گئو کشی کے معاملے میں ہندوستان جغرافیائی اعتبار
سے منقسم ہے اور’ ایک راشٹر میں ایک ودھان‘ کا نعرہ لگانے والا سنگھ پریوار
بھی گائے کے معاملے میں یکساں سول کوڈ نافذ نہیں کرسکتا ۔ جنوبی ہند کے
اندر گئوکشی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں
ہے۔ تمل ناڈو اور آندھرا پردیش میں بی جے پی کی حلیف جماعتوں نے بھی اس
جانب توجہ نہیں دی۔ کرناٹک میں بی جے پی کی اپنی ریاستی سرکار تھی لیکن اس
نے کوئی قانون سازی نہیں کی گوا میں اب بھی ایسا ہے لیکن بیف کھانے کی کھلی
چھوٹ ہے بلکہ پڑوسی صوبوں سے درآمد کرکے اپنے رائے دہندگان کی خوشنودی کے
لیے اسے حکومت کی نگرانی پروسا جاتا ہے۔
مشرقی ہند کے زیادہ تر صوبوں میں فی الحال بی جے پی کی اپنی حکومت ہے یا وہ
وہاں سرکار میں شامل ہے اس کے باوجود کسی کو گائے پر رحم نہیں آتا۔ مغربی
بنگال سے بنگلادیشیوں کو نکالنے کی بات تو بی جے پی والے کرتے ہیں لیکن
بھول کر بھی گئو کشی پر پابندی لگانے کا دعویٰ نہیں کرتے کیونکہ انہیں پتہ
ہے ایسا کرنے سے ہندوتوا کی رہی سہی ہوا بھی اکھڑ جائے گی ۔ شمالی اور
مغربی ہند میں سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے گائے سے ہمدردی جتائی جاتی ہے
لیکن یہ لوگ اس کے منفی اثرات سے آنکھیں موند لیتے ہیں ۔
معروف صحافی اور ماہرِ معاشیات پی سائی ناتھ نے تفصیل کے ساتھ وی ہنمنت راؤ
یادگار لکچر میں اس مسئلہ پر بحث کرکے ثابت کیا تھا کہ گئوکشی پر عائد کردہ
امتناع دراصل مخالف گائے فیصلہ ہے۔یہ نہ صرف مسلم‘ دلت یا آدی واسی بلکہ
ملک میں موجود مویشیوں بالخصوص گائے کے خلاف ہےکیونکہ کوئی گائے کی پرورش
کیلئے تیار نہیں ہے ۔ گائے کی پرورش اس کی دودھ کے حودل کی حد تک کی جاتی
ہے پھر اس گئو سیوا سے ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے۔ پہلے جب گائے دودھ دینا بند
کردیتی تھی تو وہ اسے فروخت کردیا جاتا تھا اب چونکہ گائے کو فروخت کرنے کی
اجازت نہیں ہے اور نہ ہی وہ خود اسے ذبح کر سکتے ہیں اس گائے کی پرورش کا
رحجان کم ہورہا ہے۔ کسان اپنے مویشیوں کو جنگلات میں چھوڑنے لگے ہیں کیونکہ
ایسا کرنے سےوہ اپنے مویشی کی پرورش سے سبکدوش ہوجاتےہیں نیز وہ خود کسی
بڑے جانور کی غذا بن جاتی ہے۔
اس طرح کسانوں کو مویشی خاص طور گائے پالنے سے بلا واسطہ روکا جارہا ہے۔
گایوں کے فروخت سے جو آمدنی ہوجایا کرتی تھی اس سے محروم کردیاگیا ہے۔ اب
اس کاروبار میں گئورکشک کے نام ایسے دلال معاشرے پرمسلط ہوگئے ہیں جودن میں
گائے بھکتی ڈھونگ رچا تے ہیں اور رات میں ٹرانسپورٹ کی اجازت دے کر ہفتہ
وصولتے ہیں۔ گائے کے چمڑے سے پھلنے والی صنعت کی تباہی سے بیروزگاری پھیل
رہی ہے۔ اس سے نہ صرف اس میں کام کرنے والے مزدور بلکہ مصنوعات کو بیچنے
والا تاجر طبقہ بھی شامل ہے۔ بے سہارا و آوارہ گائے شہروں میں ٹرافک جام
کرتی ہے یا کسانوں کی فصل تباہ کرتی ہے ۔ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں
کسانوں کو گائے کی تباہی سے اپنی فصل بچانے کی خاطر چوکیداری کرنی پڑتی ہے
۔ انہیں پکڑ کر اسکول یا اسپتال میں بند کیاجاتا ہے جس سے عوامی خدمات
متاثر ہوتی ہیں لیکن فی الحال عوام کی فلاح وبہبود پر سیاسی فائدے کو فوقیت
حاصل ہے اس لیے اس سنگین مسئلہ پر کوئی لب کشائی کی جرأت نہیں کرتا ۔
گجرات کو چونکہ آدرش یعنی نمونے کا صوبہ سمجھا جاتا ہے اس لیے گائے ذبیحہ
کو لے کر یہاں قانون میں ترمیم کرکے عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ اس
قانون کا نفاذ کس طرح ہوتا ہے اس کی ایک مثال دیکھیں ۔ احمدآباد کا رہائشی
