صرف کمسن ہندو دوشیزاؤں پر ہی نظر کرم کیوں؟

ہمارے ہاں جب کوئی لڑکی گھر سے بھاگ جاتی ہے اور مرضی کی شادی کر لیتی ہے تو پھر وہ پاتال میں سے بھی ڈھونڈھ نکال لی جاتی ہے اور خاندان کی عزت خاک میں ملانے کے جرم میں واجب القتل ٹھہرتی ہے ۔ کہیں بھیڑ بکری کی طرح ذبح کر کے تو کہیں گولیوں سے بھون کے جہنم واصل کی جاتی ہے اور کہیں گاڑی میں باندھ کے نذر آتش کی جاتی ہے ۔

مگر جب بالکل اسی طرح کوئی ہندو لڑکی گھر سے بھاگتی ہے اور شادی کر لیتی ہے تو چند مٹھی بھر ناہنجاروں کو چھوڑ کے ساری خلقت وفور مسرت سے بغلیں بجانے لگتی ہے کیونکہ وہ لڑکی مسلمان ہو گئی ہے ۔

سوچنے والی بات ہے کہ تھر کے ریگزاروں اور اندرون سندھ کے خارزاروں خراباتوں میں بسنے والے اقلیتی برادری کے غربت زدہ تباہ حال لاچار لوگوں کی کم عمر ان پڑھ بیٹیوں کو کب کہاں کیسے اور کن تعلیمات کو حاصل کرنے کے مواقع میسر آ جاتے ہیں جن سے متاثر ہو کر وہ اپنے ماں باپ کا منہ کالا کر کے اسلام قبول کر لیتی ہیں؟ اور پھر کسی ٹٹ پونجئے مسلم نوجوان سے نکاح پڑھوا لیتی ہیں ۔

ان خانہ خرابوں کے لڑکے کیوں نہیں گھر سے بھاگ کر مسلمان ہوتے؟

اور اگر وہ ایسا کریں تو کیا ان کا نکاح کسی معزز گھرانے کی مسلم لڑکی سے پڑھوایا جائے گا؟ دیگر مذاہب اور خوشحال طبقے سے تعلق رکھنے والی ہندو لڑکیاں کیوں نہیں مسلمان ہوتیں؟

ذرا سوچیں تو سہی کہ اگر بالکل اسی طرح بھارت میں ابھی کوئی مسلمان لڑکی ہندو تعلیمات سے متاثر ہو کر گھر سے بھاگ جائے اور کسی ہندو لڑکے کے ساتھ پھیرے بھی لے لے تو کیا ہو گا؟ یہ ہمارا مداری میڈیا بمع مسلم امہ گلا پھاڑ پھاڑ کے فتوے جھاڑیں گے ۔

ایک عرصے سے مسلسل واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں کہ ایک مخصوص خطے میں غریب مفلوک الحال ہندو برادری کی لڑکیاں اغواء کر کے جبراً مسلمان کروائی جاتی ہیں اور پھر ان کی شادی بھی کرائی جاتی ہے ۔ اور پھر ان سے یہی بیان دلوایا جاتا ہے کہ وہ اپنی خوشی اور مرضی سے مسلمان ہوئی ہیں ۔ اس منظر نامے میں معاشی اور سماجی وجوہات کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں عاشقی معشوقی والے معاملات کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ۔

پچھلے چار روز سے دو بہنوں کے گھر سے بھاگ کر مسلمان ہونے اور پھر اپنے ہی محلے کے واقف لڑکوں سے نکاح پڑھوا لینے کی سٹوری اس وقت میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ ہے ۔ اپنی تصویروں اور وڈیو میں یہ لڑکیاں کہیں سے بھی پونے چودہ اور سوا پندرہ سال کی نہیں لگ رہیں ۔ ان کی عمریں اٹھارہ سے بیس سال تک ہو سکتی ہیں ۔ ان کے چہروں پر کوئی خوف و ہراس نظر نہیں آ رہا اور نکاح کے بعد یہ جس طرح اپنے شوہروں کے ساتھ خوش باش نظر آ رہی ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ انہوں نے واقعی اسلام برضا و رغبت قبول کیا ہے کسی دباؤ کے تحت نہیں ۔ ویسے بھی یہ لڑکیاں خوش نصیب ہوتی ہیں کہ ان کے والی وارث ہم مسلمانوں کی طرح غیرتمند نہیں ہوتے چار دن رو پیٹ کر چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں انہیں تہہ تیغ کر ڈالنے پر کمر نہیں باندھ لیتے ۔

ایک مسلمان لڑکی کی جس جسارت پر اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے وہی ایک ہندو لڑکی سے سرزد ہو تو قوم اسے نشان امتیاز عطا کرنے پر تل جاتی ہے ۔ مسلمان ہونا بری بات نہیں ہے مگر اپنے ماں باپ کو دھوکا دینا اور چوری چھپے گھر سے بھاگ جانا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ ان لڑکیوں کی ماں صدمے سے چل بسی ہے اور بوڑھا باپ اپنی بےبسی اور رسوائی پر باؤلا ہؤا پڑا ہے ۔ خود اپنے ہاں کی بچیوں کی حالت زار سے بےنیاز اور ہندو دوشیزاؤں کی دنیا و آخرت سنوارنے کے جذبے سے سرشار خدمت خلق کے علمبرداروں کا کسی قاعدے قانون سے کیا لینا دینا (رعنا تبسم پاشا)

 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1679378 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.