کنٹینر سرکار کا غریب مٹاؤ پروگرام․․․․․

 پاکستان کے بد قسمتی سے موجودہ وزیراعظم عمران احمد نیازی کو وزارتِ عظمیٰ تو دلوادی گئی ہے۔ مگر اصولِ حکمرانی کی تربیت دینے میں پیچھے والوں سے شدید بھول ہوگئی ہے۔اور پھر نیازی قول کے سچے اور بات کے پکے کب ہیں؟ وہ تو جو جو باتیں کنٹینر پر چڑھ کر 126،دنوں تک لہک لہک کر دھراتے تھے، وہ تمام کی تمام دھویں کا بادل بن گئیں۔اور پھروہ ہی باتیں جو وہ اپنے مخالفین کے بارے میں بکھانا کرتے تھے۔وہ تمام کی تمام موصوف پر دوسو فیصد تک صادق آگئیں! ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہوں نے اپنا تھوکا ہوا بار بار چاٹنا شروع کر دیا تو قوم نے ان پر لعنت ملامت کی تو موصوف نے یہودی انداز کا یو ٹرن لے کر ہر جھوٹ کو سچا کر دکھانے کی جہدِ مسلسل شروع کردی،اور ان کے تمام زر خرید اینکرزنے بھی بھر پور کوششیں شروع کردیں۔یہودی اور قادیانی اسٹائل پرجھوٹ و فریب کی بنیادوں پر موصوف نے ریاستِ مدینہ بنانے کاجھوٹا جھانسہ دے کر اسلامی تاریخ و اقدار کا بے دردی سے بھرپور مذاق بنانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔جب ان کے حواریوں نے ہی ان پر لعن طعن شروع کی تو موصوف نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ تو جھوٹ بول رہے تھے یعنی انہوں نے یو ٹرن لے لیا!مدینے کی ریاست میں کوئی ان جیسادروغ گو،مکار اور بات کہہ کر پھرنے ولا ہر گز نہ تھا۔بلکہ ہر فرد بات کاپکا اور قول کا سچا تھا۔اپنے روئیہ سے نیازی صاحب کسی ملک کے وزیرِ اعظم تو لگتے ہی نہیں ہیں۔کسی بھی گئی گذری ریاست کا چھوٹے سے چھوٹاوزیربھی ان جیساجھوٹا اور مکارنہیں ہوتا ہے۔وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی کہی گئی بات جھوٹ ثابت نہ ہو۔اور پاکستان میں لگوایا گیا وزیرِ اعظم ساری دنیا کے سامنے اپنے جھوٹوں پر اتراتا پھر رہا ہے بقولِ غالب’’بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا ورنہ شہر میں غالب کی حقیقت کیا ہے‘‘نیازی صاحب ھکمرانی کے گُر سیکھ کر اتنا اتراتے تو ہر جانب سے واہ واہ ہوتی۔حکومتیں تعصبات پر نہیں چلا کرتیں ہیں۔موصوف کے پیچھے کھڑے پلر ڈھے جانے کی بعد موصوف چاروں شانے چت پڑے ہوں گے اور انہیں سہارا دینے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔

وزیر اعظم عمران احمد نیازی نے حال ہی میں ایک پروگرام میں غربت کے خاتمے کے جھوٹے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست عوام کو پانچ بنیادی چیزیں روٹی، کپڑا، مکان ،صحت اور تعلیم فراہم کرے گی؟ جی ہاں آپ کی پالیسیاں بھی اس جھوٹ کی غمازی کر رہی ہیں۔پہلی چیز روٹی عوام کے ہاتھوں سے چھیننے کی غرض سے ہر چیز پر ٹیکس لگا کر اور مہنگائی دس سے پندرہ فیصد تک بڑھا کر اپنے جعلی انتظامات کی تکمیل کا پروگرام شروع کیا ہوا ہے ۔نہ عوم کو روٹی ملے گی اور نہ ہی اس کو زندگی کا حق دیاجائے گا۔دوسری چیز،کپڑا موصوف عوام کو خود فراہم نہیں کریں گے کیونکہ وزیر مشیروں کی فوج کی عیاشیاں بند ہوجائیں گی۔ بلکہ کپڑے کی ضرورت بھوک سے مرنے والے کے لواحقین خود فراہم کرکے پوری کردیں گے۔ خواب میں بنائے گئے 50لاکھ گھروں کی بجائے مہنگائی سے مارے گئے لوگوں کوکچے مکان قبر کی صورت میں دینے کی منصوبہ بندی مکمل کرلی گئی ہے۔ایک جانب مہنگائی کا عفریت سر چڑھ کے بول رہاہے ۔تو دوسری جانب عمران نیازی کے کارندے لوگوں کے کاروبار چھننے پر ڈٹے ہوئے ہیں اور غریبوں کے چولہوں کے ساتھ گھربھی ڈھائے جا رہے ہیں۔ صحت کی سہولت فراہم کرنے کا جھوٹاوعدہ اس طرح پوراکیا جارہا ہے کہ ڈرگ مافیہ کے ذریعے بعض ادویات کی قیمتیں دوگنی سے زیا دہ کر دی گئی ہیں۔ادویا کی خرید غریب مریض کی پہنچ اور خرید سے اتنی دور کر دی گئی ہے ۔ کہ نہ ملے گی دوا اور نہ بچے کا غریب مریض۔سستی تعلیم کے نام پر جو ڈرامہ نیازی نے کے پی میں کھیلا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ غریب طلباء کے نام پر جاری کیا گیا تمام پیسہ عمرانی گدھے ہضم کر تے ر ہیں گے۔نہ جانے کس مٹی کا بنا یہ ڈھیٹ ٹولہ ہے۔