۲۸ سالہ سنجے پٹیل پچھلے سال اپنی موٹر سائیکل سے جارہا تھا کہ اچانک دو
لاوارث گائیں اس کے راستے میں آکر موٹر سائیکل سے ٹکرا گئیں ۔ اس جان
لیواحادثے میں سنجے ہلاک ہوگیا ۔ قانون کے لحاظ سے اس جرم کی سزا گائے کے
مالک کو ہونی چاہیےتھی۔ پولس کے لیے گائے کے مالک کا پتہ لگانا مشکل تھا اس
لیے کہ لاکھ پوچھ تاچھ کے باوجودگائے کے لیے اپنے مالک کی معلومات فراہم
کرنا ممکن نہیں تھا ۔
اس کیس کو بند کرنا بھی ضروری تھا اس لیے گائے کے مالک کو تلاش کیے بغیر
اسے سلجھانے کے لیے گجرات پولس نے ایک انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا ۔ اگر کوئی
یہ سوچتا ہے ونجارہ یا امین جیسے کسی افسر کی خدمات حاصل کرکے انکاونٹر
کردیا تو وہ غلط ہے ۔ یہ معاملہ تو سہراب الدین یا عشرت جہاں جیسے لوگوں کے
لیے مختص ہے کیونکہ ان کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان
پر کسی طاقتور سیاستداں کو قتل کرنے کی سازش کا الزام رکھا جاسکتا ہے لیکن
بے ضرر گائے کے ساتھ یہ سب ممکن نہیں کیا ہے۔ اس لیے پولس نے مہلوک کے
والدمہیش پٹیل سے اپنے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی کہ اس کا لڑکا
سنجے لاپرواہی سے گاڑی چلاتا ہے ۔ وہ اپنی موت کے لیے خود ذمہ دار ہے۔ اس
میں گائے یا اس کے مالک کا کوئی قصور نہیں۔ اس طرح پولس کا مسئلہ تو حل
ہوگیا لیکن اس باپ پر کیا گذری ہوگی جسےاپنے بےقصور جوان بیٹے کے خلاف موت
کے بعد یہ شکایت درج کرانے پر مجبور کیا گیا۔ سنجے کی بیوی بچوں نے کیا
سوچا ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔
گجرات کے علاوہ ہریانہ وہ ریاست ہے جہاں سے گائے کو قومی جانور بنانے کا
مطالبہ سامنے آچکا ہے۔ اس صوبے کے اندر گئوکشی کرنےوالے کے لیے ۳ سے ۱۰
سال کی سزا اور ۳۰ ہزار سے ایک لاکھ تک کا جرمانہ ہے۔اسی کے ساتھ ہریانہ کی
گئو بھکت حکومت نے اپنے صوبے کو دودھ کی پیداوار میں ’نمبر ون‘ ریاست بنانے
کے لئے برازیل سے سانڈوں کودرآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔کیا گائے کی نسل میں
بہتری کرنے کے لیے ہریانہ سرکار کا یہ فیصلہ دیسی سانڈ کی توہین نہیں ہے؟
اس کے علاوہ حکومت نے غیر پیداواری جانوروں کو مرحلہ وار طریقے سے الگ تھلگ
کرنے کا کام شروع کر دیا ہے یعنی جو گائے دودھ کم دیتی اس کو گئو شالا میں
بھیجنے فیصلہ کیا گیا ہے۔ اپنے مویشیوں کے ساتھ اگر یہی ظالمانہ سلوک کرنا
ہو تو کم ازکم اس کو گئوماتا کے نام سے نہیں پکارنا چاہیے۔
ہریانہ کے وزیر زراعت اوم پرکاش دھنكڑ نے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے
لئے یہ اقدام کیا ہے۔دھنكڑ کے مطابق برازیل مویشی پروری اور دودھ کی
پیداوار کی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دنیا میں پہلے مقام پر ہے حالانکہ وہاں
گائے کو نہ تو ماں کے لقب سے پکارا جاتا ہے اور نہ گئوکشی پر پابندی ہے۔
ہریانہ والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ گجرات میں دودھ کی صنعت (امول ڈیری)
کے ذریعہ سفید انقلاب لانے والے پی جی کورین کا تعلق کیرالہ سے تھا جہاں
گئوکشی کی کھلی چھوٹ ہے۔ کورین نے بغیر کسی غیر ملکی تعاون کے جو کارنامہ
انجام دے دیا ہریانوی وزیر برازیل کی مدد سے بھی وہ کام نہیں کرسکتے۔ مسئلہ
دراصل یہ ہے کہ ہندوستان کے کچھ صوبوں میں گائے ایک سیاسی جانور ہے۔اس کا
تعلق دودھ سے کم اور ووٹ سے زیادہ ہے۔ گائے کے نام پر جب تک یہ سیاسی
استحصال بند نہیں ہوگا اس وقت تک کسان اور گائے دونوں بدحال رہیں گے نیز
گئورکشک اور سیاستداں مالا مال ہوتے رہیں گے۔
|