ریمنڈ ڈیوس نے جیل میں بھوک
ہڑتال کردی، اس کا کوڈ نیم ”مہمان“ رکھا گیا ہے اور اسے سہولتیں کسی معزز
مہمان سے بھی زیادہ فراہم کی جارہی ہیں پھر بھی اس نے جیل حکام کی ”سختیوں“
اور ”نازیبا“ سلوک کے خلاف بھوک ہڑتال اور احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ اس کا
کھانا سپیشل ڈاکٹرز چیک کرتے ہیں تو اسے فراہم کیا جاتا ہے، خصوصی باورچی
اس کی خدمت پر مامور ہے جو اس کی تراکیب کے مطابق اسے کھانا بنا کر پیش
کرتا ہے، ”مہمان“ جیل حکام اور عملے سے حقارت سے پیش آتا ہے، اس کا کہنا ہے
کہ یہاں کے ملازم صحیح نہیں ہیں اور انہیں تمیز بھی نہیں ہے۔ جیل میں روز
ہی اسے کوئی نہ کوئی امریکی عہدیدار ملنے پہنچ جاتا ہے جس سے دوسرے چار
ہزار کے قریب قیدیوں کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سزائے موت
کے قیدیوں کی ملاقاتیں بالکل بند کی جا چکی ہیں جبکہ باقی قیدیوں کے
ملاقاتیوں کو پل صراط سے گزر کر ملاقات میں کامیابی حاصل ہوپاتی ہے۔ دوسری
طرف میڈیا رپورٹس، انگلش اخبار ”گارڈین“ اور نیو یارک ٹائمز کے مطابق ریمنڈ
سی آئی اے کا باقاعدہ جاسوس ہے جو پہلے بلیک واٹر کے لئے بھی کام کرچکا ہے۔
وہ ستائیس جنوری تک پاکستان میں سی آئی اے کا قائم مقام سربراہ بھی تھا۔ وہ
تحریک طالبان پاکستان اور تحریک طالبان پنجاب کے رہنماﺅں کے ساتھ رابطے میں
بھی تھا اور میڈیا رپورٹس ہی کے مطابق اس کا مشن یہ تھا کہ وہ امریکہ کے
وفادار اور پاکستان کے دشمن طالبان کو جراثیمی اور ایٹمی ہتھیار فراہم کردے
تاکہ وہ امریکہ پر حملے کی کوشش کرسکیں، ظاہر ہے وہ کوشش ناکام بنا دی جاتی
اور سارا ملبہ پاکستان اور اصل طالبان (جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف
برحق جہاد کر رہے ہیں) پر ڈالا جاسکے اور بہانے کی وجہ سے براہ راست
پاکستان اور قبائلی علاقوں میں جنگ شروع کی جاسکے۔ اس طرح کی چالیں امریکہ
کا پرانا وطیرہ ہے۔ وہ اپنے شہروں پر 9/11 جیسے حملے کروا کر، اپنے شہریوں
کو مروا کر اپنے جنگی جنون کی تسکین کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح کی ملتی جلتی
سکیم پہلے کیوبا کے خلاف بھی 1962 میں استعمال ہوچکی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ
1962 میں امریکہ میں نارتھ وڈز ”فالس فلیگ“ آپریشن کی تجاویز دی گئی تھیں
جن کے مطابق سی آئی اے اور اس کے ایجنٹوں سے کہا گیا تھا کہ وہ امریکی
شہروں اور دوسرے مقامات پر بم حملے کریں، ہائی جیکنگ کریں تاکہ ان حملوں کا
الزام کیوبا پر عائد کر کے فیڈرل کاسترو اور کیوبا پر چڑھائی کا جواز پیدا
کیا جاسکے، اسی سلسلے کی ایک کڑی عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کا شور بلند کر
کے حملہ کرنا اور 9/11 میں اسامہ بن لادن اور افغان حکومت کو ملوث کر کے
افغانستان پر چڑھائی کرنا بھی ہے جو امریکہ نے ماشاءاللہ ہماری فوج اور
پرویز مشرف کی ”بہادری“ کی وجہ سے آسانی سے کرلیا۔
بہت سی مجبوریوں، عوام میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانے اور اگلے الیکشن کی
تیاریوں کے سلسلے کی کڑی کے طور پر وفاقی حکومت نے امریکی سینیٹر جان کیری
پر بھی اپنی مجبوری ظاہر کر دی اور کہا کہ کیس اب عدالت میں ہے اور ملزم کے
استثنیٰ کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔ آج کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق امریکی
سفیر نے وفاقی وزیر (لا)قانون بابر اعوان اور وزیر مملکت حنا ربانی کھر سے
بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ حنا کھر نے امریکی سفیر کو یقین دلایا کہ حکومت اپنی
طرف سے بھرپور کوششیں کررہی ہے لیکن اس معاملہ میں عجلت اور جلد بازی
مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ معاملہ بلاشبہ اب عدالت میں ہے، اگر وفاقی حکومت
عدالت کو یہ کہہ بھی دیتی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس ایک سفارتکار ہے اور اسے استثنیٰ
بھی حاصل ہے تو سابق وزیر خارجہ اور عوام کے موجودہ ہیرو شاہ محمود قریشی
موجود ہیں کہ وہ عدالت کو حقائق بیان کرسکیں، عدالت خود بھی یہ بات ضرور
محسوس کرے گی کہ آخر وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ سے جواب دینے کے لئے تین
ہفتے کا وقت کیوں مانگا؟ اگر ایسا کوئی استثنیٰ موجود تھا (جو کہ ہرگز نہیں
تھا) تو پہلے دن پیش کیوں نہ کردیا گیا۔ وفاق کی جانب سے استثنیٰ کا
سرٹیفکیٹ پیش کرنے کے باوجود عدالت تمام امور کا جائزہ لے کر ہی کوئی فیصلہ
صادر کرے گی اور یقیناً اس میں آئین اور قانون کو سامنے رکھا جائے گا نہ کہ
امریکہ اور پاکستانی حکومتوں کی مرضی و منشاء کو، کیونکہ اگر عدلیہ آزاد ہے،
اگر جج آزاد منش ہیں، تو استثنیٰ ہوا میں اڑتا ہوا، تحلیل ہوتا ہوا نظر آتا
ہے، اگر پھر بھی کوئی کوتاہ نظری کا مظاہرہ کرے تو اس کی سادگی پر مرا ہی
جاسکتا ہے! لیکن میری والدہ کہتی ہیں کہ مریں تمہارے دشمن، مجھے یقین ہے کہ
ایک ماں کی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ یقیناً فیضان، فہیم، عبادالرحمن
اور شمائلہ کی ماﺅں کی دعائیں، بلکہ بددعائیں بھی رائیگاں نہیں جائیں گی (انشاءاللہ!)
میں اپنے سولہ فروری کے کالم بعنوان ”ریمنڈ کو سزا یا معافی، فیصلہ مقتولین
کے ورثاء کریں گے“ میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ ”اب ریمنڈ کی معافی کا فیصلہ
مقتولین کے ورثاء کے ہاتھ میں ہے، اگر وہ (دھونس، جبر، لالچ وغیرہ کی بناء
پر )خون بہا لینے پر تیار ہوجائیں تو ریمنڈ کو معافی مل سکتی ہے“۔ اب
دیکھنا یہ ہے کہ اگر بفرض محال مقتولین کے ورثاء خون بہا لینے پر تیار ہو
بھی جائیں تو کیا عدالتیں ملزم کو آزاد کردیں گی؟ اس کا جواب اگر قانون میں
تلاش کیا جائے تو وہ بھی نفی میں ہے، کیونکہ پشاور ہائی کورٹ ایک قتل کیس
میں وارثان کی طرف سے ملزم کو معاف کرنے کے باوجود تعزیر کے تحت چودہ سال
کی سزا سنا چکی ہے جو کہ ایک نظیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ قانونی ماہرین کے
مطابق صرف استثنیٰ ہی ریمنڈ ڈیوس کو بچا سکتا تھا لیکن استثنیٰ کی عدم
موجودگی میں پشاور ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ دیت کے سامنے بھی آکھڑا ہوا ہے
جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ”’کوئی ایسا جرم جو کہ فساد فی الارض کے زمرے میں
آتا ہو وہ کسی قسم کی رعایت اور چھوٹ کا مستحق نہیں“۔ ریمنڈ ڈیوس کی جانب
سے دن دیہاڑے، بھرے بازار میں، سینکڑوں لوگوں کے سامنے دو افراد کا بہیمانہ
قتل یقیناً فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کیس کا ایک اہم پہلو یہ
بھی ہے کہ دونوں مقتولین کے ورثاء نے خون بہا لے کر ملزم کو معاف کرنے سے
صاف انکار کردیا ہے۔ ان کے بقول امریکی قونصلیٹ کی جانب سے ان سے بارہا
رابطہ کیا گیا جس میں ترغیب و لالچ کے ساتھ ساتھ دباﺅ بھی شامل ہے لیکن وہ
”خون کا بدلہ خون“ چاہتے ہیں اور ریمنڈ کو پھانسی پر چڑھتا دیکھنا چاہتے
ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مقتولین کے ورثاء نے قوم سے مالی امداد کا
بھی مطالبہ کیا ہے جس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ اگر ان کے خاندان میں
کچھ لوگ خون بہا لینے پر آمادہ بھی ہوں تو ان کے لئے پاکستانی عوام کی جانب
سے مالی امداد اور تعاون کیا جائے تاکہ وہ خون بہا لینے کا سوچیں بھی ناں!
