تقریبا ً ایک ماہ کے سکوت کے بعد
ایک بار پھر ڈرونز طیاروں نے درندگی کا مظاہرہ کر تے ہوئے پاکستانی شہریوں
کے خون سے ہولی کھیلی ہے اور قبائلی علاقوں پر پھر ڈرونز حملے شروع کر دیے
ہیں، اتوار اور پیر کے روز جنوبی وزیرستان کے علاقہ اعظم ورسک میں ڈرون
حملے میں چھ افراد جب کہ شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں تقریباً
آٹھ افراد کو شہید اور متعدد کو زخمی کر دیا گیا ہے اور یوں اہالیان وطن کے
ذہنوں میں اٹھنے والے ان سوالات نے آخرکار دم توڑ دیا کہ ”جب سے ریمنڈ ڈیوس
گرفتار ہوا اس وقت سے لے کر آج تک کوئی ڈرون حملہ کیوں نہیں ہوا؟“ ۔شاید اس
وطن کے سادہ لوح عوام یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتار ی کے پیش
نظر امریکہ نے ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کر دیا ہے ، ان سوالات نے جیسے ہی
سر اٹھایا امریکی جاسوس طیاروں نے اگلے ہی چند روز بعد اعظم ورسک اور میران
شاہ پر حملے کر کے ہماری اس خوش فہمی کو بھی دور کر دیا ہے ۔ مملکت خداداد
کے بے حمیت اور بزدل حکمرانوں نے اس دھرتی کو پوری دنیا میں ایک تماشہ سا
بنا دیا ہے ، ہماری اس بزدلی اور بے حمیتی کی داستان ویسے تو بہت پرانی ہے
تاہم نائن الیون کے بعد پاکستان کے ٹڈی دل اور بزدل فوجی آمر مشرف کی ناقص
اور بزدلی پر مبنی پالیسیو ں نے پاکستان کو نہ ادھر کا چھوڑا ہے نہ اُدھر
کا ، نائن الیون کا تاوان جس قدر پاکستان کو ادا کرنا پڑ رہا ہے اس کی مثال
نہیں ملتی بے شک یہ سا را کیا دھرا اسی بزدل اور بے حمیت ”کمانڈو“کی ناکام
خارجہ و داخلہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے ۔ کیا من حیث القوم ہمارے لیے یہ
مقام فکر نہیں ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی اسلامی طاقت پاکستان امریکی
غلامی میں آخری حدو ں کو بھی کراس کر چکا ہے ، پھر جنر ل مشرف کی رخصتی کے
بعد تو وطن کے کروڑوں عوام نے پیپلز پارٹی و دیگر سیاسی جماعتوں کو اس بنا
پر ووٹ کاسٹ کیا تھا کہ یہ جماعتیں ملکی و قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر
اپنی داخلی و خارجی پالیسیاں مرتب کریں گے ، آج باوجود اس کے کہ ملک و قوم
کی زمام کار پولیٹیکل پارٹیوں کے ہاتھ میں ہے مشرف اور آج کے دور میں کوئی
خاص اور واضح فرق نہیں محسوس کیا جا رہا اور آج بھی ملک اسی سابق آمر کے
چلائے ہوئے راستے پر گامزن ہے اور کروڑوں راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ملک اور
ایک عظیم ترین ایٹمی ریاست محض امریکی چراگاہ بن کر رہ گئی ہے ۔ نہ صر ف یہ
کہ ڈرونز حملے آج بھی جاری ہیں بلکہ ان میں پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ شدت
آئی ہے ، امریکی فورسز بدستور پاکستانی کے فوجی اڈے استعمال کر رہی ہیں اور
حکمرانوں و اپوزیشن جماعتوں کے منہ کو گویا چپ سی لگی ہوئی ہے ، ان ظالمانہ
ڈرونز حملوں کے خلاف کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے کوئی توانا آواز
ابھرتی سنائی نہیں دیتی ، اقتدار کے ایوانوں میں کوئی ایک بھی بندہ خدا اس
ظلم اور سفاکیت کے خلاف بولتا یا ڈیسک بجاتا نظر نہیں آتا ۔
کاش ! اگر غیرت نامی شے کسی دکان پر بک رہی ہوتی تو قوم اپنے ان بے حمیت
حکمرانوں اور لیڈروں کو ضرور خرید کر دیتی ۔ کتنا بڑا قومی المیہ ہے کہ
ڈرونز طیاروں کو مار گرانے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی ہمارے ہاتھ پاﺅں
