باتوں کے لیڈر

جس طرح پانی پہاڑوں کی بلندیوں سے ندی نالوں جھرنوں کی صورت میں بلندیوں سے نشیبی علاقوں کو سیراب کر تا ہے اِسی طرح اگر لیڈر حکمران یہ چاہتے ہیں کہ عوام میں سادگی کفائیت محنت ایمانداری خلوص نیت دیانت قناعت فرض شناسی کے احساسات عوام میں بھی پیدا ہو جائیں تو اس کی شروعات بھی حکمرانوں کو ہی کرنا ہو گی ‘ اصلاح و انقلاب کی مثبت تبدیلی اُسی صورت میں ممکن ہے جب حکمرانوں کے طرز عمل سے اِن خوبیوں کا احساس چھلکے یا ان کے طرز حکومت سے ان اقدار کا پتہ چلے ‘ جب مصر فتح ہوا تو مقامی کمانڈر نے حضرت فاروق اعظم ؓ کو بہت سارا مال غنیمت بھیجا ‘ مال غنیمت کے ساتھ ایک خط بھی امیر المومنین ؓ کے نام بھیجا جس کی عبارت یہ تھی یا امیر المومنین ؓ میرے سپاہیوں کی دیانت داری کا عالم یہ تھا کہ اگر کسی کو سونے کا ڈلا ملا یا معمولی سی سوئی تو اسے ایمانداری سے اپنے پاس رکھنے کی بجائے میرے پاس جمع کرائی ‘ تاریخ انسانی کے عادل ذہین ترین حکمران نے جب یہ الفاظ پڑھے تو آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ‘ آپ کے چھلکے آنسو دیکھ کر پاس بیٹھے حیدر کرار ؓ چونک پڑے اور بولے یاامیر المومنین ؓ محاذِ جنگ سے کوئی بری خبر آئی ہے تو حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا یہ آنسو تو خوشی کے ہیں پھر خط میں لکھی ساری بات پڑھ کر سنا دی ساری بات سننے کے بعد شہنشاہ علم و معرفت و ولایت حضرت علی ؓ نے کیا خوب تاریخی جملہ ارشاد فرمایا ‘یا امیر سپاہیوں کی دیانت کا مسئلہ نہیں آپ ؓ کی دیانت کا کرشمہ ہے ۔ اگر آپ امانت دار نہ ہو تے تو سپاہیوں میں یہ وصف کبھی پیدا نہ ہو تا ‘ آج وطن عزیز اخلاقی معاشی سیاسی طور پر بانجھ پن کا شکار ہے کرپشن کا ناسور ہر محکمے کی جڑوں تک پھیل چکا ہے ‘ مالی بحران نے تو ہر پاکستانی کے سر پر ناکر دہ جرم کے طور پر قرضے کا ہمالیہ چڑھا دیا ہے ۔ معاشی مسئلے نے ہماری بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے قرضوں کا عفریت ہمیں ہر گزرتے دن کے ساتھ نگل جا رہا ہے ہر آنے والی حکومت حکمران اُنہی آزمودہ طریقوں سے ملک کی ڈوبتی کشتی کو طو فان سے نکالنے کی کو شش بھی کر رہے ہیں ‘ انہی ماضی کے طریقوں کو رنگ بدل بدل کر استعمال کیا جارہا ہے کہیں تو ایف بی آر کی نا اہلی کا ڈھول پیٹا جارہا ہے کہیں پر نظام ٹیکس پر تنقید کے تازیانے بر سائے جا رہے ہیں ‘ ٹیکسوں جرمانوں وصولیوں پر زور دیا جا رہا ہے بلاشبہ یہ معاشی استحکام کے طریقے ہیں لیکن یہ معمول کے حالات میں کارگر ہیں لیکن جب حالات ایمرجنسی کے ہوں تو اقدامات بھی غیر معمولی کر نا پڑتے ہیں ‘ جنرل مشرف شوکت عزیز زرداری نواز شریف ہر حکمران کاغذی دعوؤں کا ہی ڈھنڈورا پیٹتا آیا ہے پھر آجکل مدینہ کی ریا ست کے دعوے دار عمران خان ‘اسد عمر اور ان کی ٹیم ان سب کی باتیں اعلانات صرف گا گی گے تک ہی رہے نتیجہ صفر ‘ یہ سارے لیڈر اِس اچھل کو د ڈرامہ بازی میں ایک بات بھول جاتے رہے ہیں کہ جب تک حکام لیڈر ان اہل حکومت خود اپنے اطوار نہیں بدلیں گے اپنی عیاشیوں پر نظر ثانی نہیں کریں گے اُس وقت تک مثبت نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے ‘ جب بھی حکمرانوں کو سادگی ایمانداری کا مشورہ دیا جاتا ہے تو اُسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے جب کہ تمام مسائل کی کلید اعظم یہی ہے ‘ کون بھول سکتا ہے حضرت عمر فاروق ؓ کے طرز عمل کو جب خطہ عرب کو قحط سالی نے جکڑ لیا اور جو اسلوب زیست پھر حضرت فاروق اعظم ؓ نے اپنایا کہ جب تک قحط سالی رہے گی میں گوشت اور گھی کا استعمال نہیں کروں گا ‘ خوراک کی کمی اور فاقوں سے آپ کی گوری رنگت سیاہی مائل ہو گئی پیٹ میں قراقر اٹھنے لگے تو خادمین نے عرض کی یاامیر المومنین ؓ آپ اپنی جان پر اتنا ظلم کیوں ڈھا رہے ہیں اِس طرح تو آپ حکومتی معا ملات کو بھی احسن طریقے سے نہیں چلاپائیں گے تو آپ ؓ نے فرمایا مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کس طرح ہو سکتا ہے جب تک مجھ پر بھی وہی کچھ نہ گزرے جو ان پر گزرتی ہے حکمران یہ ہو تے ہیں جو عوام کا درد محسوس