یہ میاں محمد نواز شریف کا دوسرا دور تھا،18مئی 1998کو
وزیراعظم نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اشفاق کو اپنے دفتر بلایا اور دس روز
بعدبھارت کے جواب میںایٹمیدھماکے کرنے کے احکامات جاری کردیئے،دھماکوں کے
بعد پاکستان پرمعاشی و اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں، ملک 32ارب ڈالر کا
مقروض ہو چکا تھا، مرکزی بنک میں صرف 1ارب 26کروڑ ڈالرجبکہ دیگر بنکوں میں
کاروباری حضرات کے 11ارب 80کروڑڈالر تھے جوعالمی پابندیوں سے نمٹنے کے لیے
ناکافی تھے ، حکومت نے یہ تمام اکاﺅنٹس فوری منجمند کر دیئے ، کوئی بھی اکاﺅنٹ
ہولڈر ان ڈالرز کو استعمال نہیںکر سکتا تھا ۔ حکومتی اخراجات کم کرنے اور
طرز حکومت میں سادگی لانے کا فیصلہ ہوا ،قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا
کہ ”ہم ان پابندیوں کا مقابلہ پیٹ پر پتھر باندھ کر کریں گے، اگر قوم ایک
وقت کی روٹی کھائے گی تو ان کے بچے بھی ایک وقت کی روٹی کھائیں گے
“،وزیراعظم سیکرٹریٹ چھوڑنے اور سرکاری رہائش گاہوںکی جگہ ہسپتال اور
تعلیمی ادارے بنانے کا اعلان کر دیاگیا ، راولپنڈی کینٹ میں واقع صد ر کی
رہائش گاہ کو فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میںبدل دیا گیا جہاں آج بھی
میڈیکل کی طالبات تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہی ہیںلیکن معاشی بحران سے
بچنے کے لیے یہ اقدامات ناکافیتھے اس لیے قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف
کے پاس جانا ضروری ٹھہرا جو امریکی آشیر بادکے بغیر ممکن نہ تھا، دوست
ممالک سے بھی رابطوں کی آپشن استعمال میں لائی گئی،اس ضمن میں سعودی عرب کا
کردار سب سے اہم رہا،حکومت جانتی تھی کہ اگر سعودی عرب پاکستان کو ادھار
تیل اور بنکوں میں چند ارب ڈالر رکھ دے تو معاملہ کافی حد تک قابو میں
آسکتا ہےچنانچہ حکومت نے وہی کیا،وزیراعظم دھماکوں کے فوری بعدسعودی عرب
روانہ ہو گئے اور سعودی فرمانروا سے ملاقا ت کی،ملاقات انتہائی مثبت
رہی،شاہ فہد نے پاکستان کی کھل کر حمایت اوربھرپورامداد کا اعلان کیا، تیل
میں رعایت اور مالی تعاون کا بھیعندیہ مل گیا،سعودی شاہ نے ولی عہد شہزادہ
عبداللہ بن عبدالعزیز کو پاکستان بھیجنے کاوعدہ کیا جو اسی سال اکتوبر
1998کو پاکستان پہنچ گئے ، ایران نے بھرپور امداد کی حامی بھری ، ترکی بھی
پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو گیا جبکہ افغانستان کی طرف سے دنیا کو حیران کن
پیغام ملا، اس وقت طالبان کی حکومت تھی ، ملا عمر نے کہا کہ” پاکستان پر
حملے کو افغان سرزمین پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو طالبان
حکومت پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو گی“ ۔دوست ممالک کو اعتماد میں
لینے کے بعد اسلام آباد نے واشنگٹن کا رخ کیا اور موثر سفارتکاری کے باعث
امریکہ کو قائل کرنے میں کامیاب رہا۔ پاکستان نے اپنے بیانیے میں موقف
اختیار کیا کہ اس نے ایٹمی دھماکے بھارت کے ردعمل میں کم از کم دفاعی
صلاحیت دکھانے کے لیے کیے ورنہ پاکستان نہ تو ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاﺅ کے
حق میں ہے اور نہ ہی کوئی جارحانہ عزائم رکھتا ہے یوں امریکہ نے آئی ایم
ایف سے قرض کے حصول میں رکاوٹ کھڑی نہ کرنے کااشارہ دے دیا، صرف یہ ہی نہیں
بلکہ پاکستان کو ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی خریداری کی مد میں ادا کیے گئے
471ملین ڈالر کی دو سالوں میںواپسی پر بھی رضا مندی ظاہر کر دی ، امریکہ نے
اس رقم کا 70 فیصدی نقد جبکہ باقی 30فیصد گندم اور دیگر اشیاءکی فراہمی کی
صورت میں فراہم کرنا تھی، ان دنوں پاکستان میں گندم کا شدید بحران تھا جبکہ
امریکہ کے پاس ملکی ضرورت سے زائد گندم دستیاب تھی چنانچہ امریکہ نے
360ہزار ٹن گند م پاکستان کو دینے کا اعلان کر دیا ، یوں ان حکومتی اقدامات
کے باعث بحران پر کافی حد تک قابو پالیا گیا جبکہ دوسری طرف پاکستان کی طرف
سے ایٹمی دھماکوں بارے بیانیے کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جانے لگا ، عالمی
پابندیوں میں کافی حد تک نرمی کر دی گئی،سفارتی کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم سے پانچ عالمی طاقتوں نے پاکستان
اور بھارت پر کشمیر تنازعہ کے حل کے لیے مذاکرات پر زور دینا شروع کردیا
