ملک کے ممتاز جیدعالم دین شیخ الحدیث مفتی تقی عثمانی پر
جان لیوا دحملے میں مفتی شہاب اور دو سیکورٹی گارڈز کی شہادت ہوئی ۔ کراچی
میں لسانی ، قوم پرستی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بے امنی پیدا کرنے کی
متعدد کوششیں کی جاچکی ہیں ۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعے کو بھی اسی زمرے میں
دیکھا جارہا ہے۔ مفتی تقی عثمانی سے قبل کئی بڑے جید علما اکرام مفتی
شامزئی،مفتی مجید دین پوری،حافظ محمد احسان علی شاہ اور مفتی صالح محمد
قاضی کو لسانی جماعت کے ٹارگٹ کلر شہید کرچکے تھا۔2015میں گرفتار ملزم
دیگرمذہبی وسیاسی جماعتوں کے کارکنوں اورکاروباری افراد کے قتل میں بھی
ملوث رہاہے۔ کراچی میں بے امنی کی وجہ سے پورے ملک کی معیشت متاثر ہوتی ہے
۔ کئی عشروں بعد کراچی میں امن کی بحالی دہشت گردوں کے لئے ناقابل برداشت
عمل بن چکا ہے ۔ اس لئے کوشش کی جاتی رہتی ہیں کہ کسی بھی طرح کراچی کو خوف
و ہراس کی فضا سے باہر نہ نکلنے دیا جائے ۔ جب کہ سیکورٹی فورسز ان سازشوں
کو ناکام بنانے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہتے ہیں۔
دہشت گردی کے اس بزدلانہ واقعات کی وجہ اہم شخصیات کی سیکورٹی واپس لینے کے
احکامات بھی سمجھے جاتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے اپنے ایک حکم کے تحت ملک بھر
سے اہم شخصیات کی سیکورٹی واپسی سے متعلق احکامات دیئے تھے جس کے بعد ایک
بڑی تعداد سے سیکورٹی پر تعینات نفری کو واپس بلا لیا گیاتھا ۔ سیکورٹی کی
عدم فراہمی پر کئی جماعتوں کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا تھا
کہ اس فیصلے سے اہم شخصیات کی جانوں کو خطرات میں مزید اضافہ ہوجائے گا ۔
سیکورٹی کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر مفتی تقی عثمانی پر جان لیوا حملہ ہوا
لیکن مقام شکر ہے کہ دہشت گردوں کے عزائم کامیاب نہ ہوسکے۔ گو کہ اس واقعے
میں دو قیمتی جانیں گنوا بیٹھے ۔ اس افسوس ناک واقعے کا ایک اور درد ناک
پہلو مفتی تقی عثمانی کے ذاتی محافظ صنوبر خان کے حوالے سے سامنے آیا کہ وہ
اپنی بیوہ بہن کے بچوں اور اپنے تین نابینا بچوں کے ساتھ 12بچوں کا واحد
کفیل تھا جو اس دہشت گردی کے حملے میں پولیس گارڈ فاروق کے ساتھ شہید ہوئے۔
آئی جی سندھ سید کلیم امام کے مطابقسندھ پولیس ہائی الرٹ ہے اور اس نے 500
سے زائد حملوں کے خطرات کو کامیابی سے روکا ہے، افسوسناک واقعہ ہوا، شکر ہے
مولانا تقی عثمانی صاحب محفوظ رہے۔
حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر تفتیشی ادارے تحقیقات کررہے ہیں۔ اس سے قبل
جید علما ء اکرام پر حملوں میں اہم ملزم کو گرفتار بھی کیا گیا تھا جس نے
یہ انکشاف کیاتھا کہ کراچی کی لسانی تنظیم کا مسلح ونگ مخصوص ایجنڈے کے تحت
علما اکرام کی بھی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھا ۔ یقینی طور پر تفتیشی ادارے ان
انکشافات کو بھی مد نظر رکھ رہے ہونگے کہ کراچی میں لسانی جماعت کی دھڑے
بندیوں کے بعد ، ملک دشمن عناصر اپنے نامکمل مذموم ایجنڈے پر دوبارہ سرگرم
تو نہیں ہوگئے۔ ایم کیو ایم پاکستا ن ، پاک سرزمین پارٹی کے دفاتر پر حملے
سمیت اِن جماعتوں کے کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ و دفاتر پر حملوں میں جو شواہد
سامنے آئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ کراچی امن دشمن عناصر اپنے سازشی منصوبوں
پر کسی بھی صورت عمل کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے۔بھتہ خوری کے حوالے سے
بھی گینگ وار کے غیر ملکی نیٹ ورک کے کارندوں کی جانب سے تاجروں سے واٹس
ایپ پر دھمکانے کی اطلاعات منظر عام پر آچکی ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر ملک سے
