رجب طیب اردو ان کی مسلمان نوجوانوں کو نصیحت

عالم اسلام پر گہری نظر دوڑائے تو ہم ایک چیز صاف نظر آتی ہے ان کی تباہی ، بربادی اور زوال کا سبب ان میں اتحاد کی کمی اور ان ممالک میں نسلی، مذہبی، لسانی، مسلکی اور علاقائی فسادات کا ایک منظم طریقے سے پھوٹ پڑنا ہے ۔
اقوام اسلام کی زبوحالی اور تنزلی میں ایک مشترک چیز نظر آتی ہے ، انکا کا اسلام سے منہ موڑنا، امت مرحوم اب ٹکڑوں، ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر رہے گئی ہے ہر کوئی اپنی شناخت پر فخر کر تا ہے میں فلاں ہوں، فلاں ہوں، حقیقت میں یہی ہمارے درمیان نفاقی کا سبب ہے ، 50لاکھ سے زیادہ مسلمان مرچکے ہیں، ایک کروڑ بیس لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں، پانچ مسلم ممالک ملبے میں تبدیل کردیئے گئے ہیں کیا اب بھی ہمیں مزید بے حس ہونے کی ضرورت ہے اس صورتحال مین رجب طیب اردو ان مسلم نوجوانوں کو متحدہونے اور کہتے ہیں، قوم ، ذات اس قدر اہم نہیں ان سے پریشان مت ہوں ہماری پہچان بطور مسلمان ہیں۔
ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ذات اور قوم کے بارے میں اپنے والد محترم سے سوال کیا تو ان کے محترم والد صاحب نے ایک انتہائی دلچسپ جواب دیا آپ مکالمہ سنیئے ۔
طیب اردوان ۔ایک سوال میرے دماغ میں آیا ۔ جو میں نے اپنے بابا سے پوچھا(اﷲ ان پر رحمت فرمائے)
میں نے اپنے بابا سے پوچھا: بابا جان! ہم اصلاًلازب(جارحیا کے مسلمان قبائل )ہیں یا ترک ، ہم لازب نسل سے ہیں یا ترک نسل سے ہیں۔
بابا نے جواب دیا: اے میرے بیٹے، بالکل یہی سوال میں نے اپنے دادا سے کیا تھا۔
بابا جان! ہم اصلاً لازب ہیں یا ترک؟
میرے دادا نے انہیں یہ جواب دیا، غور سے سنو
اے بیٹے جب کل ہم اﷲ کے حضور پہنچیں گے اﷲ پوچھے گا
من ربک؟ (تیرا رب کون ہے ؟ )
ومن نبےّک ؟(تیرا نبی کون ہے ؟ )
وما دینک؟ (تیرا دین کون سا ہے ؟ )
دین کا سوال ہوگا؟
وما قومک؟(تیری قوم کیا ہے ؟ )
یہ سوال نہیں پوچھا جائیگا تیری ، قوم کیا ہے ؟
اس نصیحت کے پس منظر میں برطانوی سیکریٹری خارجہ کا بیان درج کرتا جاؤنگا، لارڈ کرزن برطانوی سیکریٹری خارجہ(1919-1924) جو اس وقت خلافت عثمانیہ کو معدوم کرنے میں صیہونی طاقتوں کے آلہ کار بھی تھے انکا کہنا ہے:
’’ہمیں ہر اُس سبب کا خاتمہ کرنا ہوگا جو کسی بھی راستے سے مسلمانوں کی آنے والے نسلوں میں اتحاد کا باعث بن سکتا ہو۔ ہم پہلے ہی کامیابی کے ساتھ خلافت کا خاتمہ کرچکے ہیں۔ اب ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مسلمانوں میں خواہ فکری ہو یا ثقافتی کسی بھی سطح پر دوبارہ کوئی وحدت قائم نہ ہوسکے ‘‘۔
اے! اہل پاکستان کے نوجوانوں!
کیا اب بھی رجب طیب اردوان کی نصیحت کے بعد کوئی گنجائش رہ گئی ہے کہ ہم خود کو مزید سے مزید تر لسانیت، قومیت، علاقیت اور سیاسی و مسلکی بنیادوں پر تقسیم کریں؟
کہا اب بھی گنجائش ہے کہ ہم خود کو پنجابی، سندھی، بلوچی، پختون میں تقسیم کر کے ملت اسلامیہ کو مزید بکھرے بکھرے کردیں؟ کبھی ہم نے سوچا بیرونی طاقتیں ہم مسلسل ملت اسلامیہ کو تقسیم کر کے ارض پاک کو کمزور بنارہے ہیں اور جمعیت مزید کمزور پڑتی جارہی ہے اور خود ہی ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، اس صورتحال میں اقبال فرماتے ہیں؛
یوں تو سید بھی ہوں، مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی!
پاکستان پر مسلط کردہ پانچویں نسل کی جنگ میں دشمن اندرونی بغاوتوں، مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی، صوبوں کے درمیان تفرقہ و انتشار معاشی تباہی کی حمایت، قتل، دہشت گردی اور شہری جنگ کو طول دے کر اپنے ناپاک مقاصد کو عبور کرنا چاہتا ہے ۔
بحیثیت پاکستانی ہم سب کو اخوت، بھائی چارہ اور برداشت رواداری کی آپس میں فزاء قائم کر کے ایک دشمن کی منظم چالوں کو ناکام بناسکتے ہیں، یہ ایک زندہ حقیقت ہے ہم سب اپنے تمام تر اخلاقات کو بھلا کر اہل پاکستان کو فکر اقبال اور کلمہ کی بنیاد پر متحد کریں اور یہی ہماری ترقی و خوشحالی کی بقا اور امت مرحوم کے عروج کا سبب بنے گا۔

Muhammad Umar Farooq
About the Author: Muhammad Umar Farooq Read More Articles by Muhammad Umar Farooq: 7 Articles with 7516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.