہو گئی تھی اور دیگر پارٹیوں کے ووٹ کا تناسب 69 فی صد رہا
تھا ، لیکن ان ووٹوں کے مختلف پارٹیوں کے درمیان منقسم ہونے یا یوں کہا
جائے کہ ان ووٹوں کے بکھراؤ کی وجہ کر بھاجپا کو بڑا فائدہ ہوا تھا ۔ اس
لئے اس عام انتخابات 2019 ء میں کامیابی کو لے کر بھاجپا کی تشویش فطری ہے
۔یہی وجہ ہے کہ امت شاہ نے مشن 2019 ء میں اپنی کامیابی کے لئے بڑے پیمانے
پر لائحہ عمل تیار کیا ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھاجپا کی موجودہ حکومت نے
برسر اقتدار آنے کے بعد پورے پانچ برس تک ایسا کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں
دیا ، جن پر وہ ناز کرتے ہوئے ملک کے عوام کے سامنے جا ئے۔ غربت،
افلاس،بھوک ،بے روزگاری،مہنگائی،صحت، تعلیم، تحفظ، رواداری، بدعنوانی،ذخیرہ
اندوزی، صنعتی و تجارتی انجماد، اقتصادی مساوات، سماجی انصاف، جمہوری قدروں
کی حرمت اور آئین و دستور کی اہمیت کو، اس حکومت اور پارٹی نے کبھی بھی
مسئلہ سمجھا ہی نہیں ۔ یہ سب کے سب حاشیہ پر رہے۔ مسئلہ رہا تو بس یہ کہ
کیسے ظلم وستم ، بربریت ، تشدد، خوف و سراسیمگی پھیلا کر ـ ’ ہندوتوا‘ کے
اپنے نظریہ اور ایجینڈے کو نافذ کیا جائے ۔ غریبوں ، مفلسوں ، کسانوں،
دلتوں، اقلیتوں،کسانوں، بے روزگاروں، فوجی جوانوں پر کبھی کوئی توجہ نہیں
دی گئی۔ انسانی ہمدردی سے بے نیازاس حکومت کا عالم یہ ہے کہ تغزیہ سے مرنے
والے بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ، لیکن اس حکومت کے کانوں پر
جوں تک نہیں رینگی۔ گورکھپور کے بابا راگھوداس میڈیکل اسپتال سے ساٹھ سے
زائد پھول جیسے بچوں کا جنازہ نکل گیا ، انسانیت چیختی اور کراہتی رہی اور
ملک کے وزیر اعظم اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے کوئی خاص توجہ
نہیں دی گئی ، بلکہ یوگی آدیتیہ ناتھ کی حکومت کے ایک وزیر نے یہ کہہ کر
اپنی حیوانیت کا ثبوت دیا کہ اگست میں تو بچے مرتے ہی ہیں۔ بھاجپا کے قومی
صدر امت شاہ نے ایک قدم مذید آگے بڑھتے ہوئے اپنے غیر انسانی جذبات کا اس
طرح اظہار کیا کہ ’ملک میں پہلی بار نہیں ہوا ہے ایسا حادثہ ‘۔ اب انھیں
کون بتائے کہ جن ماؤں کی گود اجڑ گئی ، ان کا غم بانٹنے کی بجائے مذید ان
کے زخموں پرپر نمک پاشی تو نہ کرتے۔ اس سانحہ پر واشنگٹن پوسٹ وغیرہ نے ان
معصوم بچوں کی اموات کو قتل عام کا نام دیا تھا ۔ملک کے مسلمانوں ،دلتوں
اور قبائلیوں پر گائے کے نام پر جس طرح تشدد اور ظلم و بربریت کا مظاہرہ
کیا گیا ۔یہ در حقیقت گائے سے مذہبی عقیدہ کی بنا پر نہیں ہو ا ، بلکہ ان
پُر تشدد ہجومی حرکات سے ملک کے اندر انتشار اور خلفشار پھیلا کر ان طبقات
کے اندر خوف وہراس اور دہشت میں مبتلا کر ان کے اندر مایوسی اور گھٹن کی
کیفیت پیدا کرنے کی کاشش ہوتی رہی، کہ یہ لوگ اس قدر خوف اور دہشت میں
مبتلا ہو جائیں کہ ہر ظلم وستم پر خاموش تماشائی بنے رہیں ۔ اگر ان نام
