پاکستان میں تسلسل سے ایک فلم دکھائی جا رہی ہے ۔ ایک
ایکشن سین سامنے آتا ہے ،اسے شور غل کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے ،سمجھا یہ جاتا
ہے کہ یہی ملک کا سب سے بڑے مسئلے کا سین ہے ،پھر اچانک یہ سین منظر سے ہی
غائب کر دیا جاتا ہے۔اس فلم کو میڈیا کے ذریعے دکھاکر عوام کو بیوقوف
بنایاجاتا ہے ۔
عدلیہ کی آزادی کی جنگ ہو یا پانامہ لیکس کا ڈرامہ،نیشنل ایکشن پلان ہو یا
کالعدم تنظیموں کے قائدین کی گرفتاریاں ،نیب کے مسلسل شوشے ہوں یا وفاقی
کیبنٹ کے جعلی کارنامے ،خارجہ پالیسی کے دعوے ہوں یا امریکی تعلقات کا اعلیٰ
معیار،کرپشن مکاؤ کے نعرے ہوں یا ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ،روپے کی قیمت مسلسل
کم ہونا ہو یا معاشی ترقی کے دعوے،پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں ہوں
یا پیٹرول اوربلڈنگ مٹیریل کی قیتوں میں اضافہ،پہلے کسی سے این ار او نہ
کرنے کے دعوے اور پھر میاں نواز شریف کی آزادی وغیرہ ہر سین سامنے آتا ہے ،پھر
کچھ ہی دیر کے بعد وہ سین بالکل منظر سے غائب کر دیا جاتا ہے ،جیسے کوئی
مسئلہ ہی نہیں تھا۔یہ مسائل سے چشم پوشی کی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں
ہوتا۔عوام کے مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں ،جہاں ناامیدی کا گناہ ہونے کو ہے ،مگر
ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے،مین سٹریم میڈیا کو کنٹرول کر لیا گیا
ہے ،ایسا میڈیا کے معاشی قتل یاکسی کے ڈر کی وجہ سے ہوا ہے ۔
پاکستان میں کوئی بھی قیادت سامنے آئی،عوام نے اسے اپنا مسیحا سمجھ لیا،ہر
ابھرتی ہوئی قیادت نے غریب کے ساتھ گہرا تعلق کا اظہار کیا،مگر جیسے ہی
قیادت حکمرانی کے سین میں آئے،وہاں ان میں عوام کا دکھ ،درد اور احساس دور
تک نظر نہیں آتا،بالکل ختم ہو کر رہ جاتا ہے،بلکہ بے حسی ،لالچ ،مفاد پرستی
اور منافقت والا اصل چہرہ سامنے آ جاتا ہے ۔اپنے ملک میں ماضی یا حال میں
حکمرانوں کے رویوں کا جائزہ لے لیں ․․․ ملکی اور عوامی مفاد سے زیادہ اپنے
مفادات عزیز رہے ہیں ۔ اس کے نتائج کیا نکلے ہیں ، ایک مخصوص طبقہ امیر سے
امیر تر ہو چکا ہے ۔جن کے پاس سائیکل تک نہیں تھی ،چند برسوں میں اقتدار
میں آتے ہی ارب پتی بن گئے ۔جس عوام کی فلاح و بہبود کے لئے امین بن کر اس
ملک کے خزانے کی کنجی سمنبھالتے ہیں،اسے بے دریگی سے لوٹ لیتے ہیں ۔اسی لئے
عوام کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔وہ ممالک جن
کو ہم ترقیاتی پالیسیاں سکھاتے رہے ہیں ،ان سے ہمیں سیکھنا پڑ رہا ہے،ان
حکمرانوں کی نا اہلیوں اورغلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک اس نہج پر پہنچ چکا
ہے ،مگر قوموں پر ایسا وقت آ جاتا ہے اور وہ کسی وقت بھی درست سمت کا تعین
کر کے اپنا قبلہ درست کر سکتی ہیں ، ملائشیا،ساؤتھ کوریا ،چین وغیرہ ایشین
ممالک ہیں،انہوں نے صرف اپنی پالیسیوں کو درست کیا ،عوام نے محنت کی اور آج
وہ ترقی کی درجہ با درجہ بلندی پر پہنچ رہے ہیں۔
پاکستان کو غریب ملک کہا جاتا ہے ،مگر اس کی دس فیصد اشرافیہ کے 98ارب ڈالر
سوئس بنکوں میں پڑے ہیں ،جس پیسے کی پوری دنیا کو معلومات بھی حاصل ہیں
،یہاں کی اشرافیہ کے تمام کاروبار دوسرے ممالک میں ہیں ۔اس کی صاف وجہ یہ
ہے کہ انہیں اپنے ملک میں سرمایہ کاری محفوظ نظر نہیں آتی۔ہمارے کسی بھی
حکمران کا طرز زندگی عوام جیسا نہیں ہے ۔ان کا رہنا سہنا شاہانہ ہے،مگر
عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہے ، انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں
،بنیادی سہولیا ت کے لئے عام آدمی پریشان ہے ۔مہنگائی ،بے روزگاری،لوڈ
شیڈنگ ،بیماری اور غربت نے عوام کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کر دیا ہے،لیکن
ایک عام ایم پی اے کے وسائل اتنے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ،وزیر تو کسی
طور ہاتھ میں آتے ہی نہیں ہیں۔
یہ تمام لوگ جو جمہوریت کے خیر خواہ اور غربت کے خلاف جدوجہد کے داعی
ہیں،سب ایک ہی حمام میں نہائے ہوئے ہیں۔ماضی سے شروع ہوں اور عمران خان تک
آ جائیں،سب ایک ’’سیاسی فلم‘‘کے اداکار ہیں ،جس کا سکرپٹ کہیں اور لکھا
جاتا ہے ،سکرپٹ میں اکثر تبدیلی آتی رہتی ہے ، فلم کی کاسٹنگ میں اداکار
اپنی خدمات دینے کے لئے حاضر ہوتے ہیں ،مختلف سپانسرز فنڈنگ کرتے ہیں ، ان
سیاسی اداکاروں کو اس نوکری سے معاوضہ اتنا زیادہ ملتا ہے، جو کسی دوسرے
کاروبار سے نہیں مل سکتا ۔شہرت اور دھن دونوں چیزیں مل جاتیں ہیں،اس
اداکاری کو سیکھنے کے لئے کوئی 22برس لگاتا ہے اور کوئی کم عرصے میں ہی
اداکاری کے ایسے جوہر دکھاتے ہیں کہ عوام دنگ رہ جاتے ہے۔
اب عمران خان سیاسی فلم کی سین میں ہیں ،جو غریب کے خیر خواہ دکھائے جا رہے
ہیں ، جن کا لاہورکے ساتھ بنی گالہ میں تین سو ایکٹر پر مشتمل محل نما گھر
ہے جہاں وہ رہائش پزیر ہیں اوراسی ملک میں غریب کو کرائے کا مکان بھی نہیں
ملتا۔فلم میں جنہیں ولن بنا کر پیش کیا جاتا ہے ،ان میں اورموجودہ ہیرو
عمران خان کے رہن سہن اور طریقہ کار میل کھاتے ہیں ، وہ بھی عوام کی خدمت
کا دعویٰ کرتے تھے یہ بھی غریب کی فلاح و بہبود کرنے کے سب سے بڑے دعویدار
ہیں۔ان میں کیا فرق ہے ؟ایک جیسے وعدے،ایک جیسے دعوے اور جیسی انداز
حکمرانی ہے ۔
عوام کو اپنے حکمرانوں یا سیاسی فلم کے پروڈیوسرز کا پتہ چلا ہے یا
نہیں،لیکن دنیا ان کا اصل چہرہ پہچان چکی ہے ،یہ ایٹم بم کو کشکول میں رکھ
کر دنیا سے مدد ،قرضے یا بھیک مانگتے رہیں ،ان کی یہ سیاسی فلم عوام میں چل
جاتی ہے ،لیکن دوسرے ممالک میں فلاپ ہے ، اس لئے کوئی ملک پاکستان میں
سرمایہ کاری دور کی بات درست انداز میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔
اس تقریباً 50سالہ طویل سیاسی فلم میں درجہ بہ درجہ جن لوگوں نے کام کیا ہے
،انہوں نے پاکستان کی بدولت اربوں کھربوں کمائے یا لوٹے،اس ملک نے انہیں
نام دیا،عزت دی ،لیکن انہوں نے پاکستان کو کچھ نہیں دیا۔پاکستان دنیا کی
ساتویں بڑی ایٹمی قوت ہونے کے باوجود بھیک مانگ رہی ہے ،قدرتی وسائل سے
مالامال ہونے کے باوجود 60 فیصد عوام بے روزگاری ہے ،بہترین زرعی زمین ہونے
کے باوجود بھوک اور افلاس کے ہاتھوں عوام مر رہے ہیں ۔یہ سیاسی فلم ہے کہ
ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔لیکن اب غریبوں کے حقوق کی صدا بلند
کرنا،غربت مٹانے کے جھوٹے وعدے،لمبی چوڑی باتیں اور شیخ چلی والے خیالی
پلاؤ بس کر دیں ۔سیاسی فلم کو ختم کر کے حقیقت کی جانب لوٹنا ہو گا۔عوام کی
صحیحی نمائندگی کا حق ادا کرنا ہوگا۔عوام کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے ۔عوام
اب طویل سیاسی فلم سے اکتا چکی ہے ۔عوام کے مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ اسے
اپنی طاقت کا اصل کرشمہ دکھانا ہو گا۔اسے کسی کو رعائت نہیں دینی، جو سکرپٹ
پر غیر ممالک سے لا کر حکومتی ٹیم میں شامل لوگ ہیں ،ان کا حساب کیا جائے
۔اس کے علاوہ ایک بھی وعدہ خلافی پر کسی صورت معاف نہیں کیا جائے ،یو ٹرن
یعنی فریب اور منافقت کو زمین دوز کر دیا جائے اور اس سیاسی فلم کا اب
اختتام کرنا ضروری ہے ،اسی میں ہماری اور آنے والی نسلوں کی بقا پوشیدہ ہے
۔
|