کر نے کے لیے عوامی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں قحط سالی کے دوران کسی ایک دن حضرت عمر ؓ نے اپنے پو تے کو پھل کھاتے دیکھا تو غصے سے اُس پر جھپٹ پڑے پھل چھین لیا اور کہا محمد ؐ کی امت بھوکی مر رہی ہے اور عمر ؓ کا پوتا پھل کھا رہا ہے اور وہ پھل بھی کوئی انار انگور سیب انجیر نہیں تربوز تھا ہمارے ملک کے حکمرانوں اور وزرا کے انداز اور مہنگی گاڑیاں دیکھ کر کلیجہ پھٹتا ہے جو گاڑیاں ہمارے وزرا کے پاس ہیں کیا بھارت میں وزرا کے پاس ایسی گاڑیاں ہیں یا برطانیہ یور پ کے ملکوں میں وزرا کے ایسے ٹھاٹ ہیں پچھلے کئی عشروں سے جو لیڈر بھی آیا خود کو امیرالمومنین کہلاتا رہا جب کے اُس کا طرز زندگی شاہانہ رہا وہ خود کو دنیا کے عظیم ترین لیڈروں کے ہم پلہ سمجھتا رہا لیکن دنیا کے عظیم لیڈروں اور پاکستانی لیڈروں میں بہت فرق تھا۔ روسی لیڈر جب بر سرِ اقتدار آیا تو کتنا عرصہ رات کو بھی اپنی میز پر سوتا نظر آیا ‘ ماؤزے تنگ نے تیس برس تک کو ئی نیا لباس نہیں پہنا ‘ وزیر اعظم چواین لائی ہمیشہ سائیکل کی سواری کر تا نظر آیا جب تک چین نے ترقی نہیں کی اُس کے لیڈر بھی نیلے رنگ کی مزدوروں جیسی ڈھیلی وردی پہنتے رہے جب ملک معاشی ترقی کے گرد اب سے نکل آیا تو آج چین میں صوفے قالین فانوس گاڑیاں بھی آگئی ہیں ہمارے لیڈر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر سہولت کا ایک وقت ہو تا ہے یہ ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ قائداعظم اور لیاقت علی کے بعد پاکستان میں جو بھی اقتدار کے کوٹھے پر براجمان ہوا صرف باتیں ہی کر تا رہا پاکستانی بیچاری قوم مخلص لیڈر کی تلاش ہی کر تی رہی کبھی وہ اردگان کبھی مہاتیر محمد جیسے لیڈروں کو دیکھتی رہی ہے جولیڈر آیا اُس نے کئی دعوی کیے کہ وہ قائداعظم کا ثانی ہے ملک کی ڈوبتی کشتی کو منجدھار سے وہی نکالے گا ۔ زرداری نواز شریف شہباز شریف تو اپنی کرتو توں کی وجہ سے آج کل مقدموں اور سلاخوں کے پیچھے ہیں اگر انہوں نے ملک کو لوٹا ہے تو انہیں سزا بھی ملنی چاہیے لیکن حیرت ہوتی ہے جب میراثی وزیر عمران خان صاحب کو مسلم امہ کا لیڈر قرار دیتے ہیں اﷲ کرے ہمارے بھاگ جاگ جائیں اور قدرت عمران خان صاحب سے کوئی بڑا کام بھی لے لے لیکن جب خان صاحب کے کسی غلط فیصلے پر تنقید کریں تو فرقہ عمرانیت کے لوگ طوفان بد تمیزی بر پا کر دیتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ تنقید تعمیری ہو تی ہے جس میں عوامی اصلاح کا درد ہو تا ہے آجکل سانحہ نیوزی لینڈ میں پچاس مسلمانوں کی شہادت کے بعد جس طرح وزیر اعظم نیوزی لینڈ جسینڈا آرڈرن نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے پارلیمنٹ میں تلاوت قرآن پاک اور گفتگو کا آغاز حدیث مبارکہ سے کیا پھر لواحقین کے پاس جاکر کالے کپڑے پہن کر انہیں گلے سے لگایا ان کا درد بانٹا ‘ صرف پچاس شہادتوں پر ملک بھر میں خود کار خطرناک اسلحہ بین کر دیا ہے اب کو ئی شہری خود کار اسلحہ لے کر نہتے شہریوں کو شہید نہیں کرسکے گا آج کر ہ ارض کے چپے چپے پر اپنے حسن سلوک سے وزیر اعظم نیوزی لینڈ لیڈر آف ھارٹ بن چکی ہے دنیا بھر میں اُس کے مداحوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے ستر ہزار پاکستا نی مارے جا چکے ہیں جناب عمران خان صاحب کی کابینہ نے خود کا ر اسلحے سے پابندی اٹھالی بلکہ کینسل لائسنس پھر جاری کر دئیے ہیں اب پاکستان کے طاقت وروزرا لوگ خطرناک اسلحے کے ساتھ گھو متے نظر آئیں گے پھر یہ فرق اچھے لیڈر اور عام لیڈر میں ہوتا ہے ‘ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شریف فیملی نے اور سانحہ ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا گیا نہ شریف فیملی اور نہ ہی عمران خان صاحب متاثرین کے پاس گئے اور نہ ہی معافی مانگی تاریخ میں جیسنڈا جیسے لیڈر ہیرو ہونگے اور ہمارے لیڈر گمنامی کی چادر میں غرق ‘ جیسنڈا عملی لیڈر ہے اور ہمارے لیڈر صرف باتوں کے لیڈر۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 643866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.