موصوف غربت کے خاتمے کو جہاد قرار دے کر غریب کے خاتمے کا یہودی جہاد شروع کر چکے ہیں۔موصوف ملک کو ترقی کی جانب لیجانے کے بجائے خواتین کو موبائل فونز فراہمی کے نام پر پی ٹی آئی کی تتلیوں کو اپنے پروپیگنڈے کے لئے بلا قیمت موبائل فونز فراہم کریں گے! اپنے چاہنے والوں کو معیشت کے نام پر بکریاں اور دیسی مرغیاں بھی فراہم کریں گے۔ موصوف غریبوں کے خاتمے کے لئے یہودیت کا جہاد پہلے ہی شروع کر چکے ہیں۔یہ لوگ عوام کو بنیادی سہولتوں کے نام اور غربت کے خاتمے کے نام پر عوام کی چیخیں نکلوا کر خود عیاشیوں میں سر سے پاؤں تک غرق ہیں۔حکمرا ن خود عیاشیاں کر رہے ہیں اور عوام کو احساسِ کفالت کا درس دے رہے ہیں اور دوسری جانب کوشش ان کی یہ بھی ہے کہ 18وین ترمیم کا خاتمہ کر کے ماضی کی ایم کیو ایم کی لوٹ مارکی طرح کراچی کی معیشت پر قبضہ کر کے پیپلز پارٹی کے بعد خود اس شہرکو کنگال کر دیں۔

یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ نیازی کی حکومت نے گذشتہ قریباََ آٹھ ماہ کے اندر ملک کی معیشت کا بیڑا ایسا غرق کیر چکی ہے۔ کہ اب نواز شریف حکومت بھی اگر آجائے تو اس کو سنبھال نہ پائے گی۔ان لوگوں نے آئی ایم ایف کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ملک پر ایسی بر بادی مسلط کر دی ہے جو اس ملک کو سالوں میں بھی اپنے پیروں پرکھڑا نہ کر سکے گی۔ڈالر جو نواز حکومت میں 100 روپے کا تھا اس کو ان نا اہلوں نے 144روپے پر پہنچاکر ملک کو مزید ٹریلینز ڈالر کے قرضوں کے بوجھ کے نیچے دفن کر دیا ہے۔ان کی بد فعلیوں کی وجہ سے عوام انتہائی غربت کی لکیر سے بھی بہت نیچے گرا دیئے گئے ہیں۔یہ جو کچھ بکواس کرتیرہے تھے اور کررہے ہیں ان بکواسوں سے مڑ جانے کے بعد بھی ملک کی معیشت میں کوئی بہتری کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے ہیں۔ہدایت کار ٹولے کا سربرہ ان کو ہر ہفتے نئے نئے گرُ بتانے چلا آتاہے۔مگر نااہلیت کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔

ان نا اہلوں نے ملک کو تباہی کی اتھا گہرائیوں پر پہنچا دیا ہے۔غریب کی قوتِ خرید جواب دے چکی ہے۔نیازی کا پھیلا ہوا بھیک کاہاتھ اور کشکول بھرنے میں ہی نہیں آرہا ہے۔ایک جانب ملک میں مہنگائی کا طوفان سب کو اپنے آسیب میں لے چکا ہے۔ نہ بیمار دوا خرید سکتا ہے اور نہ ہی غریب کا بچہ اسکول جانے کی سکت رکھتا ہے۔ہر چی مہنگی ترین ہوگئی ہے۔سبزیاں گوشت اور روز مرہ کی کھانے پینے اور استعمال کی اشیاء اچھے اچھوں کی قوتِ خرید سے باہر نکل چکی ہیں۔دوسری جانب گیس بجلی اور پیٹرول ،مٹی کے تیل اور ڈیزل کے بم عوام پر مختلف اوقات میں مختلف پاورزمیں بار بار گرائے جا رہے ہیں۔جسکی وجہ سے لوگ اپنے کے گھر کے اسباب بیچ کر بھی اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔چوریوں ڈکیتیوں سے عوام الگ پریشان ہیں ۔ملک کے ہر حصے میں پولس کچر اپبے عروج پر ہے۔دوسری جانب نیازی ٹولے کی بھڑکیں ہیں کہ خٹم ہی نہیں ہو رہی ہیں۔

نیازی صاحب ہر جگہ جا جا کر لوگوں کو بتولے دے رہے ہیں ۔مگر لوگوں کے مسائل جوں کے توں ہیں،نا اہلیت کے اس بازرا میں نیازی اکیلا ہی کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ان کی بیڈ گورنس کی بھی انتہا ہوچکی ہے۔موصوف جہاں جاکر لوگوں سے خطاب کرتے ہیں وہیں بڑی بڑی چھوڑ آتے ہیں اور پھر یو ٹرن لے لیتے ہیں کل ہی کراچی والوں کو 162 ارب کے 18 منصوبوں کے بتولے دے کر گئے ہیں مگر عوام بہت جلد اس بتولے پر بھی یو ٹرن کی خبر سن لیں گے۔کنٹینر سر کار غربت مٹاؤ کے بجائے غریب مٹاؤ پروگرام پر تیزی سے عمل جاری ہے۔

Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213061 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.