دنیا انسانیت میں مختلف مزاج اور خیال کے لوگ موجود ہیں ۔بعض
لوگ دنیا کی زینت اور رونق میں غیر معمولی اضافہ کرتے ہیں اور کچھ لوگ منفی
طرز کی سوچ سے نفرتیں ،انتشار اور انسانیت کے لئے بربادی کا سامان بنتے ہیں
۔دنیا کو چلانے کے لئے ہر کوئی انسان بڑی اہمیت کا حامل ہے،کیونکہ اللہ
تعالیٰ نے ہر کسی انسان کو کوئی نہ کوئی صلاحیت عطا کی ہے ،جو کسی بھی شعبہ
یا جگہ پر کام آتی ہے ۔کئی لوگ ذہین اور کئی کند ذہن ہیں ،لیکن کند ذہن بھی
خداداد صلاحیتوں سے مالامال ہوتے ہیں ۔زیادہ تر لوگوں کی بدقسمتی ہوتی ہے
کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بہت دیر سے پہچانتے ہیں یا ساری زندگی پہچان ہی
نہیں پاتے ۔اسی لئے استاد کو معمار قوم کا لقب دیا گیا ہے ، کیونکہ اچھا
استاد شاگرد کی صلاحیتوں کو اجاگر اور اس کا مستقبل روشن بنانے کے لئے
ہمیشہ متحرک رہتا ہے اور اس کی بنیاد کر بہتر سے بہتر بنانے کا متمنی ہوتا
ہے ۔
معاشرے میں رہتے ہوئے انسان مختلف مسائل کا سامنا کرتا ہے ،وہ ان برائیوں
کا خاتمہ چاہتا ہے ،اس جدوجہد میں اپنی کوشش بھی کرتا ہے ،پھر پیچھے بھی ہٹ
جاتا ہے کہ میں ایسا نہیں کر سکتا ۔ایک ملک میں ایک قوم بستی ہے ،جس کا ایک
مزاج ہوتا ہے ،اس کا اپنا رہن سہن ہوتا ہے ،جب کچھ برے عناصر معاشرے پر اثر
انداز ہوتے ہیں ،تو اس برے عناصر کو ہٹانے کی ایک سوچ پروان چڑھتی ہے ،اگر
یہ سوچ پختہ اورنیک نیتی پر مبنی ہو تو برے عناصر کا خاتمہ ممکن ہو جاتا ہے
،اگر بد نیتی ،ذاتی مفاد پرستی ،انا اور ہوس اقتدار ہو تو سب کچھ دب کر رہ
جاتا ہے اور خرابی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھا جاتی ہے ۔
پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے ،ہماری ایک تہذیب تھی ،ایک اپنا
معاشرہ تھا،جس میں امن و سکون ، بھائی چارا،ادب ،احترام ،حب الوطنی او
اخلاص بھرا پڑا تھا۔تب ملک بھی ترقی کی جانب تیزی سے گامزن تھا،ہم دنیا کے
دوسرے ممالک سے سیکھتے نہیں تھے بلکہ سکھاتے تھے،مگر پھرمعاشرے کو خراب
کرنے کے لئے مفاد پرستی ،ہوس اورمنافقت سے بھرے عناصر حرکت میں آ گئے
،انہوں نے پاکستانی عوام کا سکھ،چین سب کچھ چھین لیا۔جب آج کا بزرگ نئے
پاکستان کو دیکھتا ہے ،تو خون کے آنسو روتا ہے۔اقتدار کے بجاریوں نے عوام
کے شعور میں یہ بات پیوست کر دی ہے کہ جب اوپر کا عملہ ٹھیک ہو جائے گا تو
نیچے خود بخود ٹھیک ہو جائے گا،لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ضرورت اس امر کی
ہے کہ جب تک ہم سب اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کریں گے ،کچھ درست نہیںہو گا ۔
ہمیںخود میں من حیث القوم وہ اچھائیاں پیدا کرنا ہوں گی جو ہم ملک کے
حکمرانوں کے اندر دیکھنا چاہتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا ہر شہری مسائل سے دوچار ہے ،معاشرے کی
برائیوں سے ذہنی مریض بن چکا ہے ،ان برائیوں کی وجہ سے ہماری نسلیں برباد
ہو رہی ہیں،آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ،لیکن ہم ان
برائیوںکے خلاف کچھ نہیں کر پا رہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ان عناصر
کو پہچان نہیں پا رہے،جو ان برائیوں کو پھیلا رہے ہیں ۔مرض کی تشخیص کے لئے
مختلف ٹیسٹ کی ضرورت ہوتی ہے ،تشخیص کے بعد ڈاکٹر فوراً بیماری کو ختم کرنے
کی دوا نہیں دیتا بلکہ پہلے بیماری کے جراثومے کے پھیلاﺅ کی روک تھام کرنے
کی کوشش کرتا ہے ،ان پر کنٹرول کرنے کے بعد مرض کے خاتمے کی جانب جاتا ہے ۔
ہمارے ہاں اس کے برعکس ہو رہا ہے ، ہم سیدھا مرض پر ہاتھ ڈالنے کی جلدی
