2018ء الیکشن میں عوام کو الّو بنا کر برساتی مینڈھکوں کی
ٹیم مسلط کر دی گئی ۔یہ عوام کو بیوقوف بنا کر حکمران تو بن گئے ،مگر انہیں
عوام سے کچھ سروکار نہیں ہے ،ان کی نظر صرف اپنے مفادات کے حصول کی جانب
رہتی ہے ۔انسان کے پاس زبان ہی وہ آلہ ہے ،جس کی مدد سے وہ اپنے افکار
،تربیت اور تہذیب دوسروں تک پہنچاتا ہے ۔اپنے اقوال کی طاقت سے سب سے پہلے
ہم خود مستفیض ہوتے ہیں ۔قدرت کا نظام ہے کہ ہماری کہی ہوئی بات کا براہِ
راست اثر پہلے ہمارے ہی ذہن پر پڑتا ہے ۔اس حکمران ٹیم کے پاس جھوٹ،الزام
تراشی ،فریب کاری،دھوکہ (یوٹرن)،نفرت انگیزی اور چغل خوری جیسے قبیح و شنیع
اوصاف کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔اگر حکمرانوں کی طبیعت اور خانہ دل میں ہم
آہنگی ، آپسی روابط،صدق وامان ،عہدو پیماں اور اپنوں و غیروں تئیں سماجی
اور معاشرے میں زندگی گزارتے افراد سے اخوت و بھائی چارگی ،عزت و تکریم کا
حسنِ جذبہ ہوتا تو پاکستان کے حالت اس نہج پر نہ ہوتے ۔
بلا شبہ یہ پاکستانی عوام کی بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ بہت ہی مخلص ہوتے ہیں ،
ہمہ وقت حب الوطنی کے جذبے سے سرشار بھی رہتے ہیں ، ان کے اندر حق گوئی اور
بے باکی کا بے مثال جوہر پوشیدہ ہے ۔ ظلم کے خلاف متحد ہو کر اپنی احتجاج
کی صدا بلند کرنا بھی با خوبی جانتے ہیں ،مگر انہیں حکمرانوں نے دو وقت کی
روٹی کے چکر میں ایسا الجھا دیا ہے کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحت کمزور
کر دی گئی ہے ۔آج عوام ظلم و زیادتی کے شکارہوئے ،آسمان چھوتی مہنگائی،بے
روزگاری اور غربت جیسی سماجی برائیوں اور مہلک قسم کی معاشرتی بیمایوں کی
روک تھام کے لئے کوئی مناسب قدم نہیں اٹھایا جاتا ہے ،یہاں تک کہ اسے
سنجیدگی سے بھی نہیں لیا جاتا ہے ،مگر ماضی کی حکومتوں کے پروگراموں کے نام
تبدیل کرنے یا 18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی خواہش پر کام کرنا شروع کر دیا
جاتا ہے ۔ملک کی یوتھ نے عمران خان کو اقتدار کے حصول میں کلیدی کردار ادا
کیا۔عمران خان کو دھرنوں ،جلسے اور جلوسوں میں زیادہ سے زیادہ لوگ دکھانے
تھے ،باقی تو الیکشن میں کامیابی کیسے ہوتی ہے،سب جان چکے ہیں ۔عمران خان
کے ساتھ نوجوانوں کا تعاون شامل حال رہا ہے ، میوزک،ڈانس ،جوشیلے نعروں کو
منظّم ڈھنگاور باقاعدہ پروپیگنڈے سے اپنی سازش کا حصہ بنایا ، ان کے
بلندیوں کو چھولینے اور کسی بھی طوفان سے ٹکرا کر اس کے پرخچے اڑا دینے
والی قوت اور جوش کو جگا کر اس کے رخ کو محض ذاتی ، غیر آئینی اور غیر
اصولی مفاد میں استعمال کیا گیا ہے ۔یہ نوجوان ملک کی آس اور امید ہوتے ہیں
،اگر انہیں سازشوں کی نظر کیا جائے تو ملک کے حالات بگڑنے میں بھی ان کا
بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔
اب عوام نے اور کہاں تک دیکھنا ہے ،کیا ابھی تک حکمرانوں کے مقاصد سمجھ
نہیں آ رہے ۔کون ہیں جو اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، سنجیدہ
افراد کو اس بات کا اندازہ پہلے دن سے تھا،جس کا ذکر بھی کیا جاتا رہا ہے ،
مگر حکمرانوں نے جھوٹ اور مکاری سے یہ مؤقف اپنائے رکھا کہ ہم ایسی سوچ
نہیں رکھتے ۔آج یہ سوچ کھل کر سامنے آ چکی ہے ۔حکومت بینظیر انکم سپورٹ
اسکیم کا نام بدلنا چاہتے ہیں۔غربت انسانیت کی تضحیک ہے ،قوم پر پہلا حق
بھی انہی کمزورافراد کا ہوتا ہے ،مگر کیا غریبوں کی فلاح کے لئے کسی منصوبے
کی کامیابی کا انحصار اس کے نام سے ہوتا ہے ․․․نہیں ․․․منصوبے کی کامیابی
کا دارومدار عملی کام سے ہوتا ہے ۔غریب کی غربت دور کرنے کے لئے اس کی مدد
بینظیر انکم سپورٹس کہہ کر لیں یا کچھ اور ،کوئی فرق نہیں پڑتا ۔لیکن جب
نیت سازش کی ہو ،تو فرق ضرور پڑتا ہے ۔یہ بدبو دار ذہن کی سازش ہے ،جو
انتشار کے ماحول کو ملک سے دور نہیں ہونے دینا چاہتے ۔تاکہ اپنے مفادات کی
تکمیل کر سکیں ۔
حکومت نے ملکی سیاست میں ہلچل کا ماحول بنائے رکھنے کے لئے اٹھارہویں آئینی
ترمیم کو چھیڑنے کی بات کی ہے ، حالانکہ اٹھارہویں ترمیم کو تبدیل نہیں کیا
جا سکتا ،کیونکہ موجودہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت موجود نہیں ،جس سے اس
آئینی ترمیم کو تبدیل کر کے وفاق کے پاس سب اختیارات لائے جا سکیں ۔
اٹھارہویں ترمیم سے صوبوں کو انہیں کے اپنے مالی وسائل دیئے گئے ہیں ،جو کہ