نہاد گؤ رکشکوں کو واقعی گائے سے اتنا ہی مذہبی اور جزباتی عقیدت ہوتی تو
آئے دن جس طرح شہروں اور گاؤں کے مختلف علاقاں میں گائیں بھوک، پیاس کی شدت
سے بے موت مر رہی ہیں ، یہ نہ ہوتا ۔ ریاست چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ رمن
سنگھ یہ فرما یا تھا کہ گائے کو ذبح کئے جانے والے کو پھانسی دی جانی چاہئے
، وہیں رمن سنگھ کے ایک وزیر زراعت کے رشتہ دار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے
نیتا ہریش ورما کے قائم کردہ ’ شگون گؤ شالہ ‘ میں چند دنوں کے اندر دو سو
سے زائد گائے بھوک، پیاس کی شدت او رلاپرواہی کے سبب مر گیئں۔ دلچسپ بات یہ
ہے کہ اس گؤ شالہ میں گایوں کی دیکھ ریکھ، بھاجپا لیڈرہریش ورما اپنے ذاتی
خرچ پر نہیں کر رہا تھا ، بلکہ رمن حکومت نے اس گؤ شالہ کے نام پر پچاس
لاکھ روپئے کی گرانٹ بھی دے رکھی تھی ۔ مرکز ی حکومت کسانوں کے تئیں بھی
بہت ہمدردانہ رویہ کا اظہار کرتی رہی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ اب تک ان کے
سلسلے میں ایسی کوئی فلاحی اسکیم تیار یا نافذ نہیں کی گئی ، کہ ان کی
خودکشی کا سلسلہ رکے۔ ملک میں آئے دن کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں، اور
حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔پلوامہ میں مارے گئے فوجویوں کو شہید کہتے
نہیں تھک رہے ہیں ، لیکن انھیں شہید کا درجہ دینے کو تیار نہیں ۔ہر سال بے
روزگاروں کو دو کروڑ کا وعدہ وفا ہونا تو دور ، بلکہ دو کروڑ لوگوں کا
روزگار ان کی حکومتت میں چھِن گیا ۔ تمام سرکاری شعبے بری طرح سے مالی
بحران کے شکار ہیں ۔ بی ایس این ایل جیسا اہم شعبہ کے ملازمین کی تنخواہوں
پر لالے پڑے ہوئے ہیں ۔بینکوں کو اربوں روپئے کا چونا لگانے والے مودیوں نے
ملک کی معیشت کا جس طرح بُرا حال کیا ہے اورملک کو کتنا پیچھے لے گیا ہے ،
اس کا اندازہ آئے دن کے سروے رپورٹ میں سامنے آ رہا ہے ۔
یہ بس چندمثالیں بھاجپا کی برسر اقتدار حکومت کے حوالے سے د دہانی کے طور
پر پیش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت تقریباََ ہر محاذ پر بری طرح ناکام
ہے ۔’نوٹ بندی‘ اور ’جی ایس ٹی‘ کے سلسلے میں حکومت لاکھ دعوے کر لے اور
اپنی پیٹھ تھپتھپا لے ، لیکن صورت حال یہ ہے کہ ان دونوں معاملوں میں بھی
اس حکومت کو ناکامیوں کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔’نوٹ بندی‘ نے جس قدر بے
روزگاری میں اضافہ کیا ہے، اس پر بہت ساری رپورٹیں مختلف اداروں اور ماہرین
کی آ چکی ہیں۔ اسی طرح ’جی ایس ٹی‘ نے بہت ساری اشیأ کو بازار سے دور کر
دیا ہے ، جس کی وجہ کر مہنگائی آسما چھو رہی ہے۔ لیکن اس بڑھتی مہنگائی سے
اڈانی یا امبانی جیسے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے ۔ فرق تو ان