اور آئندہ مزید ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ، یوں پاکستان اپنی
سلامتی اور خود مختاری پر سمجھوتہ کیے بغیر دانشمندانہ حکمت عملی اورموثر
سفارتکاری کی بدولت بحران سے نکل گیا ۔یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے ایٹمی
دھماکے کیے تو پاکستان کو معاشی خطرات کا سامنا کرنا پڑا ،آج جب ملک معاشی
دھماکہ کرنے جا رہا ہے تو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو دنیا کے لیے خطرہ
قرار دیا جا رہا ہے ۔گزشتہ دنوں امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات کو
غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے بھارت کے ساتھ کشیدگی میں پاکستان کو ذمہ دار
قرار دیا ۔ذرا غور کیجئے پاکستان کو آج بھی کم و بیش ایسے ہی حالات کا
سامنا ہے جو دو دہائیوں قبل تھا ، معاشی بحران کے سائے ہیں، پاک بھارت
تعلقات کشیدہ تر ہیں، جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں،ایٹمی اثاثہ جات پھر
نشانہ پر ہیں، سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے ، حکومتی جماعت کے خلاف تمام
تر اپوزیشن جماعتیں کمر بستہ ہیں۔دوسری طرف حکومتی پالیسیاں بھی کچھ خاص
مختلف نہیں،ان پر بھی نظر دوڑائیں،موجودہ حکومت کفایت شعاری اور سادہ طرز
حکومت پر زور دے رہی ہے ، سرکاری عمارتوں کو عوامی استعمال میں لانے کے
اقدامات بھی 98ءکی طرز پر ہیں ،آج بھی سعودی عرب سے ادھار تیل اور ڈالرکی
پاکستانی بنکوں میں بطورزرضمانت رکھوایا جار ہا ہے جبکہ آئی ایم ایف سے
مذاکرات بھی جاری ہیں۔
جمہوری نظام میں ضد،انا اور شدت پسندانہ نظریات کی کوئی جگہ نہیں ہوتی بلکہ
قومی مفاد میں کوئی بھی جماعت کسی بھی وقت کسی بھی ماحول میں کسی جماعت سے
بھی رابطہ کر سکتی ہے جس کا مقصد مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک
دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہو تا ہے تاکہ ملک کو درپیش سنگین صورتحال
سے نکالنے کے لیے مشترکہ اور موثر حکمت عملی مرتب کی جا سکے ۔آپ یورپ چلے
جائیں، برطانیہ کا نظام لے لیں، خود امریکہ قومی مفادات کے معاملہ میں
سابقہ حکومتوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن پاکستان میں الٹی گنگا
بہہ رہی ہے ،سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے یوں برتاﺅ کرتی ہیں جیسے ایک پارٹی
مسلم لیگ ہے تو باقی تمام جماعتیں کانگریس ہیں لہٰذا ان سے بات چیت کرنا
دشمنوں سے بات چیت کرنے کے برابر ہے ، ملک دشمنی کے فتوے تو عام ہیں،جسے
چاہا ،جب چاہاملک دشمن قرار دے دیا ،کسی نے سیاسی نظریات سے ہٹ کر بات کی
تو وہ دشمن قوتوں کا ایجنٹ قرار پایا۔پاکستان کی تاریخ ایسے ایجنٹوں سے
بھری پڑی ہے ۔اس ماحول میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے قومی
ایشوز پر تمام سیاسی جماعتوں سے روابط کا فیصلہ انتہائی خوش آئنداور جمہوری
نظام کے لیے حوصلہ افزاءہے اور آج ضرورت بھی اسی امر کی ہے کہ قومی ایشوز
پر کسی بڑے سانحے سے پہلے ہی اتفاق رائے پیدا کر لیا جائے ۔بھارتی ایماءپر
امریکہ کی طرف سے پاکستان کے ایٹمی اثاثو ں کو خطرناک قرار دیا جانا قابل
افسوس ہی نہیں بلکہ قابل احتجاج بھی ہے ۔باوجو د علم ہونے کے کہ پاکستان کے
ایٹمی اثاثے ایک مظبوط اور مربوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت محفوظ
ہاتھوں میں ہے اور اس کی حفاظت میں کوئی بے احتیاطی کبھی سامنے نہیں آسکی
تو ملکی سیاسی قیادت بالخصوص حکمران جماعت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
موجودہ معاشی صورتحال میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کے معاشی نظام پر ایٹمی
اثاثوں کی آڑ میں کیے جانے والے اس حملے نزاکت کو سمجھیں اور سیاسی تدبر کا
مظاہر ہ کرتے ہوئے بھارت کی طرف سے سفارتی محاذ پر کیے جانے والے اس حملے
کا منہ توڑ جواب دیں۔ اس ضمن میں سابقہ ادوار حکومت کے رہنماﺅں سے مشاورت
میں سیاسی اناپرستیاں ختم کی جائیں اور ان کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے
دشمنان پاکستان کو پیغام دیا جائے کہ دنیا کی تباہی اور بدامنی کی وجہ دنیا
کی بڑی طاقتوں کا دوغلا پن ہے نہ کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت ۔ |