ایسا تھا میرا کراچی

کتاب کا نام ایسا تھا میرا کراچی
مصنف کتاب محمد سعید جاوید
پبلشر و ملنے کا پتہ بک ہوم ‘ بک سٹریٹ -46 مزنگ روڈ لاہور فون نمبر 042-37231518
ای میل [email protected]
صفحات 412
قیمت 1400/- روپے
محمد سعید جاوید ایک پرخلوص انسان ہی نہیں بہت معتبر رائٹر بھی ہیں ۔ان کی ہر تصنیف پہلے سے زیادہ اچھی ‘پرکشش اور معلومات افزاء ہے ۔میرا ا ن سے غائبانہ تعارف تو انکی مشہور زمانہ کتاب "مصریات"کے حوالے سے ہوا تھا لیکن جب ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو وہ ‘ کتاب سے کہیں زیادہ دلچسپ ‘ مہمان نواز اور اچھے دکھائی دیئے۔ یوں تو وہ فورٹ عباس کے نواحی گاؤں کے رہنے والے ہیں لیکن جہاں گردی کے بعد اب انہوں نے پھولوں اور باغات کے شہر لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا ہے ‘ وہ روزانہ ماڈل ٹاؤن پارک میں واک کے لیے جاتے اور جہاں جہاں سے انکاگزر ہوتا ہے ‘ تصویری جھلکیاں فیس بک کے ذریعے ہم تک پہنچتی رہتی ہیں ۔ تصویر کشی کا شوق تحریر و تحقیق سے کہیں زیادہ انکی شخصیت میں پایا جاتا ہے ۔بعض تصویریں تو ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ‘جہاں سے ہمارا روزانہ گزر تھالیکن ہم نے کبھی ان مقامات اور جگہوں کی خوبصورتی کو محسوس ہی نہیں کیا لیکن جیسے ہی سعید جاوید ان راستے سے گزرے تو ان راستوں کی دلکشی کو کچھ اس انداز سے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا کہ ہم دیکھتے ہی رہ گئے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان کی ایک اور کتاب جو ان کی سوانح عمر ی ہے وہ "اچھی گزر گئی " کے نام سے ادبی دنیا میں بہترین سوانح عمریوں میں شمار ہوتی ہے ‘ اسے پڑھنے اور اس پر تبصرہ کرنے کا اعزاز بھی الحمد اﷲ مجھے حاصل ہوا ۔ میں اس کا کتاب کے نام میں اضافہ کرکے "بہت اچھی گزر گئی " کر دیا ۔

جناب محمدسعید جاوید صاحب کی زندگی ایک کھلی کی کتاب کی طرح ہر اس شخص کے سامنے ہے‘ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا ان کی سوانح عمر کبھی نہ بھولنے والی کتاب ہے ۔ جہاں جہاں بھی ہوگی اپنے مصنف کا بہترین تعارف کرواتی رہے گی ‘ ا س کتاب کو ماہرین ادب نے بہترین سوانح عمریوں میں شمار کیا ۔ سعید جاوید ادب شناس ہی نہیں ادب کے دلدادہ بھی ہیں ‘ جہاں جہاں بھی انہیں ادب کی کوئی اہم شخصیت دکھائی دیتی ہے اپنے ادبی قد کاٹھ اور مقام کو فراموش کرکے اس کے دروازے پر جادستک دیتے ہیں ۔ وہ دوستی اور رشتوں کو نبھانے کے لیے ہر اس شخص کی سطح پر اتر آتے ہیں جو دل و جان ان سے محبت کرتا ہے ۔ خوش قسمتی سے میرا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہے جو سعید جاوید صاحب کی تحریروں کے عاشقین میں شامل ہیں ۔

اس وقت زیر نظر کتاب "ایسا تھا میرا کراچی " ہے ۔جس کا ٹائٹل ‘ پروڈکشن اور طباعتی معیار اس قدر اعلی ہے کہ پڑھے بغیر داد دینے کو جی چاہتا ہے ۔سعید جاوید ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ کراچی کانام ذہن میں آتے ہی میرا سر فخرسے بلند ہوجاتا ہے اور دل فرط عقیدت سے بھر جاتاہے ایسا کیوں نہ ہو یہی وہ عظیم شہر ہے جہاں بڑے ناز نعم سے میری پرورش ہوئی ‘ اس کی گلیوں میں گھوم پھر کر بڑا ہوا اور جب عقل و شعور نے آنکھ کھلی تو مجھے بہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے دنیا کے سرد و گرم چکھنے کے لیے آمادہ اور تیار کیا پھر یہیں سے میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا ۔تب یہ شہر پرسکون اور امن و شانتی کاگہوارہ ہواکرتا تھا ۔

وہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 171پر لالو کھیت ‘ گولیمار کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں تین ہٹی کے پل سے آگے نکلتے ہی لالو کھیت شرو ع ہوجاتاہے جونام کے اعتبار سے کراچی جیسے عظیم شہر میں ایک بڑا مزاحیہ سا مقام لگتا تھامگر حقیقت میں پہلے یہاں لیاری ندی کے آس پاس کھیت ہی کھیت ہوا کرتے تھے ‘ آبادی تو بہت بعد ہوئی کوئی مسکین ہوگا جس کانام لالو تھا اور وہ ہی اس جگہ کا مرکز ی کردار بنا ۔ لیکن کراچی کے مزاحیہ ڈرامے کرنے والوں نے اس نام کو بنیاد بنا کر اس کی بڑی مٹی پلید کی ۔ پھر 1965ء کی جنگ میں تو کمال ہی ہوگیا ۔ایک دن بھارت کے سرکاری ریڈیو آکاشوانی نے بھارتی ائیر فورس کے ہاتھوں لالو کھیت کا ہوائی اڈہ تباہ کرنے کی خوش خبری سنادی تو لوگوں سنجیدگی سے لالو کھیت ہوائی اڈے کی تباہ شدہ عمارتیں تلاش کرنے نکلے کھڑے ہوئے پھر جب نرالا ‘ معین اختر اور لہری نے اپنے ہر لطیفے کا آغاز لالو کھیت سے کیا تو مزید بے عزتی سے بچانے کے لیے اس کانام تبدیل کرکے نواب لیاقت علی خان کے نام کی مناسبت سے لیاقت آباد رکھ دیاگیا ۔ جو پہلے ایک گاؤں کی شکل میں تھا اور اب ملحقہ آبادیوں کے ساتھ شہر کراچی کا مستقل حصہ قرار پایا ۔ اس کے ساتھ ہی گولیمار کا علاقہ بھی ہے ۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ لیاری ندی کے کنارے انگریز فوجیوں نے اپنانشانہ سیدھا کرنے کے لیے یہاں فائرنگ رینج بنائے تھے وہ سارا سارا دن ٹولیوں کی شکل میں آکر یہاں گولیاں داغا کرتے ‘ اسی مناسبت سے مقامی باشندوں نے اس علاقے کوگولیمار کہنا شروع کردیا ۔ اس علاقہ سے کچھ آگے بڑھیں تو خواجہ ناظم الدین کے نام سے منسوب ناظم آباد آتا ہے جو کراچی کے مرکز سے کوئی دس بارہ میل دور ہے اس علاقے کو پڑھے لکھے مہاجروں نے اپنا مسکن بنایا ان میں علی گڑھ اور عثمانیہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے علاوہ دہلی ‘ یوپی ‘ سی پی ‘ حید ر آباد دکن سے آئے ہوئے اعلی تعلیم یافتہ افراد شامل تھے جن کا تعلق شعر وادب ‘درس و تدریس ‘ بینکنگ ‘صحافت ‘ فلم اور ٹیلی ویژن سے تھا ۔وہاں رہنے والے مشہور لوگوں میں پاکستان کے نامور مصور صادقین ‘ اقبال مہدی ‘ جسٹس لاری ‘ اداکار شکیل ‘ اداکارہ سنگیتا ‘ ابن انشا ء بھی شامل تھے ۔

