دُنیا وآخرت میں خیانت و بد دیانتی کا وبال

اسلام کی معاشرتی و اجتماعی زندگی میں بحیثیت مسلمان ایک شخص کے دوسرے پر جو حقوق واجب ہیں اُن کی ادائیگی نہ کرنا یا اُن کی ادائیگی میں کمی بیشی اور پس و پیش سے کام لینا امانت میں خیانت اور بد دیانتی کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے اپنی کوئی چیز دوسرے کے پاس بطورِ امانت کے رکھوائی ہو اور جس کے پاس یہ چیز امانت رکھوائی گئی ہے وہ اُس میں بے جا تصرف کرنے لگ جائے یا مانگنے پر واپس نہ کرے اور پس و پیش سے کام لے، یا کسی کی کوئی خفیہ اور وپوشیدہ بات کا کسی دوسرے کو بتانا یا کسی دوسرے پر اِس کو ظاہر کرنا بھی بد دیانتی اورخیانت کہلاتا ہے۔اسی طرح عام مسلمانوں، ائمہ وقت اور اپنے متفقہ قومی و ملی مصالح کے خلاف قدم اُٹھانا بھی قوم و ملت سے بد دیانتی اور خیانت کے مترادف ہے، دوست ہوکر دوستی نہ نباہنا، میاں بیوی ہوکر وفاداری نہ کرنا ، قول و فعل کا تضاد ہونا یہ بھی بد دیانتی اور خیانت شمار ہوتا ہے۔

چنانچہ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: اے ایمان والو! اﷲ اور رسول سے خیانت مت کرواور آپس کی امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کرو!۔‘‘ (الانفال) اﷲ اور اُس کے رسول کے ساتھ خیانت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے احکامات اور اُس کے رسول کے طریقوں پر عمل نہ کیا جائے، دین و ملت کے مصالح کے ساتھ غداری کی جائے، اﷲ اور اُس کے رسول کے دُشمنوں کے ساتھ دُوستی کی پینگیں بڑھائی جائیں اور اسلام اور مسلمانوں کے اندرونی حالات و واقعات سے اُنہیں آگاہ کیا جائے۔ اسی طرح آپس کے جملہ معاملات لین دین، وعدہ گھاٹا،خفیہ بھید اور راز کا افشاء کرنا، ایک دوسرے کی ملکیت میں باہمی رضامندی کے بغیر ناجائز تصرف کرنا وغیرہ تمام امور امانت میں خیانت اور بد دیانتی کے زُمرے میں آتے ہیں۔ایک دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: بے شک اﷲ تعالیٰ تم کو امانت والوں کو اُن کی امانتیں ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (النساء) ایک جگہ اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: اور آپؐ ہمیشہ اِن کی کسی نہ کسی خیانت پر مطلع ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ (المائدہ)

اسی طرح جو آدمی دوسرے پر کسی معاملہ میں اعتماد اور بھروسہ کئے رکھے اور وہ وقت آنے پر اپنے اعتماد اور بھروسے پر پورا نہ اُترے تو یہ بھی بد دیانتی اور خیانت کی ایک قسم ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں مذکور ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اوپر الزام کی پوری چھان بین عزیز مصر سے کروائی تاکہ اُسے یہ معلوم ہوجائے کہ میں نے چوری چھپے اُس سے خیانت نہیں کی ۔ (یوسف)اسی طرح حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں نے اپنے پاک پیغمبروں کے ساتھ بد دیانتی اور خیانت کی کہ اُن کے خلاف وہ کافروں کا ساتھ دیتی رہیں اور اپنے شوہروں پر ایمان نہیں لائیں۔ چنانچہ قرآںِ مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے کافروں کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان کی، یہ دونوں عورتیں ہمارے دو نیک بندوں کے گھر میں تھیں، اِن دونوں نے اپنے شوہروں سے بد دیانتی اور خیانت کی ، پس یہ دونوں پیغمبر ہوکر بھی اپنی بیویوں کو اﷲ تعالیٰ کے (عذاب) سے ذرا بھی نہ بچا سکے۔‘‘ (التحریم)
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص چھ باتوں کا وعدہ کرے تو میں اُس کے لئے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ۔ من جملہ اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ جب اُس کے پاس کوئی امانت رکھے تو اُس میں خیانت نہ کرے۔ایک دوسری حدیث میں آتا ہے،حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا کہ اگر تجھ میں چار باتیں پیدا ہوجائیں تو پھر دُنیا و آخرت میں کچھ بھی ہوا کرے تجھے کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ من جملہ اُن میں سے ایک امانت کی حفاظت بھی ہے۔(احمد و بیہقی) ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دُعاء مانگا کرتے تھے کہ اے اﷲ! میں خیانت سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ بہت بری خفیہ خصلت ہے۔ (ابوداؤد)

