شور ہے کہ بڑھتا جاتا ہے،آوازیں ہیں کہ سارے میں ایسے
پھیلی ہوئی ہیں کہ اپنی آواز بھی اپنے کانوں تک پہنچتے پہنچتے ہلکان ہو
جاتی ہے۔ یہ شور گھر کے باہر بھی ہے اور گھر کے اندر بھی ہے، باہر سڑکوں پر
بے ہنگم ٹریفک کی چیخم دھاڑ میں پریشر ہارن بھی اپنے ہونے کا احساس دلا رہے
ہوتے ہیں اس آلودگی میں کسی مریض کو بر وقت ہسپتال پہنچانے والی ایمبولنس
کا سائرن تک کسی کو سنائی نہیں دیتا، اور سنائی دے تو کائی راستہ نہیں ،ہر
شخص کو اپنی منزل تک پہنچنے کی اس لئے بھی جلدی ہوتی ہے کہ پہلے سے اسے بہت
دیر ہو چکی ہوتی ہے، بڑے شہروں میں تو سڑکوں کی اکھاڑ پچھاڑ بھی ساتھ ساتھ
چلتی رہتی ہے ،جس کی گردو غبار سانس لینے نہیں دیتے تو ساتھ ہی ان کی
مشینیں بھی چیخ رہی ہوتی ہیں،جو ٹریفک کے شور کے ساتھ مل کر اعصاب پر
ہتھوڑے برسا رہی ہوتی ہیں۔ ان آوازوں کی وجہ سے ہماری حساسیت شور کی اتنی
عادی ہو چکی ہوتی ہے کہ ہمیں گھروں میں اس شور کا خصوصی انتظام کرنا پڑتا
ہے ،لاؤنج کا ٹیلیویژن سیٹ سارا دن اور رات گئے تک اچھی خاصی اونچی آواز سے
لگا رہتا ہے، کوئی دیکھے کہ نہ دیکھے کوئی جانے کہ نہ جانے ٹی وی بولتا
رہتا ہے،بلکہ جب ڈرامہ ٹائم ہو تو گھر کی خواتین یا تو گھر کے سو کام چھوڑ
کر ٹی وی کے آ گے بیٹھ جاتی ہیں یا کاموں سے مفر نہ ہو تو آتے جاتے کام
کرتے نبھاتے نظریں ٹی وی سکرین پر ٹکی ہو تی ہیں،یہ تو پھر بھی گوارا مگر
کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے ڈرامہ لگا ہو تا ہے اور خواتین اپنے موبائیل
پر فیس بک فیس بک کھیلنے میں مگن ہو جاتی ہیں ،ایسے میں یہ سوچ کر کہ اب یہ
تو موبائیل میں بزی ہو گئیں ہیں، آپ آہستہ سے ٹی وی کا ریموٹ اٹھا کر چینل
چینج کر دیتے ہیں تو جیسے بھونچال آ جاتا ہے، اوہو ڈرامہ لگائیں جی۔آپ کہیں
۔مگر آپ لوگ تو موبائیل کی طرف متوجہ تھے۔جواب آئے گا ہمیں پتہ ہے کہ کب
ہمیں سکرین کی طرف دیکھنا ہے۔اور کب صرف سننا ہے۔ ہمارا ڈرامہ ہے ہم جانتے
ہیں، گویا وہ دیکھیں نہ دیکھیں بس تسلی رہے کہ ڈرامہ چل رہا ہے اس لئے چینل
کوئی نہ بدلے۔ وہی کیفیت کہ
روٹھا رہے وہ مجھ سے یہ منظور ہے لیکن
لو گو اْ سے سمجھاؤ مر ا شہر نہ چھوڑے
سو گھر کے اندر ٹی وی نہ ہو تو موسیقی گونجے گی اور کچھ نہ ہو تو بلا وجہ
کو ئی موضوع لے کر ہر شخص اپنا رواں تبصرہ اس پر شامل کر دے گا، پہلے پہل
خواتین کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ وہ بہت بولتی ہیں اور دنیا کا سب سے
بڑا جھوٹ یہ گردانا جاتا ہے کہ ’’ ایک جگہ دو خواتین چپ بیٹھی تھیں ‘‘ اگر
چہ اس کی اور بھی کچھ شکلیں ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک بار خواتین کا ایک
گروپ دنیا کی بڑی اور معروف آبشار ’’ نیاگرا ‘‘ دیکھنے گئیں تو ان کے گائیڈ
نے ان سے درخواست کی کہ ’ خواتین اگر آپ ایک منٹ کے لئے خاموش ہو جائیں تو
آپ نیاگرا فال کی آواز سن سکیں گی‘‘ لیکن یہ کل کی باتیں ہیں آج تو سر شام
چینلز پر مردوں کا شور دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتا ہے،ہر چند اب کچھ
خواتین بھی ان کے شانہ بہ شانہ شریک گفتگو ہو تی ہیں مگر بازی مرد ہی جیتے
ہیں کہ کبھی کبھی تو زبان کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ بھی چلتے ہیں۔ سو گھروں
کے اندر بھی آواز کی یہ آلودگی پھیلی رہتی ہے، اب اس سکوت اور سکون کے
پرندے کو ہمارے ماحول سے ہجرت کئے ایک زمانہ بیت گیا ہے ،کبھی گھروں ور
گلیوں میں بہت خاموشی ہوا کرتی جس کو کبھی کبھی چھولے یا گنگنیاں بیچنے
والے کی آواز توڑتی تو اچھا لگتا مجھے یاد ہے ہماری گلی میں ایک گنگنیاں
بیچنے والا آیا کرتا اس کی آواز بہت خوبصورت تھی جب وہ ترنم ریز لہجہ میں
گنگنیاں مصالحہ دار لے لو کہتا تو سماعتیں جھوم جھوم جاتیں، یا گرمیوں کی
دوپہروں میں آئس کریم بیچنے والے کی آواز عجب لطف دیتی تھی، یہ لوگ ایسے
کردار تھے جو ہمارے ساتھ رہتے تھے ایک دن نہ آتے تو ہم بہت بے چین رہتے جو
ا ب بھی یاد آتے ہیں تو طبیعت کی افسردگی بھی کھلنڈرتی ہونے لگتی ہے، مگر
پھر ہم شور کی بستی آباد کر بیٹھے۔پہل شاید احمد فراز نے کی جس کو سکوت نے
تنگ کیا تھا
کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
اور پھر جب آوازوں کی حکمرانی قائم ہو گئی تو وہی فراز کہنے لگا
اِدھر اْدھر سے کئی آ رہی ہیں آوازیں
اور اس کا دھیان بہت انہماک چاہتا ہے
اور پھر اسی فراز نے اس صورت ِ حال پر یہ بھی تو کہا ہے نا
دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان ِ فراز
مل گئے تم بھی کیا اور نہ جانے مانگے
ادب میں تو آوازوں کا ایک خزانہ چھپا بیٹھا ہے جو فیض کے ’’ بول کے لب آزاد
ہیں تیرے‘‘ سے لے کر فراز ہی کے
منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا
بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
بلکہ فکشن میں تو خاموشی اور آوازوں کی بنیاد بنا کر کمال شہکار موجود ہیں
ایک انگلش ڈرامہ کی کہانی میں ایک شخص کی بلا کی خوبصورت بیوی گونگی ہوتی
ہے بہت علاج کے بعد ایک ڈاکٹر اس کی گویائی کو بحال کر تا ہے تو اس کا شوہر
نہال ہو جاتا ہے مگر جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اب وہ مسلسل بولے گی خاموش نہیں
ہو گی تومجبوراََ اسی ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے جس کے پاس سوائے اس کے کوئی
اور علاج نہیں ہو تا کہ وہ شوہر کو بہرا کر دیتا ہے۔ اسی موضوع پر ایک بہت
عمدہ فلم ’’ شور ‘‘ بنی تھی جس میں منوج کمار اور غالباََ جیہ بہادری تھی
اور جس کے گیت بھی بہت اچھے تھے،’ اک پیار کا نغمہ ہے مو جوں کی روانی ہے ‘
اس میں بھی ایک گونگے بچے کے علاج کے لئے اس کامزدور کار باپ دن رات محنت
بھی کرتا ہے اور دعائیں بھی کہ اس کا بیٹا کاش ایک بار اسے پاپا کہہ سکے،
اور جس دن اس بچے کا کامیاب آپریشن ہو تا ہے اور وہ بولنے لگتا تو اس کے
باپ کو خوش خبری ملتی ہے و خوشی کے مارے وہ سیڑھیاں اترتے ہی گر جاتا ہے
اور اس ایکسیڈنٹ کے بعدجب بیٹا پاس آتا ہے اوراسے پا پا پا پا پکارتا ہے
۔۔لیکن ایکسیڈنٹ سے وہ سماعت کھو چکا ہوتا ہے۔۔ عرفان صدیقی نے کہا ہے
ساری آوازوں کا انجام ہے چپ ہو جا نا
نعرۂ ہو ہے تو کیا شور ِ سلاسل ہے تو کیا
|