سانحہ بہاولپور ۔۔۔!!

امام الانبیاء، خاتم النبیّین، سیّد المرسلین، رحمۃ للعالمین، حضور اکرم ﷺ جب رسالت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے تو آپﷺ کو معلّم کا منصب عطا فرمایا گیا، حضور اکرمﷺ نے فرمایا اِنما بعثت معلما (ترجمہ) میں بہ طور معلّم (استاد) مبعوث کیا گیا ہوں، (ابنِ ماجہ)۔۔ سیّدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے مشکلات میں ڈالنے والا اور سختی کرنے والا بناکر نہیں بلکہ معلّم اور آسانی کرنے والا بناکر بھیجا ہے (صحیح مسلم)۔۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں کہ تمہیں علم و حکمت سِکھاتا ہوں۔۔ استاد کا درجہ باپ کے برابر ہے،اساتذہ کرام کو مجازاً باپ قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اساتذہ انسان کی روحانی وجود کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہوتے ہیں جس طرح سے حقیقی والدین انسان کے وجودِ جسمانی کا سبب ہوتے ہیں یہ مشائخ کے قول سے ثابت ہے۔۔شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اورا ن کوملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے، سب محنتوں سے اعلی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کار گزاری ہے، معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی تمدنی اورمذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہمہ قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔۔۔ معزز قارئین!! یہاں میں سانحہ بہاولپور کے حوالے سے وہ تحریر کرنا چاہتا ہوں جو میرے مہربان نےمجھے تحریر اس وقت بھیجی جب وہ پروفیسر خالد حمید کا نماز جنازہ پڑھ کر گھر پہنچے ہی تھے وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔بہاولپور میں دولے شاہ کے چوہے کے ہاتھوں شہید ہونے والے استاد کے ہی ایک شاگرد کی تحریر پڑھ لیجے میرا سلام ہو اس طالب علم پر جس نے وقت پر اپنے حصے کا سچ بولا اور جرات سے لکھ دیا۔پروفیسر خالد حمیددنیا میں انسان بہت سے لوگوں کے سامنے زانو تلمذ طے کرتا ہے لیکن ان میں سے چند ہی ہوتے ہیں جو آپکو زانو سے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں اور پھر اڑنا، سر خالد حمید بھی وہی استاد تھے، کتنا عجیب لگ رہا کہ اس انسان کے نام کے آگے بھی "تھا" لگانا پڑا،آج کا دردناک اور لرزھ خیز واقعہ ہم سب کے سامنے ہے ایک مذہبی جنونی طالبعلم نے اپنے ہی استاد کا خنجر سے قتل کردیا، یہ دکھ اس قدر بڑا ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل کہ ابھی اس عظیم ہستی کو سپردخاک کر کےآیا ہوں، طبیعت اجازت نہیں دے رہی لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح اس واقع کو رنگ دیا جا رہا ہے تو مجبورا لکھنا ضروری ہے سب سے پہلے آپ کو مختصر سر کا اور اس بدبخت قاتل کا تعارف اور پھر اس واقع کی مسلم روداد سناتا ہوں.