خیانت و بد دیانتی کا صلہ اور اُس کا وبال صرف آخرت میں نہیں بلکہ کبھی کبھی دُنیا میں بھی مل جاتا ہے۔چنانچہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ والیٔ مصراحمد بن طولون کو اپنے حوض کے پاس ایک بچہ پڑا ہوا ملا ، اُس نے بچہ کو اٹھالیا اور اس کی پرورش اور دیکھ بھال بڑی توجہ اور جانفشانی سے کی ۔ اُس کا نام احمد رکھا اور وہ’’ احمد یتیم‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ۔ اﷲ تعالیٰ نے اُس کو ذہانت و فطانت اور ظاہری و باطنی خوبیوں سے خوب نوازا تھا۔ احمد بن طولون کا جب آ خری وقت آیا تو اس نے احمد یتیم کو اپنے بیٹے ابو الجیش کے سپرد کردیا ۔ احمد بن طولون جب دُنیا سے رخصت ہوگیا تو ابو الجیش نے احمد کو بلا کر کہا :’’ میں تمہیں اپنے یہاں ایک منصب پر فائز کرنا چاہتا ہوں، لیکن میری یہ عادت ہے کہ میں کسی شخص کو کوئی ذمہ داری سپرد کرنے سے پہلے اُس سے یہ عہد و پیمان لیتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ کسی قسم کی خیانت کا ارتکاب نہیں کرے گا ۔ احمد یتیم نے عہد کرلیا ، تو ابو الجیش نے اس کو اپنے مال واسباب کا نگران اور تمام حشم و خدم کا امیر مقرر کردیا ۔ ابو الجیش احمد یتیم کا بڑا خیال رکھتا تھا ۔ احمد یتیم نے بھی اپنی ایمان داری ، صاف گوئی ، خدمت اور دیگراعلیٰ صلاحیتوں کے ذریعہ اُس کے دل میں گھر کرلیا تھا ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے گھریلو اُمور کے سلسلے میں بھی اُس پر اعتماد کرتا تھا ۔ایک دن اُس نے احمد یتیم سے کہا : ’’ میری فلاں باندی کے کمرے میں جاؤ!جس جگہ میں بیٹھتا ہوں وہاں ایک موتی رکھا ہوگا اسے لے کر آؤ‘‘احمد یتیم جب اُس کمرے میں داخل ہوا تو اُس نے امیر ابو الجیش کی چہیتی اور خاص لونڈی کو ایک خادم کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں پایا ۔ خادم نے جب احمد یتیم کو دیکھا تو نکل بھاگا ۔ لونڈی احمد یتیم کے پاس آکر اُسے بھی پیش کش کرنے لگی ۔ احمد یتیم نے کہا : ’’ اﷲ کی پناہ ! میں اپنے محسن کے ساتھ خیانت نہیں کرسکتا ، میں نے اس کے ساتھ عہد کر رکھا ہے ‘‘ یہ کہہ کر اُس نے موتی اُٹھایا اور امیر کی خدمت میں جاکر پیش کردیا۔احمد یتیم کے لونڈی کے یہاں سے اس طرح چلے آنے کے بعد وہ شدید ڈر اور خوف میں مبتلا ہوگئی کہ کہیں وہ امیر کو خبر نہ کردے ، مگر جب کچھ دن اطمینان سے گزر گئے اور امیر کے مزاج میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نظر نہ آئی تو لونڈی کے خوف میں کچھ کمی واقع ہوئی ، لیکن پھر ایسا اتفاق ہوا کہ امیر نے ایک نئی لونڈی خرید لی ، اور اس کو سب سے زیادہ چاہنے لگا ،طرح طرح کے انعام و اکرام سے نوازنے لگا ، پہلی لونڈی نے جب یہ صورت حال دیکھی تو وہ دل ہی دل میں کڑھنے لگی ، اس نے یہ یقین کرلیا کہ ضرور احمد یتیم نے اس کی خیانت کا ذکر امیر سے کردیا ہے، لہٰذا اس نے احمدیتیم سے بدلہ لینے کی ٹھانی ۔چنانچہ ایک دن روتی ہوئی امیر ابو الجیش کے پاس آئی اور دھاڑیں مار مار کر کہنے لگی: ’’ احمد یتیم نے میری عزت سے کھیلنے کی کوشش کی ہے ‘‘ امیر نے جب یہ سنا تو غیظ و غضب سے کانپنے لگا ، اور فوراً اس کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا لیکن پھر کچھ سوچ کر اپنے ارادے کو مؤخر کیا، اپنے ایک قابل اعتماد خادم کو بلاکر کہا : ’’میں ایک شخص کو سونے کا طشت دے کر تمہارے پاس بھیجوں گا ، وہ جب تم سے آکر کہے کہ اس طشت کو مشک سے بھر دو، تو تم اس کو