لوگوں پر پڑ اہے ، جو پائی پائی جمع کر دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکلوں سے
کھا پاتے ہیں۔ اڈانی اور امبانی جیسے لوگ تو اس بڑھتی مہنگائی سے بھی مالی
منعفت اٹھا لیتے ہیں ، بلکہ یوں کہا جائے تو شائد غلط نہیں ہوگا کہ ایسی
مہنگائی انھیں لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہی لا ئی گئی تھی۔
ملک کی جنگ آزادی میں جن لوگوں کا کو ئی رول نہیں رہا ، کوئی ایثار و
قربانی نہیں رہی ، وہ برسراقتدار آ گئے اور انھیں حُب اوطنی کی بہت زیادہ
فکر ستاتی رہی۔ ایسے ہی لوگ حب الوطنی کو ایشو بنا کر زیادہ ہنگامے کر تے
رہے ۔دراصل یہ وہ لوگ ہیں جن کی پارٹی کا جنگ آزادی میں کوئی رول رہا ہی
نہیں، کوئی ایثار و قربانی نہیں رہی، بلکہ بھارت کے لوگوں پر ظلم وتشددپر
آمادہ انگریزوں کی ہمنوائی کرتے رہے اور اب جبکہ مرکز او رمختلف ریاستوں
میں (جوڑ توڑ کر ہی سہی) برسر اقتدار آ گئے ہیں تو یہ لوگ اپنے ماتھے پر سے
ملک دشمنی کے لگے داغ کو مٹانے کے لئے انتہا پسندی کا ثبوت دے رہے ہیں۔چند
سال قبل پارلیامنٹ کی ایک بحث کے دوران غلام نبی آزاد نے ایسے ہی لوگوں کے
بارے میں ہی کہا تھا کہ یہ لوگ نئے نئے حب الوطن بنے ہیں ، اور مثل مشہور
ہے کہ نیا مسلمان زیادہ پیاز کھاتا ہے۔ اس لئے یہ لوگ خود کو حب الوطن ثابت
کرنے کے لئے ہی اس طرح کے ہنگامے زیادہ کر رہے ہیں، تاکہ لوگ انھیں زیادہ
حب الوطن سمجھیں۔ اب تو اور انتہا یہ ہو گئی کہ حکومت سے کوئی سوال مت
پوچھو ، اگر سوال کیا تو ، سوال کرنے والا غدّار وطن ہو جاتا ہے ۔
ایسے حالات کے بعد اصل موضوع پر ایک نگاہ ڈالی جائے ، جس میں بھاجپا کے
قومی صدر امت شاہ اپنا مشن 2019 ء لے کر انتخابی میدان میں اترے ہیں ۔اس
میں کوئی شک نہیں کہ امت شاہ جس قدر جوڑ توڑ میں ماہر ہیں اور جس طرح سے
انھوں نے اپنی کارستانی سے گزشتہ دنوں گوا ،منی پور ،اروناچل پردیش اور
میگھالیہ وغیرہ سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں زبردستی ، کانگریس کی اکثریت
میں ہونے کے باوجود اقتدارپر قابض ہو گئے ہیں ۔ادھر حزب مخالف کے اندر جس
طرح بھاجپا کو شکست دینے کا ماحول ایک سال قبل بنا تھا ، وہ اب مفادات کی
نظر ہو کر ٹوٹتا بکھرتا نظر آ رہا ہے ۔ سب سے زیادہ خراب اور غیر ذمہ
دارانہ رویہ کانگریس کا ہے کہ وہ اپنی زمینی ھقیقت سے آنکھ چراتی نظر آ رہی
ہے اور ہر جگہ زیادہ سے زیادہ سیٹیں لینے کے چکر میں اتحاد کا شیرازہ
بکھرتا نظر آ رہا ہے ۔ دراصل کانگریس کا ہدف 2019 ء نہیں ، بلکہ 2024 ء ہے
۔ اس انتخاب میں کانگریس بس اپنی پوزیشن بہتر کرنے کی خواہش مند ہے ۔ لیکن
اس کے اس عمل سے سیکولر اور امن پسند لوگون کے ووٹوں کے بکھراؤسے کتنا بڑا
نقصان ہونے کا اندیشہ ہے ، اس کا اندازہ ہی اسے نہیں ہے ۔ ملک کا دانشور
طبقہ اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ چکا ہے کہ اس بار بھی کانگریس