سر خالد حمید ایس ای کالج شعبہ انگلش کے مایہ ناز استاد تھے آپکی علمی استداد، آپکا انداز بیان، بہاولپور کا ہر وہ طالب علم جس نے آپکا ایک لیکچر بھی لیا آپکا گرویدہ ہوگیا،یہ بات آج ایس کالج کے گراؤنڈ میں جنازے میں موجود نوجوان طلبا کی تعداد نے ثابت بھی کردی، صوم و صلواۃ کے پابند، نفیس لہجہ، سٹوڈنٹ کے حق کی خاطر خود تکالیف برداشت کرنی، ہر لیحاظ سے انکو سپورٹ کرنا کوشش کرنا کے کوئی کولیگ تو دور سٹوڈنٹ بھی آپ سے خفا نہ ہوجائے کسی کولیگ کی بلواسطہ بھی برائی نہیں کی ، ڈائس سے کبھی کوئی غیر اخلاقی یا مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ کبھی مذہب کو چھیڑا تک نہیں یہ بات میں تبھی کر رہا ہوں کہ تین سال انکے پاس پڑھا ہے وقت گزارا ہے سفر کیا ہے حال دل سنا اور سنایا ہے یہ باتیں محض لیپا لپٹی نہیں انکا ہر اسٹوڈنٹ تائید کرے گا،پھر آخر اس پیارے انسان کو انہی کے سٹوڈنٹ نے مارا کیوں؟خطیب حسین پانچویں سمسٹرکا طالبعلم ہے یعنی میرا جونئیر، یزمان کا رہائشی یہ طالبعلم مولانا خادم حسین کا پیروکار ہے اسکے کلاس فیلوز بتاتے ہیں کہ پچھلے چھ مہینوں سے اس کا انداز تھوڑا مختلف ہو گیا مذہبی انتہاپسندی پر مبنی باتیں کرتا واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کی ہنسی مزاق کی گپ شپ گو بھی حرام قرار دیتا اور ایک بار تو مولانا خادم کا فتوی پیش کیا کہ ہنسنا حرام ہے پڑھنے میں بہتر تھا کلاس میں خاموش رہتا، سر نے پانچویں سمسٹر میں انکو پڑھانا شروع کیا یعنی ابھی دوماہ ہی ہوئےتھے، ہماری اینول پارٹی کا وقت آن پہچا پارٹی سے دودن پہلے پورے کالج میں پروپیگنڈا کے تحت پمفلٹ لگے ہوئے پائے گئے کہ انگش ڈیپارٹمنٹ کی ہونے والی پاڑٹی کنجرخانہ ہے یہاں فحاشی ہوتی ہے یہاں یورپیین کلچر کو لایا جا رہا یہ اسلام کے منافی ہے اور نیچے منجانب طلبہ لکھا ہوا تھا یہ پمفلٹ نہیں معلوم کس نے بنوایا جس نے بھی بنوایا اس سے میرے دو سوال ہیں نمبر ایک جب پارٹی ابھی ہوئی نہیں تم پر وحی اتری کہ پارٹی میں یہ سب ہونے جا رہا ہے؟ نمبر دو ئم اتنی سلیس اردو میں لکھے پمفلٹ میں محض انگلش ڈیپارٹمنٹ کا نام کیوں باقی ڈیپارٹمنٹس کی پارٹی پر سانپ سونگھ گیا تھا؟پارٹی دراصل ایک اینول ڈینر ہوتا ہے جس کی تیاری سر حالد کے ساتھ مل کر ہم سبھی طالبہ و طالبات مل کر کرتے جس کا آغاز تلاوت قران پاک اور نعت سے ہوتا ہے،اس پمفلٹ واقع کے اگلے دن صبح جب سر آفس میں آئےتو خطیب حسین انکے پیچھے کمرے میں چلا آیا اور اور نیچے گرا کر پہ در پہ خنجر کے وار کرتا رہا ہمارے چونکہ لیکچرز دیر سے ہوتے تو صبح کے وقت زیادہ تعداد نہیں ہوتی ایک لڑکی نے جیسےدیکھا تو چیخ مار کر بیہوش ہوگئی اسکی چیخ کی آواز سے لڑکے بھاگ کر گئے تو دیکھا وہ جنونی خنجر سےمار کر خود اطمینان سے کرسی پر بیٹھا ہے ایمبولین آگئی ڈولفن پولیس پہنچ گئی سر تو اسی وقت دم توڑ گئے اسی واقع پر جب ایک اہلکار نے خطیب سے پوچھا کہ تم نے وار کیوں کیا تو اسکا کہنا تھا کہ یہ اسلام کے خلاف بولتا تھا،اس بدبخت نے سراسر جھوٹ بولا ہے،سر کو پڑھاتے بیس سال سے اوپر ہوگئے ہوں گے آج تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ایسا کچھ کہیں گے سر نےدس سال سعودی عرب میں گزارے ہیں تین سے چار بار حج کر رکھا ہے، ہر جمعہ ایک خوبصورت شلوار قمیض میں آتےاور لیکچر کے آغاز میں خدا کی نعمتوں کا ذکر اور اسکا شکریہ ادا کرنے کی تلقین ہوتی یہ انکی فطرت تھی انکا بس جرم یہ تھا کہ وہ منافق نہ تھے میں نے تین سالوں میں اس جیسا خوبصورت انسان نہیں دیکھا جو ایک وقت میں انگریزی ادب کا بہترین معلم، اسی لمحےایک اچھا مسلمان، ایک اچھا دوست اور شفیق والد تھا،خطیب حسین نے یہ سب خود نہیں کیا یقین اس کے پیچھے وہ سوچ کار فرما ہے جس سے نہ مشعال خان بچ سکا اور نہ اب سر خالد،یہ عجیب بات ہے کہ آپ کسی ذاتی عناد کی وجہ سے اسے اسلام دشمن کہیں اور قتل کر دیں یہ کونسا اسلام اجازت دیتا ہے ایسے تو اب جس کا دل چاہے وہ نوٹس لگائے اور اگلے دن اسے قتل کردے کیا یہی وہ اسلام تھا جو فتح مکہ کے موقع پر دیکھنے کو ملا؟ نہیں یہ اسلام نہیں بلکہ اسلام کا استعمال ہے اپنی رنجشوں کی آڑ میں آخر کب تک ہم ان جھوٹے انتہا پسند مولویں کی وجہ سے جانیں گنوائیں گے، کب تک ہم اپنے معلم، دانشور کھوئیں گے؟ آج صرف سر خالد کا قتل خطیب حسین کے ہاتھوں نہیں ہوا بلکہ علم کو جاہل نے خنجر سے مار ڈالااس واقع کی انکوائری جاری ہے، اس پوسٹ کو لکھنے مقصد یہ ہے کہ آپ غلط پروپیگنڈا میں مت آئیں نہ اسے آگے پھیلائیں، بلکہ آواز بلند کریں ایک معلم آج اس معاشرے میں انصاف مانگ رہا ہے۔۔معزز قارئین!! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے وقتوں میں ہمارے والدین اپنے اپنے گھروں میں دین کی تعلیمات خود دیا کرتے تھے اور تعلیم کیساتھ ساتھ خاص کر معلم کی عزت و احترام اور مقام کو اجگر کیا کرتے تھے ، چند سال ہی بیتی ہیں اس وقت کو جب معلم اور طالبعلم حقیقی روحانی رشتوں میں بندھا ہوا تھا،معاشرے کے اس بگاڑ میں کوئی ایک نہیں بلکہ کئی رشتے براہ راست قصور وار ہیں، ان میں سب سے پہلے والدین، پھر خود معلم اور ہمارا معاشرہ یہاں معاشرے میں سب سے زیادہ کردار میڈیا کا بھی ہے ، دور حاضر میں مسلک، تعصب اور انتہا پسندی نے نہ صرف انسانیت کو ختم کردیا بلکہ روحانیت کا جنازہ بھی نکال دیا ہے ،بے عمل بے علم علما دین، بے عمل بے علم مشائخ،بے عمل بے علم پیرعظام اور انتہا پسند مذہبی سیاسی رہنماؤں نے اس معاشرے کے بگاڑ میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کررہے ہیں،دین کی اسل اساس اور بنیاد سے ہٹ کر اپنے ذاتی نفسانی خواہشات کی تکمیل کیلئے چھوٹے چھوٹے ذہنوں کو بگاڑ رہے ہیں، دوسرے جانب ہمارے چینل ایسے ایسے ڈرامے دکھارہے ہیں جو مکمل منافی اسلام ہوں، جس میں مکمل بے راہ روی شامل ہے، نہ حکومت اس جانب دیکھ رہی ہے اور نہ ہی حکومرتی ادارے ان عوامل کی روک تھام کیلئے اپنے اختیارات استعمال کررہی ہے ، بحرکیف کوئی بھی ماں کے بیٹ سے مجرم یا ظالم نہیں پیدا ہوتا ہے یقینا ً جو ماحول ہم دے رہے ہیں اس کا اثر ہمیں اس طرح کے واقعات سے مل رہا ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاستی ادارے کب مدینۃ المنورہ جیسی ریاست اپنائیں گے کیونکہ ہمارے بقا و سلامتی اور کامیابی بھی خلفائے راشدین جیسی ریاست اور حکومت میں ہے ، اللہ ہم سب کا حامی و ناظر رہے آمین ثما آمین ۔۔۔۔۔پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!!

جاوید صدیقی‎
About the Author: جاوید صدیقی‎ Read More Articles by جاوید صدیقی‎: 310 Articles with 244765 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.