باہر بیٹھ کر بھی عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ کسی
اہم شخصیت کی ٹارگٹ کلنگ کی منصوبہ بندی اچانک نہیں کی جاسکتی یقینی طور پر
ان گوشوں پر توجہ دینے کی ضرورت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب ایسے ملزمان ضمانت یا
عدم شواہد پر عدالتوں سے رہائی یا جیلوں سے نیٹ ورک کا دوبارہ حصہ بن جاتے
ہونگے ۔
کراچی میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ کراچی کو
تین نئے اضلاع اور دو الگ الگ ڈویژنز میں تقسیم کیا جائے گا۔ نئے لوکل نظام
کے تحت کراچی میں 2 شہری حکومتوں کے 2 مئیر اور 9 اضلاع میں الگ الگ
میونسپل کارپوریشنز کا قیام عمل میں لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
کراچی ڈویژن کی تقسیم کرنے اور تین نئے اضلاع بنانے کے بعد موجودہ چھ اضلاع
کی ازسرنو حدبندی ہوگی۔ جبکہ نئے لوکل گورنمنٹ کے نظام کے تحت 9 اضلاع کی
الگ الگ میونسپل کارپوریشن بھی قائم ہونگی جن کے الگ الگ ضلعی چیئرمین
ہونگے۔
نئے حدود بندی اور انتظامی تقسیم کے حوالے سے پاک سر زمین پارٹی اور ایم
کیو ایم پاکستان کے شدید تحفظات سامنے آئے ہیں ۔مردم شماری میں انتخابی
حلقہ بندیوں اور کراچی کی آبادی کو کم کرنے کے الزامات کے بعد نئے بلدیاتی
نظام پر تحفظات سامنے آنے سے شہری و دیہی تفریق میں خلیج بڑھنے کے امکانات
زیادہ ہوگئے ہیں۔ سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں میں سیاسی بنیادوں پر فنڈز
کی تقسیم پر اختلافات سامنے آچکے ہیں ۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم
پاکستان اور تحریک انصاف کے درمیان اتحاد کے باوجود ابھی تک کراچی اہم
مسائل کو حل کرنے کے کوئی آثار سامنے نہیں ۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم
پاکستان بار بار تحریک انصاف سے اپنے وعدے پورے کرنے کے لئے مطالبات کرتی
رہتی ہے لیکن وفاق کی جانب سے ابھی تک کوئی قابل ذکر کردار سامنے نہیں آیا
۔ ایم کیو ایم ماضی کے مقابلے میں شہری علاقوں کے مسائل حل کرنے میں کامیاب
نہیں ہورہی تو دوسری جانب تحریک انصاف کے منتخب اراکین میں بھی مایوسی کی
ایک لہر دیکھنے میں آئی ہے انہیں تبدیلی کے نام پر منتخب کیا گیا تھا وہ
بھی شہری علاقوں اور اپنے حلقوں کے مسائل حل کرنے میں مکمل ناکام نظر آتے
ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کی پرانی شناخت کو نئے ویژن میں جلد ازجلد
بحال کرنے کے لئے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ کراچی کو تختہ مشق بنانے سے گریز
کرنا چاہیے ۔ موجودہ بلدیاتی نظام میں یونین کمیٹی اور یونین کونسل کی سطح
سے چیئرمین ، نائب چیئرمین ،کونسلرز سے لیکر میئر تک اختیارات کا رونا روتے
ہی نظر آتے ہیں۔امن و امان کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے ادارے
قربانیاں دے رہے ہیں لیکن جرائم پیشہ عناصر کے نیٹ ورک جب چاہے کسی بھی
ہائی پرفائل شخصیت کی سیکورٹی کو تہس نہس کرسکتا ہے۔حکومت کو اس پر توجہ کی
ضرورت ہے۔
کراچی کے سیاسی مسائل یا امن و امان کے گنجلگ معاملات ہوں ۔ حکومت کو زیادہ
سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گو کہ صوبائی حکومت کی اعلیٰ سیاسی قیادت
اور رہنماؤں کو اس وقت کئی ایسے معاملات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کی
توجہ مقدمات و قیادت پر زیادہ ہے ۔ لیکن ان کے فرائض میں اس وقت قیادت و
سیاسی معاملات کے ساتھ اپنے صوبے کے شہروں اور علاقوں کے مسائل و حل کرنا
بھی شامل ہے۔ صوبائی حکومت کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کی جلد ازجلد تکمیل
کو یقینی بنائے۔ جس میں خاص طور پر پانی ، بجلی اور ٹریفک کے مسائل ہیں جو
روز با روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ |