تاریخ عرب کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمارے علم میں یہ
بات آئے گی کہ قبل از اسلام خطہ عرب میں عورت کی عزت و اہمیت پستی کی حدود
کو چھو رہی تھی،لڑکی کے پیدا ہوتے ہی گھر میں صفِ ماتم بچھ جاتا ،اسے گلہ
دبا کر مار دیا جاتا یا پھر زندہ درگور کر دیا جاتا،ظہور اسلام کے ساتھ ہی
اﷲ کے پیارے رسولﷺنے خواتین کے حقوق اور مردوں کو ان کے فرائض سے آگاہ کرنا
شروع کیا۔ اس طرح عورت کو معاشرہ میں مکمل عزت اور پر وقار مقام دیا جانے
لگا۔ماں،بہن،بیٹی اور بیوی کی صورت میں ان کے احترام اوراہمیت کی وضاحت کی
گئی اور سب سے بڑھ کریہ کہ عورت کو وراثت میں حصہ دار بنایا گیا جو قبل از
اسلام عربوں کے ہاں رواج نہیں تھا۔اسلام جب عورتوں کے حقوق وضع کرتا ہے تو
پھر ہمیں اپنے ارد گرد بہت سی خواتین ایسی ملیں گی جن کا خیال یہ ہوتا ہے
کہ اسلام کے متعین کردہ حدود و قیود میں رہ کر بھی خواتین اپنا مثبت و
تعمیری کردار ادا کرسکتی ہیں۔جیسے بہت سے ایسے نسوانی مسائل و معاملات ہوتے
ہیں جن کی بہتر طور پر تشریح،توجیح اور تسریح ایک خاتون ،مرد کی نسبت بہتر
بیان کر سکتی ہے۔مسز شاہدہ خان کا تعلق بھی اسی قبیل سے ہے جو حقوق نسواں
کی ترجمانی بہتر اور تعمیری انداز میں کرنا اپنا فرض اولین خیال کرتی ہیں۔
مسز شاہدہ خان سے گذشتہ روز ایک تقریب میں شرف ملاقات ہوا تو ان کے خیالات
نے گویا مجھ ایسے بندہ پر سحر طاری کر دیا،کہ ان کی حب الوطنی،انسان
دوستی،خارجی تعلقات،بین الاقوامی صورت حال اور بین الاقوامی سیاسی صورت حال
میں قطر کے کردار پر ایسی گرفت ہے کہ انسان ان کے علم و حکم کی داد دئے
بغیر نہیں رہ پاتا۔
مسز شاہدہ خان پاکستان ایسوسی ایشن قطر ویمن ونگ کی جنرل سیکرٹری اور
پاکستان ویمن فورم کی چئیر پرسن ہیں۔قطر میں عرصہ بیس سال سے مقیم
ہیں،کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔قطر اور پاکستان کا سیاسی و معاشی
مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟میرے اس سوال کے جواب میں انہوں نے نہائت مدلل انداز
گفتگو اپناتے ہوئے سابقہ حکومتوں اور موجودہ ارباب اقتدار کے رویوں سے لے
کر اندازِ حکمرانی کو ایسے بیان کیا کہ میں ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔انہوں نے
نہ صرف قطر اور پاکستان کے حالیہ روابط کا تذکرہ کیا بلکہ قطر کی موجودہ
دفاعی ،سیاسی و جغرافیائی صورت حال کی بھی بھر پور وضاحت فرمائی اور بین
الاقوامی سیاست میں قطر کے کردار کو بھی سراہا۔علاوہ ازیں قطر حکومت کا
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد اور سابقہ دارالخلافہ کراچی میں ویزہ
سنٹرکا افتتاح،ایک لاکھ پاکستانیوں کو روزگار کی فراہمی،دفاعی معاہدات،بزنس
کمیونٹی کے دو طرفہ تعلقات اور قطر حکومت کا پاکستان کو جہازوں کی فراہمی
،گویا وہ کون سا ایسا معلوماتی گوشہ ہے جو ان کے علم میں نہیں تھا۔یہ اس
بات کی بھی غمازی ہے کہ مسز شاہدہ خان کو پاکستان اور قطر کی موجودہ سیاسی
صورت حال و روابط پر مکمل گرفت ہے۔سانحہ کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کا تذکرہ
کرتے ہوئے ان کا آبدیدہ ہونایہ بتا رہا تھا کہ گویا ان کا دل خون کے آنسو
بہارہاہوکیونکہ الفاظ ان کے جذبات کی صحیح ترجمانی نہیں کر پا رہے
تھے۔دوران گفتگو مجھے محسوس رہا تھا کہ گویا وہ صنفِ نازک نہ ہو بلکہ ایسی
شیرنی ہو جو اپنے شکار پر جھپٹنے کو تیار بیٹھی ہو،کاش تمام مسلمان ارض کے
جذبات دنیا بھر میں بسنے والے بھائیوں کے لئے ایسے ہی ہوں تو پھر دیکھئے گا
کہ کس طرح اسلام امن و آشتی اور بھائی چارہ کا مذہب بن کر عالم پہ چھا جاتا
ہے۔خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے انہوں نے بہت ہی واضح پیغام دیا کہ میں
یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب اسلام نے ہمارے حقوق آج سے پندرہ سو سال
پہلے متعین فرما دئے ہیں تو پھر ہمیں ان حدود کو پامال کرنے کی ضرورت کیا
ہے؟مرد حضرات جب ہمیں گھر کی ملکہ اور سر کا تاج بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہم
خواتین کو شاہراہوں پر ذلیل و رسوا ہونے کی کیا ضرورت ہے،میں نے ہمیشہ
گھر،گھر ہستی کے بعد ہی تقریبات اور پروگرامز کا انعقاد کیا ہے۔میرے مطابق
حقوق نسواں کی چار دیواری میں پاسداری جبکہ شاہراہوں پر پامالی و رسوائی ہی
ہوتی ہے۔میری طرح بہت سے لوگ یقینا مسز شاہدہ خان کے خیالات سے اتفاق کریں
گے کہ عورت اپنی حدود میں وہ تمام کام سر انجام دے سکتی ہے جس کی ہمارا
،معاشرہ،خاندان، ضروریات اور اسلام اجازت دیتا ہو۔
|