میں تومصنف کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے تھک گیا لیکن سعید جاوید ابھی تک تازہ دم نظرآئے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ گرو مندر سے واپس صدر کی طرف جاتے ہوئے سب سے پہلے بائیں طرف قائداعظم محمد علی جناحؒ کا عظیم الشان مقبرہ آتا ہے ۔ جن دنوں کی بات میں کررہا ہوں تب یہ عظیم الشان نہیں تھا ان کی وفات کے بعد ایک اونچی سی چٹان پر ان کی قبر تھی ‘جس پر عام سا شامیانہ لگا رہتا‘ ایک سادہ سی قبر تھی جو ہر وقت پھولوں سے ڈھکی رہتی ۔اسی قبر کے اردگرد بچھی ہوئی دریوں پر بیٹھ کر لوگ سیپارے پڑھتے ‘ پھر یہاں خیمہ نصب کردیاگیا ۔ قبر کوپختہ کرکے چادر ڈال دی گئی۔قبر کے سرہانے ایک سپاہی پرانی سی رائفل لے کر کھڑا نظر آتا تھا۔اس پہاڑ ی کے آس پاس ہزاروں کی تعداد میں جھگیاں اور گھر بنے ہوئے تھے‘ساتھ ہی ایک بڑا سا میدان خالی تھا جہاں اکثر نمائش کااہتمام ہوتا ۔جب قائد کے رفیق کار نواب لیاقت علی خان شہید ہوئے تو اسی پہاڑی کے دامن میں مزار سے کچھ نیچے مشرق کی جانب ذرا ہٹ کر انہیں دفن کردیاگیا۔بعد میں عبدالرب نشتر ‘ روح الامین اورمحترمہ فاطمہ جناح کی تدفین بھی اسی مقام پر ہوئی ۔1960ء میں قائد کے موجودہ مقبرے کی تعمیر شروع ہوئی اور 1970ء میں اسے عوام کے لیے کھولا گیا ۔

مصنف آگے چلتے ہوئے ہمیں ایک کباب فروش کے پاس لے جاتے ہیں‘ جو اس زمانے میں بندو خان کبابیا کے نام سے مشہور تھا ۔صدر کی طرف جاتے ہوئے سڑک کے ساتھ ہی ذرا ہٹ کے چھپر ہوٹل ہوا کرتا تھا ‘ دکان کیا تھی چار بانس زمین پر گاڑ کے اس پر کھجور کی چٹائیوں کی چھت ڈال دی گئی تھی‘ یہاں ایک موٹا سا پکی عمر کا شخص سامنے دو تین انگیٹھیاں رکھے سیخ کباب ‘ گولا کباب اور تکے تیار کرکے زمین پر بچھی ہوئی چٹائیوں پر بیٹھے گاہکوں کو دے رہا ہوتا اس کے پیچھے بیٹھا ہوا نائب قیمہ اور بوٹیاں سیخوں میں پروپرو کر پکڑاتا رہتا ۔اس زمانے میں چار آنے میں چار کبابوں کی پلیٹ آیا کرتی تھی مگر کباب اس قدر لذیذ اور مزیدار ہوتے کہ لوگ انگلیاں چاٹ جاتے ۔یہ بندوخان کبابیا تھا جس کی اگلی نسلیں اعلی تعلیم حاصل کرکے میدان میں آئیں تو کاروبار کو سائنسی بنیادوں پر چلا تے ہوئے عروج پر پہنچا دیا۔آج لوگ بندو خان کو تو بھول چکے ہیں لیکن ا نہیں بندو خان ریسٹورنٹ کا نام مشہور ضرور یاد ہے ۔