شل ہو کر رہ گئے ہیں ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں دم توڑتی دکھائی دے رہی
ہیں اور ایک طاقتور ترین اسلامی ریاست اپنے شہریوں کے اس اندوہناک قتل عام
پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے ، زبانوں کو گویا قفل لگ چکے ہیں
اور قوت گویائی سلب ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ قائد عوام کی پاکستان پیپلز
پارٹی کے تین سالہ اقتدار کو ایک طرف رکھ دیجیئے صرف 2010ءکا سال ہی لے لیں
کہ اس ایک سال میں قبائلی علاقوں میں 133ڈرونز حملوں میں گیارہ سو سے زائد
قبائلی لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی
بھی ہے ۔ ان حملوں میں شمالی وزیرستان کے علاقے حکیم خیل ، میر علی ، غلام
خان اور دتہ خیل قابل ذکر ہیں جہاں سب سے زیادہ تباہی پھیلائی گئی ہے ۔ ان
علاقوں میں امریکہ کی طرف سے ہائی ویلیو ٹارگٹ کا بہانہ بنا کر معصوم
شہریوں کا بے دریغ قتل عام کیا گیا ہے ، قبائلی عوام کے مطابق ڈرونز طیارے
آٹھ آٹھ اور دس دس کی ٹولیوں میں بلا خوف و خطر اس دھرتی پر منڈلاتے دکھائی
دیتے ہیں جن کے خوف و دہشت سے لوگوں کی بڑی تعداد نفسیاتی مریض بن چکی ہے ۔یہاں
پر میڈیا کی بھی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ آج تک ان حملوں میں مرنیوالوں کو
میڈیا منظر عام پر نہیں لایا ہے ، کیا سیاستدانوں اور فلمی اداکاراﺅں کی
”انگڑائی“تک کی خبریں منظر عام پر لانے والا ہمارا میڈیا اس قدر اندھا ہو
گیا اور کیمرے کی آنکھ اس قدر دھندلا گئی ہے کہ اسے قبائلی علاقوں میں ہونے
والا یہ قتل عام نظر نہیں آتا؟ معصوم عورتوں اور بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کو
آج تک یہ میڈیا منظر عام پر کیوں نہیں لایا ہے؟ شاید میڈیا سے وابستگان ،
صحافی حیات اللہ شہید کے انجام کے ڈر سے ایسا کرنے سے قاصر ہیں حالانکہ
مغربی میڈیا خود چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ ان حملو ں میں مرنے والے
اسی فیصد عام شہری ہوتے ہیں ، مغرب کے معتبر ترین جریدے ”نیویارک ٹائمز“ کے
مطابق ان حملوں میں اوسطاً ہر ماہ چالیس سے زائد بے گناہ لوگ مار ے جارہے
ہیں اور 2004ء سے جاری ان ظالمانہ حملوں میں اب تک ہزاروں افراد جاں بحق ہو
چکے ہیں ۔ قبائلی علاقوں میں ہونے والے ان جاسوس حملوں میں وطن عزیز کے
عوام میں امریکہ اور خود پاکستان کے خلاف حکمرانوں کے خلاف نفرت تیزی سے
بڑھ رہی ہے یہ الگ بات کہ عوام عملا ً کچھ کر گزرنے سے قاصر ہیں ۔ دھرتی کے
باسیوں کو یہ فکر دامن گیر ہو چکا ہے کہ پاکستان دنیا کی ایک بہترین فوج
رکھنے کے باوجود ان امریکی حملوں کے آگے کیوں اس قدر بے بس ہو چکا ہے ؟ آخر
ہمارے حکمرانوں نے اس قدر کیوں گھٹنے ٹیک دیے ہیں کہ امریکی ڈرونز اور نیٹو
فورسز آئے روز پاکستانی سرحدو ں کے اندر گھس کر یہاں کے شہریوں کو بے دردی
سے شہید کر رہے ہیں ؟ اپنی دھرتی کو یوں غیروں کے حوالے کرنے والے بھلا
کشمیری مسلمانوں کے حقوق کی کیا جنگ لڑیں گے ؟ سوچنے کی بات ہے کہ دنیا میں
ایسے بھی تو ممالک موجود ہیں جو ہر لحاظ سے کمزور ہیں مگر انہوں نے ہر موڑ
پر استحصالی طاقتوں کی پالیسیوں پر نہ صرف یہ کہ کڑی تنقید کی بلکہ بوقت
ضرورت ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال بات کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں ، پھر
بھلا ہم پر ہی یہ عتاب کیوں نازل ہو تا ہے ۔۔۔؟ |