قتل کرکے اس کا سر طشت میں ڈھانپ کر میرے پاس لے آنا ‘‘ چنانچہ امیر نے اپنے خواص اور مقربین کی ایک محفل جمائی ، مشروبات کا دور چلنے لگا ، احمد یتیم بھی اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ، وہ بڑا پر سکون اور ہشاش بشاش تھا ، اس کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی پریشانی دکھائی نہ دیتی تھی، اتنے میں امیر نے ایک طشت احمد یتیم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا : ’’ احمد یتیم ! یہ طشت فلاں خادم کے پاس لے جاؤاور اس سے کہو کہ امیر نے اس میں مشک بھرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘احمد طشت لے کر چل پڑا، راستے میں جب وہ باقی خدام و مصاحبین کے پاس سے گزرنے لگا تو انہوں نے اس کو روک لیا اور مجلس کے بارے میں پوچھنے لگے ،احمد یتیم نے جان چھڑانے کی کوشش کی اور کہا : ’’ مجھے امیر نے کسی کام سے بھیجا ہے ‘‘ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور کہا : ’’ کسی دوسرے کو بھیج دو ، جب وہ لے آئے تو پھر تم امیر کی خدمت میں لے جانا ‘‘چنانچہ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو اس کی نظر اس خادم پر پڑی جس کو اس نے باندی کے ساتھ دیکھا تھا ، احمد یتیم نے اسے طشت تھماتے ہوئے کہا : ’’ فلاں خادم کے پاس جاکر اس سے کہو کہ امیر نے حکم دیا ہے اس کو مشک سے بھر دو ‘‘خادم نے جاکر اسی طرح کہا ، امیر کے حکم کے مطابق خادم خاص نے اس کا سر کاٹا اور طشت میں ڈھانپ کر چل پڑا ، راستے میں احمد یتیم نے اس سے طشت لے لیا اور اس سے بے پرواہ ہوکر کہ اس میں کیا ہے ، امیر کی خدمت میں جاپہنچا ، امیر نے جب اسے طشت لئے زندہ سلامت اندر آتے دیکھا تو حیرت سے کبھی احمد یتیم کو دیکھتا توکبھی طشت کو ، احمد یتیم نے طشت امیر سامنے رکھا اور کپڑا ہٹایا تو اس کی آنکھیں کھلی کھلی رہ گئیں ، اب وہ بھی گم صم تھا ، کبھی طشت میں رکھے انسانی سر کو دیکھتا تو کبھی امیر کو، جب اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو بے اختیار پکار اٹھا : ’’ یہ کیا ہے ؟ ‘‘ امیر خود اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ، بالآخر اس نے امیر کے پاس سے طشت لے کر جانے سے واپس آنے تک کی ساری کار گزاری سنائی اور اس کے علاوہ کسی بات سے لاعلمی کا اظہار کیا ۔ امیر نے احمد یتیم کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا : ’’ تم اس کے متعلق ایسی کوئی بات جانتے ہو جس کی وجہ سے یہ اس انجام تک پہنچا ہے ؟ ‘‘احمد یتیم نے کہا : ’’ اے امیر! اس نے ایک خیانت کا ارتکاب کیا تھا جس کا آج اسے خمیازہ بھگتنا پڑا ہے ، میں نے آپ کو اطلاع نہ دے کر اس کے جرم کی پردہ پوشی کی تھی ‘‘ پھر اس نے اول سے آخر تک ساری کہانی امیر کو سنا ڈالیامیر نے لونڈی کو طلب کیا اور اس سے تفتیش کی تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور احمد یتیم کی پاک دامنی کی تصدیق کی ، امیر نے لونڈی کو احمد یتیم کے سپرد کرتے ہوئے اس کو قتل کا حکم دیا چنانچہ لونڈی کو قتل کردیا گیا ، اس واقعہ کے بعد امیر ابو الجیش کی نگاہ میں احمد یتیم کی قدر و منزلت مزید بڑھ گئی اور اس نے تمام امور کی زمام تصرف اس کے حوالے کردی ۔غور کریں ! دیانت دار کو اس کی دیانت کا صلہ اور خیانت والے کو اس کی خیانت کا صلہ کس طرح ملا ؟۔

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278813 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.