کراچی کی بات ہو اور منوڑہ کا ذکر نہ آئے ‘ یہ کیسے ہوسکتاہے ‘ مصنف نے منوڑہ کے بارے میں چند ذاتی مشاہدات کا تذکرہ کچھ اس انداز سے کیا ۔ یوں محسوس ہوتاہے سب واقعات ہمارے سامنے رونما ہوئے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں یہ چھوٹا سا جزیرہ ریت سے اٹا ہوا ہے جس کے زیادہ حصے میں پاک بحریہ کی تنصیبات ہیں وہاں کچے پکے چند گھروں کے علاوہ یوسف شاہ غازی نامی بزرگ کا مزار بھی ہے جس کے ساتھ پاکستان کا اکلوتا لائٹ ہاؤس ہے اس کی روشنی رات کے وقت جہازوں کو بھٹکنے سے بچاتی اور منزل مقصود کا راستہ دکھاتی ہے ۔ وہ رقم طراز ہیں کہ ایک بار مہمان کے ساتھ وہ منوڑہ پہنچے یکدم گھنے سیاہ بادل آئے اور تیز آندھی کے ساتھ زور دار بارش شروع ہوگئی ہم وہاں سے نکل کر کشتی گھاٹ کی جانب بھاگے لیکن بارش میں بھیگنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ بجلی بندہوتے ہی جزیرہ اندھیرے میں ڈوب چکا تھا ‘ آسمانی بجلی چمکتی تو کچھ دکھائی دیتا ۔اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا تو کسی کی آواز کانوں میں سنائی دی کہ لائٹ ہاؤس پر بجلی گری ہے ‘یہ سنتے ہی تمام لوگ اور خوفزدہ ہوگئے ۔لانچوں کے ناخداؤں نے موسم کے تیور دیکھ کر سمندر میں جانے سے انکار کردیا ۔عورتیں اور بچے چیخ و پکار کر نے لگے ‘ بارش تھمنے کا نام نہ لے رہی تھی۔ پاک بحریہ والے مدد کو پہنچے ان کا جہاز گھاٹ سے آلگا اوپر چڑھنے کے لیے سیڑھی لگائی گئی پہلے خواتین اور بچوں کو پھر مردوں کو جہاز پر سوار ہونے کے لیے کہاگیا جب میں اوپر چڑھنے لگا تو یک لخت میرا ایک جوتا اتر کر پانی میں جاگرا ۔شدید بارش اور ہجوم میں اسکو ڈھونڈنا ممکن نہ تھا ‘دھکم پیل ہورہی تھی ۔جہاز منوڑہ سے روانہ ہوکر خیریت سے کیماڑی پہنچ گیا ۔بارش رک گئی تو ہم نے ٹرام پکڑی اور ایمپریس مارکیٹ تک آگئے ۔اگلے د و کلومیٹر کاسفر پیدل ہی کرنا پڑا۔ اندھیرے میں ننگے پاؤں چلتے ہوئے بمشکل رات بارہ بجے گھر پہنچے تو دیکھا ننگا رہ جانے والا پاؤں پتھروں اورکنکروں سے ٹکرا کر جگہ جگہ سے زخمی ہوچکا تھا ۔ جسے ٹھیک ہونے میں کئی دن لگے ۔اگر بحریہ کا جہاز نہ آتا تو ساری رات ہمیں جزیزہ پر ہی گزارنی پڑتی ۔ یہ میری زندگی کا پہلا نا قابل فراموش سفر تھا۔

بشیرساربان کے ذکر کے بغیر کراچی کاذکر ادھورا رہ جاتا ‘ یہ کیسے ممکن تھا کہ سعید جاوید بشیر ساربان کو بھول جاتے ۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 192پر لکھتے ہیں یہ واقعہ 1961ء کا ہے ایک بڑی بڑی مونچھوں والے ساربان کی قسمت جو جاگی تو وہ اپنی اونٹ گاڑی کو اس سڑک پر نکال لے آیا جہاں سے امریکی نائب صدر لنڈن بی جانسن کی سواری کو گزرنے والی تھی ۔ ساری ٹریفک کوایک طرف روک دیاگیا تھا تاکہ شاہی سواری بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھ سکے ۔پھر ایک ایسا معجزہ ہوا کہ دنیا دانتوں تلے انگلی داب کے بیٹھ گئی ۔جانسن صاحب کی نظر سڑک کنارے کھڑی اونٹ گاڑی پر پڑی ۔ان کو یہ چیز اتنی پسند آئی کہ وہ اپنی گاڑی رکوا کر نیچے اترے اور سیدھے بشیر ساربان کی طرف بڑھے ۔جانسن نے بڑی گرمجوشی سے بشیر سے ہاتھ ملایا ‘ پھر چاروں طرف گھوم کراونٹ گاڑی کو دیکھا ‘بشیر کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور جاتے جاتے بشیر ساربان کو امریکہ آنے کی