اس کیس کا سب سے اہم پہلو جس پر ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومت نے کسی قسم
کی لب کشائی نہیں کی، وہ یہ ہے کہ اگر استثنیٰ موجود بھی ہو یا مقتولین کے
ورثاء خون بہا لے کر ملزم کو معاف کرنے کو بھی تیار ہوں، تب بھی کیا ایک
جاسوس اور وہ بھی جو ملک کے ساتھ دشمنی کررہا ہو، جو پاکستان کے اندر بم
دھماکوں کے حوالے سے مشکوک حیثیت رکھتا ہو، جس کے ذمہ ”امریکی طالبان“ کو
جراثیمی اور ایٹمی ہتھیاروں کی فراہمی ہو اور جس نے لاہور میں دہشت گردی کی
ہو، اس کو چھوڑ دینا چاہئے، نہیں ہرگز نہیں بلکہ اس کو پنجاب پولیس کے کسی
کانسٹیبل کے حوالے کر کے تفتیش کرنے کی ضرورت ہے انشاءاللہ وہ فر فر بولے
گا بھی، اپنا جرم بھی قبول کرے گا اور بار بار یہ دہرائے گا کہ اسے کسی قسم
کا کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے، وہ یہ بھی بتا دے گا کہ اس نے اب تک کتنے بم
دھماکے کروائے ہیں اور اس کا نیٹ ورک کتنا وسیع ہے، وہ یقیناً ان
پاکستانیوں کے نام بھی بتائے گا جو یہاں اس کی مدد کر کے ملک کی جڑیں
کھوکھلی کر رہے ہیں۔ اس نے صرف دو انسانوں کو قتل نہیں کیا بلکہ پاکستانی
ریاست اور یہاں کے عوام کو ایک کرب میں مبتلا کردیا ہے، اس نے عالمی قوانین
کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر ایک شخص جو امریکی شہریت رکھتا ہو لیکن اس کا
نام پاکستان سے جڑا ہو، نیویارک میں مشکوک حرکت بھی کرے تو امریکہ پورے
پاکستان کی جامہ تلاشی لینا شروع کردیتا ہے، بلکہ یہاں کی پولیس اور فوج تک
کو مصیبت پڑجاتی ہے، تو کیا پاکستانی ریاست اور یہاں کے عوام ہی اتنے بے
وقعت اور ارزاں ہیں کہ امریکی یہاں دندناتے پھریں، ہمارے گھروں میں گھس کر
ہمارے بچوں کو مار دیں اور ہماری بے غیرت حکومت پھر بھی بھیگی بلی بنی رہے؟
بقول شاہ محمود قریشی ”یہ وقت سر جھکانے کا نہیں بلکہ سر اٹھانے کا ہے“ یہ
قدرت کی طرف سے ایک موقع ہے کہ اگر ہمیں قوموں کی دنیا میں باوقار طریقہ سے
زندہ رہنا ہے تو امریکہ کو صاف اور کورا جواب دے دیا جائے، سی آئی اے اور
بلیک واٹر کے جتنے اہلکار پاکستان میں موجود ہیں ان کو گرفتار کرلینا چاہئے
اور ڈرون حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جانا چاہئے، نیٹو کی سپلائی لائن کاٹ
دینی چاہئے، جس فوج کو ہم برسوں سے پال پوس کر بڑا اور جوان کر رہے ہیں آخر
اس کا بھی کوئی مصرف ہونا چاہئے، وہ اندرونی معاملات میں مداخلت کی بجائے
سرحدوں کی نگہبانی کرے، مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستان ڈرون حملوں کو
روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ڈرونز کو گرانے کی استعداد بھی ہمارے پاس موجود
ہے، بس فیصلہ کرنے کی دیر ہے، اگر صرف ایک اللہ سے ڈرا جائے گا تو یقیناً
وہ ہماری مدد بھی کرے گا اور فتح یاب بھی کرے گا.... انشاءاللہ! |