4اپریل 1979کو ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی جتنی مذمت
کی جائے کم ہے اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن کہا جائے تو غلط نہ
ہوگا کیونکہ جمہوریت اور آمریت کی جنگ میں پاکستان کی ایک مشہور لیڈر کو
تختہ دار پر چڑھا دیا گیا ۔
اگر دیکھا جائے تو ان کے جیالوں، شیدائی اور چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں
میں تھی وہ اس وقت کی مشہور و معروف شخصیت تھے اس واقعہ سے مجھے قائداعظم
کا واقعہ بھی یاد آ جاتا ہے کہ جن کے بارے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا تھا
کہ :
اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جناح کچھ سال کے مہمان ہیں تو برصغیر کی تقسیم کے
مسئلہ کو آگے بڑھا دیتا
جب قائداعظم ایمبولینس میں موجود آخری سانسیں لے رہے تھے اور ان کی
ایمبولینس کا پیٹرول جان بوجھ کر کم کر دیا گیا ، ایمبولینس خراب دی گئی ان
سب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قائداعظم کو مارنے کی تیاریاں پہلے ہی شروع کردی
گئی تھی ۔اور اگر عوام کو ذرا سی بھی بھنک ہو جاتی کہ ایمبولینس میں ان کا
عظیم رہنما ہے تو وہ انہیں کاندھوں پر اٹھا کر اسپتال لے جاتے ۔
میری مندرجہ بالا لائن پر آپ سب غور کیجئے گا کہ اگر عوام کو معلوم ہوتا کہ
ان کا عظیم لیڈر ہے تو وہ کاندھوں پر لے جاتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس
میں بھی عوام بالکل اسی طرح پاگل اور محبت سے سرشار تھی جس طرح قائداعظم کے
معاملے میں تھی پھر ایسی کیا وجہ ہوئی کہ بھٹو صاحب نے قید و بند کی
صعوبتیں برداشت کیں ،دکھ درد برداشت کرتے رہے اور عوام نے ان کے لیے نہ
احتجاج کیا نہ ریلیاں اور جلوس نکالے اور نہ ہی بیرک یا جلیل کے دروازوں پر
کھڑے ہو کر پولیس کی لاٹھیاں کھائیں ؟؟آخر کیا وجہ تھی کہ قائداعظم کے بعد
پاکستان میں اتنی مقبولیت والا پی پی پی کا عوامی لیڈر تختہ دار پر چڑھا
دیا گیا ؟؟؟؟؟
اب آتی ہے بات بھٹو زندہ ہے اگر بھٹو صاحب زندہ ہیں تو کیوں ان کو اپنے
چاہنے والوں کا غم نظر نہیں آتا۔ روٹی کپڑا اور مکان کا وہ نعرہ جو کئی سال
پہلے بھٹو صاحب نے لگایااسے آج تک پائے تکمیل تک کیوں نہیں پہنچایا گیا ؟؟؟سندھ
کی حکومت کئی سالوں سے پی پی کے نصیب میں رہی ہے اس کے باوجود سندھ کی عوام
بنیادی سہولیات تک سے محروم کیوں ہے ؟؟؟کل شارع فیصل ،نمائش اور ٹاور کا
وزٹ کرنے پر معلوم ہوا کہ پی پی پی نے بھٹو صاحب کی چالیسویں40 برسی کے لئے
جو مختلف اور طرح طرح کے خوبصورت بینرز ، پینا فلیکس اور پمفلٹ چھپوائے ہیں
ان پر کس قدر پیسوں کا ضیاء کیا گیا ۔سندھ کی عوام کو کیا یہ سب سیاسی
پارٹیز کے لٹیرے حکمران اسی طرح لوٹتے رہیں گے اور ہم عوام خاموش تماشائی
بن کر سیاسی کھیل کی کٹ پتلیوں کا کام سرانجام دیتے رہیں گے آخر کب ہم
مشہور آئے گا یہ سارے حکمران مل کر ہماری عزت نفس ،ہماری توانائی کو کم اور
ذہنی اذیت کو بڑھا رہے ہیں 1947 کے بعد آزادی کی 2019 کی بہار میں ہم داخل
ہوچکے ہیں اب وقت آ چکا ہے کہ ان سیاسی پارٹیز کے ہاتھوں مزید کاٹ پتلیاں
بننے کے بجائے عقل سے کام لیں تا کہ پھر کوئی بھی پارٹی برسی کے موقع پر
بینرز ،پینافلیکس پر لاکھوں خرچ کرنے کے بجائے زندہ لوگوں کی فلاح و بہبود
کے لئے خرچ کرے ۔
کیونکہ جب تک ہم اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھائیں گے اسی طرح ان سیاسی
پارٹیز کے ہاتھوں ذلیل اور رسوا رہیں گے تو آئے سندھ کی ترقی اور فلاح و
بہبود کے لیے ہمارا ساتھ دیجئے اور مل کر ظلم ،زیادتی اور جبر کے خلاف آواز
بلند کریں ۔۔۔۔
|