ان کا حق تھا ،مگر یہ کیوں ناپسند کیا جا رہا ہے ․․․؟اس سے وفاق کمزور ہونے
کا کیوں کہا جا رہا ہے۔یہ عوام کے سمجھنے کی بات ہے ۔
وفاق کے پاس مسلح افواج ،پی آئی اے ، سٹیل ملز ،پیرا ملڑی فورسز سمیت بہت
سے محکمے ہیں ۔انہیں مرضی کے مطابق خطیر فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے ،ان کا پیٹ
بھرنے کے لئے صوبوں کا حق مارنا ضروری ہے ۔وفاق کو 700ارب روپے کے خسارے
میں بتایا جاتا ہے ، لیکن وفاق نے یہ تمام پیسے کسے دیئے ہیں کیوں نہیں
بتایا جاتا ۔کیونکہ عکسری قیادت 18ویں ترمیم کی مخالفت کر رہی ہے ، اسی لئے
عمران خان کی زبان آئینی ترمیم کے خلاف بولنے لگی ہے ۔اٹھارہویں آئینی
ترمیم پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں اتفاق رائے سے منظور ہوئی
تھی،آئینی ترمیم تیار کرنے اور منظور کرانے کے لئے بڑی تگ ودو ہوئی ،مسلم
لیگ (ن)پیپلز پارٹی اور دیگر تمام جماعتیں متحد ہو ئی تھیں ،اس کا مقصد
صوبوں کے وسائل میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں خود مختار بنانا تھا ۔
پیپلز پارٹی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنے کا مقصد کچھ اور نہیں بلکہ
اٹھارہویں ترمیم کو ختم کروانے کے لئے مدد مانگنا ہے ، جو پیپلز پارٹی نہیں
دے سکتی ۔مسلم لیگ (ن) کی خاموشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھ رہی ہے کہ
اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت کو نیب کے
ذریعے پوری طرح دبا دیا گیا ہے ، اس لئے شاید کچھ بھی مان سکتے ہیں ، مگر
پیپلز پارٹی زرا مختلف ہے ، یہاں قیادت کا فقدان نہیں ہے ،اس پارٹی میں
ایسے مستقل مزاج سیاستدان ہیں جو بھٹو کے نام سے کوئی بھی قیادت سامنے لانے
کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں ۔پی پی اس آئینی ترمیم پر ڈاکہ زنی برداشت نہیں
کر سکتے۔عمران خان حکم کے غلام ہیں ،حکم ملنے کے بعد آپے سے باہر ہونا بھی
ان کی مجبوری ہے ،گھوٹلی میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران عمران خان کی جانب
سے اپنائے گئے مؤقف پر خوب تنقید ہو رہی ہے ۔عمران خان نے میاں محمد نواز
شریف ،میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو للکار کر کہہ تو دیا ہے کہ
میں تم لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا۔لیکن انہیں اپنی ہی تقریر دیکھ کر سوچنا
چاہیے کہ وہ کسی کو پکڑنے یا چھوڑنے کا کون سا اختیار رکھتے ہیں․․!!
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کسی وقت بھی تحریک انصاف کی حکومت
کا بسترگول کر دیتی ،مگر مسلم لیگ (ن) اپنی کمزور اور مصلحتوں کہ تحت پیپلز
پارٹی کا پوری طرح ساتھ نہیں دے پا رہی ۔عمران خان نے دورہ سندھ کے موقع پر
کراچی کے لئے 162ارب روپے پیکیج کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی
حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا،ماضی کے دشمن اور آج کے دوست ایم کیو
ایم کے میئر کی تعریفیں کیں ۔صوبائی حکومت کو علیحدہ کر کے پیکیج کا اعلان
کرنا پیپلز پارٹی کی حکومت کی جڑیں کمزور کرنے اور آئیندہ تحریک انصاف کی
کراچی میں بنیاد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔عمران خان کے دورہ سندھ کے
موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ان کا استقبال نہیں کیا ۔ایسی
صورتحال اس لئے پیدا ہوئی کہ عمران خان کے دورے کے دوران وزیر اعلیٰ کو الگ
تلگ رکھا گیا۔وفاق اور صوبے کے درمیان تناؤ کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں
۔ضرورت اس امر کی کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی ہو ، سیاسی
اختلافات اپنی جگہ تاہم ملکی مفادات کی خاطر سب کو ایک صفحہ پر ہونے کی اشد
ضرورت ہے ۔اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوششوں میں ملک کو شدید نقصان
پہنچے گا ،حکمرانوں کو اپنے کردار اور کارکردگی پر غور کرنا چاہیے۔انہیں
عوام کی وہ حمایت حاصل نہیں رہی جو انتخابات سے پہلے تھی ۔صرف اپنے آقاؤں
کو خوش کرنے کے لئے ملک کو نقصان نہ دیا جائے،ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا
رہا ہے ۔وہی مشیران تحریک انصاف کے ہیں ،جو مشرف ،پی پی پی اور مسلم لیگ(ن)
سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی غرض صرف اپنی وزارتیں بچانا ہے ۔عمران خان آج
بھی نہ سمجھیں تو مٹ جائیں گے ۔ |