طشت پر سجا کر بھاجپا کو اقتدار دینا چاہتی ہے ۔ بظاہر موجودہ صورت حال میں
امت شاہ کی منظم منصوبہ بندی اور تمام تر لائحہ عمل سے انھیں کامیابی ملتی
نظر آتی ہے۔ انھیں اس امر کا بھی احساس ہے کہ حزب مخالف اس وقت بکھرا ہوا
ہے ، اس لئے ان کی کامیابی، یقینی ہے۔سونیا گاندھی نے گاندھی نگر میں کہا
تھا کہ فرقہ پرست پارٹی کی شکست کے لئے انھیں کو بھہ قربانی دینا پڑے گی ،
ان کی پاری دے گی، انھوں نے جند سال قبل ایک بیان آ چکا ہے کہ ’ نفرت
پھیلانے والی طاقتوں کے خلاف متحد ہوں‘۔ ادھر راہل گاندھی نے بھی شرد یادو
کی کانفرنس میں کبھی بہت ہی واضح طور پر کہا تھاکہ ہمیں متحد ہو کر ہر سطح
پر فرقہ پرستی سے مقابلہ کرنا ہوگا ، ورنہ ملک تباہ ہو جائگا ۔اس موقع پر
شرد یادو کی تقریر بھی بہت ہی معنی خیز تھی کہ ہمیں ہجومی حملے میں الجھایا
جا رہا ہے ، حملہ تو در اصل ملک کے آئین پر ہو رہا ہے اور ہمارا آئین ساجھی
وراثت کا امین ہے۔غلام نبی آزاد نے بھی اس کانفرنس میں بڑی اچھی اور سچی
بات کہی کہ ملک کے سیکولر ہندو سب سے زیادہ خطرے میں ہیں ۔ دابھولکر،پانسرے
، کلبرگی کے قاتل آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ مٹھی بھر لوگ پورے ملک کے اتحاد واتفاق او ربرسہا برس سے
قائم گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے کے در پئے ہیں ، لیکن اس ملک کے بڑی
تعدادایسے لوگوں کی ہے، جو ملک کے اندر پھیل رہی بد امنی ، انتشار اور
خلفشار سے پریشان اور سراسیمہ ہیں او ریہی وہ لوگ ہیں جو عام انتخاب میں
فرقہ پرسوں کو دھول چٹا دینے کے لئے کافی ہیں ۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ
اپوزیشن، فرقہ پرستی کے خلا ف اٹھ کھڑے ہونے والی مختلف سیاسی پارٹیوں کے
اندرکے اتحاد کو برقرار رکھے او رمتحد اور محتاط ہو کر پوری توانائی کے
ساتھ مٹھی بھر دشمنوں کا مقابلہ کرے ، تو کوئی وجہ نہیں کہ اس اتحاد کو
کامیابی نہ ملے ۔کانگریس کو اپنے جئے رام رمیش او رمنیش تیواری جیسے اہم
اور سینیئر کانگریسی رہنماؤں کی باتوں پر بہت سنجیدگی کے ساتھ ان کی ان
باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ نریندر مودی اور امت شاہ کی قیادت والی
بی جے پی سے عام طریقے سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس کے لئے نئے
ڈھنگ سے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ان تمام امور پر بہت سنجیدگی سے عمل کیا جاتا ہے ، تو کوئی وجہ نہیں کہ
آج کی اپوزیشن پارٹی کل کو برسر اقتدار پارٹی بن کر سامنے آ سکتی ہے۔ اس کے
لئے اب بھی وقت ہے۔ جس طرح کانگریس ، دلّی کی عاپ سے اتحا دکے لئے سوچ بدلی
ہے ، اسی طرح اتر پردیش، بنگال وغیرہ ریاستوں میں ملک کی سا لمیت اور امن و
امان کے لئے اتحاد و اتفاق کا دروازہ کھولنا چاہئے، ورنہ عوام کی خفگی اور
تاریخ کانگریس کبھی معاف نہیں کریگی۔ |