(3)
دعوت دے ڈالی ۔یہ بھی کہہ دیا کہ وہ ان کے ذاتی مہمان ہوں گے ۔جب یہ ناقابل یقین واقعہ وقوع پذیر ہورہا تھا تو بشیر ساربان احمقوں کی طرح منہ کھولے کھڑا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ گوری رنگت والا آدھی کیا کہہ رہا ہے ۔اس نے پیلے پیلے دانت نکالے اور سر ہلاکر رضامندی ظاہر کردی ۔حالانکہ اس کو علم نہیں تھا کہ امریکہ کس بلاکانام ہے ۔ جانسن کے جانے کے بعد بشیر ساربان کے لیے نئے کپڑے اور شیروانی سلوائی گئی پھر ایک دن وہ یہ لباس پہنے امریکہ جاپہنچا۔امریکی نائب صدرنے اس کا خود استقبال کیا۔ قیام کے دوران جانسن ‘ بشیر ساربان کو واشنگٹن ڈی سی لے آئے ‘امریکی صدر کنیڈی اور سابق صدر ہیری ٹرومین سے ملوایا ۔بشیر ساربان کے اعزاز میں شاندار دعوت کااہتمام ہوا۔امریکی صدر اسے "ہزایکسی لینسی" کہہ کر پکارتا رہا ۔بشیر کو چھری کانٹے سے کھانہیں آتا تھا وہ ہاتھ سے ہی کھانے لگا تو سب مہمانوں نے بھی اسے خفت سے بچانے کے لیے ہاتھوں سے کھانا کھایا۔ ایک ہفتہ قیام کے بعد بیش قیمت تحائف کے ساتھ اسے تحفے میں ایک ٹرک بھی دیاگیا جس کا بعدازاں کراچی میں بڑا چرچا ہوا۔
..............
یہاں میں یہ عرض کرتاچلوں کہ ممتاز دانش ور اور ادیب اشفاق احمد کو دنیا "داستان گو" کے لقب سے یاد کرتے ہیں لیکن سعید جاوید دور حاضر کے بہترین داستان گو ہیں وہ قاری کی انگلی پکڑ کر جہاں جہاں لے کر جاتے ہیں قاری واپسی کا سفر بھول جاتا ہے اور دل یہی چاہتا کہ وہ مزید داستان بیان کریں اور مزیدار قصے سناتے چلے جائیں۔اگر میں یہ کہوں کہ ان کی کتاب "یہ تھا میرا کراچی " کا ہر ورق ‘ سنہری یادوں سے ہے تو غلط نہ ہوگا ۔میں خود بھی 2007ء میں کراچی کے شیرٹن ہوٹل میں ٹیٹرا پیک گرین میڈیا ایوارڈ (50ہزار روپے کاچیک) لینے کے لیے کراچی گیا تھا وہاں دو دن ٹھہرنا بھی میرے لیے محال ہوگیا‘ ایک دن پہلے میں واپس لاہور آگیا ۔ اس لیے کہ کراچی شہر مجھے اچھانہیں لگا لیکن سعید جاوید کی کتاب پڑھ کر یوں محسوس ہوتاہے کہ کراچی دنیا کا خوبصورت اور پرامن شہر تھا جہاں ہر ہر مقام پر محبتیں ‘ چاہتیں اور الفتیں بانٹیں جاتی تھیں ۔میں سمجھتا ہوں کراچی تو ویسے ہی ہو گا جیسا میں نے دیکھا تھا لیکن سعید جاوید صاحب کا کراچی کسی کوہ قاف کا منظر پیش کررہا ہے ۔ جس میں تمام علاقوں ‘ شاہراہوں کے ساتھ ساتھ قومیتوں اور ممتاز شخصیات پرنہایت خوبصورتی سے قلم اٹھایا گیا ہے ۔ اس کتاب کو اگر کراچی کا انسائیکلوپیڈیا قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ یہ بات میں دعوی سے کہتا ہوں کہ کراچی میں رہنے والوں کو کراچی اتنا خوبصورت نہیں لگا ہوگا جتنا سعید جاوید کی کتاب پڑھنے کے بعد اچھالگتا ہے ۔ یہ سب کچھ مصنف کی اس آنکھ کا کمال ہے جس نے ہم سب کو اپنے حصار لے رکھاہے ۔ قارئین کی دلچسپی کا سامان اس کتاب کے ہر ورق میں شامل ہے ‘اس کتاب کو پڑھنے والا مایوسیوں سے نکل کر نئی جہتوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے ۔ اس وقت شہر لاہور سعید جاوید کا مستقل مسکن ٹھہرا ۔ اس حوالے سے نہایت ادب سے میں ان سے یہ گزارش کرتاہوں کہ وہ شہر لاہور کے بارے میں بھی اپنی یادداشتوں کو جمع کریں اور اپنے قلم کو جنبش دے کر ایک اور کتاب لکھیں جس شہر نے انکو عمر کے آخری حصے میں اپنی آغوش میں لے رکھا ہے ۔ بلاشبہ یہ کتاب لائبریوں کی زینت تو بنے گی‘ کراچی کے تمام تعلیمی اور سیاحتی اداروں میں ضرور موجود ہونی چاہیئے ۔
************

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663170 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.