کرتے ہیں ،جس کی وجہ سے جراثومے الرٹ ہو جاتے ہیں ،ایسا ماحول پیدا کر دیا
جاتا ہے کہ مرض کی جانب توجہ کم اور فرداً فرداً جراثیم کیجانب زیادہ ہو
جاتی ہے ،مرض کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتا ہے ۔جیسا کہ آج کے دور میں کرپشن
جیسی برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کا بھوت سوار ہے ۔یہ مرض ختم کیا جا سکتا
تھا،اس کے لئے ان عناصر پر پہلے ہاتھ ڈالنا چاہیے تھا جو اصل فساد کی جڑ
ہیں ،ان لوگوں کی تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔سسٹم عام شہری کے لئے
مشکلات پیدا کررہا ہے ، خواص اور اشرافیا تو اس سسٹم کے مزے لیتے ہوئے
دونوں ہاتھوں سے کرپشن کر رہے ہیں ۔اگر حق و نا حق ،سچ و جھوٹ اور ظلم و
انصاف کی تمیز سے ہر شہری کو واقفیت کروا دی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر
شخص اپنے علم و فن سے اپنی حد استطاعت کے مطابق ایک دوسرے کے لئے معاون
بننے میں اپنا رول ادا کریں ۔حکمران حقیقت پسندی ،صداقت اور شجاعت کو بروئے
کار لائیںتو کوئی وجہ نہیں کہ کرپشن سمیت ملک کے تمام مسائل حل نہ ہوں ۔
ہمارے وزیر اعظم جہاں جاتے ہیں وہ وہاں سے کچھ نہ کچھ سیکھنا شروع کر دیتے
ہیں،کسی سے معاشی ترقی سیکھی ،کسی سے کرپشن پاک ہونا سیکھا،کسی سے انڈسٹری
کے بارے میں سیکھنا شروع کر دیا ،مگر اقتدار سے پہلے وہ عوام کو باور
کرواتے رہے ہیں کہ میں ایک ”پروفیسر“کی حیثیت رکھتا ہوں ،ظاہر ایسے کیا جا
رہا تھا کہ جیسے دانشوری بھری پڑی ہے ، قائدانہ صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری پڑی
ہیں ۔عوام کو بہکاﺅے میں لانے کی بڑی کامیاب سازش کی گئی۔اس بار عام آدمی
کو بحرحال صاف پتہ چل چکا ہے کہ برائی کی اصل جڑ کیا ہے؟
جب تک پارلیمنٹ کی بالادستی اورادارے اپنی حدود سے تجاوز کرتے رہیں گے
،ملکی مسائل حل نہیں ہوں گے ۔جس ملک کا وزیر خزانہ میڈیا پر بیان دے کہ
”عوام کی چیخیں اور نکلیں گی،فکر نہ کرو“۔اس حکومت کی بد نیتی ،غیر سنجیدگی
اور نا اہلی پر کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاتا ۔پتہ چل چکا ہے کہ
یہ عوام کے نمائندے نہیں بلکہ جن کے نمائندے ہیں ان کے تلوے چاٹتے ہیں ۔یہی
وجہ ہے کہ کمزور ترین حکومت اور کارکردگی صفر ہونے کے باوجود نہ صرف قائم
ہے بلکہ تکبر سے بھری ہوئی کیبنیٹ جھوٹ اور الزامات کی سیاست کو فروغ دے
رہی ہے ۔صادق اور امین کہلوانے والی قیادت ہر لمحے عوام سے غلط بیانی اور
الزامات لگانے کے سواکچھ نہیں کر رہی۔انتقامی سیاست زور پر ہے ۔حالانکہ
سیاست میں نظریات پر اختلافات ہوتے ہیں ،ذاتی دشمنی کا کوئی وجود نہیں
ہوتا،مگر ہماری سیاست میں ذاتی انا بہت زیادہ پائی جا رہی ہے ۔ایک دوسرے سے
سلام تک لینا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے ،حکومت اور حزب اختلاف ملک چلانے کے
دو پہیے ہوتے ہیں ،آج ہمارا ملک ایک پہیے کے سہارے چل رہا ہے ۔اسی وجہ سے
ہر کام ٹیڑھا ہے۔
تحریک انصاف نے غریب عوام کے دن بدلنے کے دعوے،اشرافیا کے مفادات پر قدغن
لگانے کی نوید، اقتدار میں آتے ہی سب بھلا دیا ہے ۔عمران خان اپنی پارٹی
منشور کا زور شور سے تشہیر کرتے نہیں تھکتے تھے ،مگر اقتدار ایسی بے رحم
چیز ہے جیسے ہی ملتا ہے ،انسان کو فرعون بنا دیتا ہے ۔اس میں نا خدا جیسی
حرکتیں آ جاتی ہیں ۔آج تحریک انصاف کو منشور کا ایک نکتہ بھی یاد نہیں رہا
ہے ۔اگر حکومت کے یہی لچن اور چلن رہے تو ان کا حال واقعی عبرت ناک ہو گا
،عوام کو ایک بار پھر بہکاﺅے میں لانے کی سازش کار فرما ہے ،بیدار شعور کی
آگاہی بہکاﺅے کے سحر سے نکلنے میں مدگار ثابت ہوسکتی ہے ۔ |