خالد عنبر بیزار اس بے حس، غلیظ، بدبودار اور تعفن زدہ
معاشرے کی ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ یہ وہ پہلا شخص نہیں جسکے قدرتی وَصف
کی بے حرمتی نہ کی گئی ہو؟ بحیثیت صحافی و کالم نگار میرا روزانہ ایسی
ہزاروں خبروں اور معاشرتی کہانیوں سے واسطہ پڑتا ہے جن میں انسانی اقدار،
روایات ، استعدادکار، ذہانت، جذبات اور احساسات کا خون کیا جاتا ہے۔ ابھی
چند د ن پہلے کی بات ہے کہ عارف والا کا رہائشی ایک نوجوان نے اپنے شوق کی
تکمیل کی خاطر اپنی ذاتی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے بنک سے قرض لیا
اور جہاز بنا ڈالااور پرواز کے لیے قریبی سڑک کا انتخاب کیا ۔ پولیس نے
اطلاع ملنے پر اس نوجوان کو ہوا بازی کا لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے ایف آئی
آر کاٹ کر اسے پابند سلاسل کر دیا ۔جہاں سے اگلے دن کورٹ سے جرمانے کے عوض
اسے رہائی ملی جبکہ اس کا جہاز ضبط کرلیا گیا۔رہائی کے بعد اس نوجوان کا
کہنا تھااس واقعہ کے بعد اسکا دل ٹوٹ گیا ہے۔ بجائے اسکے،کہ میرے کارنامے
کے بعد میری حوصلہ افزائی کی جاتی اُلٹا مجھے نشان عبرت بنا دیا گیا تاکہ
میں اور مجھ جیسے دیگر نوجوان جو اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ باز
رہیں۔
یاد رہے جو ملک اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور تخلیقات کی سرپرستی کرتے ہیں
وہاں اُن نوجوانوں کی چھپی صلاحیتیں مزید کھل کر سامنے آتی ہیں اور وہ اپنے
ملک و ملت کے لیے کچھ کر گزرتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملک دوسرے ملکوں کا
ٹیلنٹ اُٹھا لیتے ہیں اورا نہیں ایسے مواقع مہیا کرتے ہیں جہاں نہ صرف
نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا پورا موقع ملتا ہے بلکہ وہ اس ملک
کے لیے اپنا ٹیلنٹ بیچ دیتے ہیں۔ امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا، جرمنی اور
دیگر ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔جہاں ہمارا ٹیلنٹ ان ممالک کی ترقی کا
باعث بن رہا ہے۔ مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ہم نا جانے کیوں محسن کش
اور دوسروں کی دیواروں سے اینٹیں نکالنے والے بنے ہوئے ہیں؟ہم کیوں اپنے
ہیروں کی پہچان سے قاصر ہیں ؟ ہم کیوں اپنے نوجوانوں کی سرپرستی نہیں کرتے
جو اپنی فیلڈ میں کچھ کر دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
اب خالد عنبر بیزار کو ہی لیجئے ایک ایسا شاعر جسکے بارے میں بابائے تھل
بابا فاروق روکھڑی نے کہا تھا کہ "خالد عنبر بیزار اپنے قد سے بڑی غزل کہہ
رہا ہے"۔ اٹک کے اس ساغر صدیقی کے خاندانی پس منظر ، بھوک اور افلاس کو
دیکھا جائے تو شاید وہ کبھی اصنافِ ادب کی طرف وارد نہ ہوتا۔یہ دِین
خداوندی ہے۔ جسے چاہے علم و حکمت کی دولت سے مالا مال کردے۔بدنصیبی دیکھیے،
ایک کِیل کا چُبھنا،کیا معلوم تھا کہ وہ اسکے ارمانوں کو ہزاروں من وزنی
مٹی تلے دفن کر دے گا۔ اس کی محرومیوں کی بنیادی وجہ شاید اپنوں کی بے
وفائی، ادیب دوستوں کی بے رُخی، غربت، بھوک اور افلاس تھی۔ بوڑھے ماں باپ،
کچھا گھر، ٹپکتی چھت اور بے روزگاری کا خوف، اس حساس شاعر کے لیے کسی
امتحان سے کم نہ تھا۔ ڈاکٹر کی فیس نہ ہونے کی وجہ سے اپنے پاؤں میں چبھنے
والی کیل کا بروقت علاج نہ کرا سکا، نہ ہی خودداری کے خول کو توڑ سکا کہ
کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ انفیکشن کے پھیل جانے کے باعث جب ہسپتال پہنچایا
گیا تو ڈاکٹروں نے اسے بچانے کے لیے ٹانگ کاٹ دی ۔ ٹانگ کٹنے کی وجہ سے
زندگی میں کچھ کرگزرنے کے عزم کو جب شکت ہوئی تو وہ ڈھے گیا۔ اس کا دماغ یہ
سب کچھ قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ دماغ پر گہرے اثر نے اسکے کچھ کر گزرنے
کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دیا۔خیالات کے انبار اور سوچیں اسکے دماغ پر
ایسی حاوی ہوئیں کہ وہ اپنا آپ بھلا بیٹھا۔
سلام اس ماں پر جو بوڑھی ہڈیوں کے باوجود مضبوط اعصاب، قوت ارادی اور عزم و
استحکام کی وہ چٹان ثابت ہوئیں جنکے سامنے امتحان ،صبر اور استقامت اپنے
معنی کھو بیٹھے۔ مجھے وہ منظر شایدنہ بھولے جب میں اپنے دوست اقبال زرقاش
کے ہمراہ خالد عنبر بیزارکے گھر گیا۔ اندھیرے کمرے میں ایک چارپائی پر خالد
عنبر بیزار اور دوسری چارپائی پر اس کا والد ٹی بی کی آخری اسٹیج سے لاعلاج
ہو کر بے سدھ پڑا تھا اور دونوں چارپائیوں کے درمیاں خالد کی عظیم ماں
تیماداری کے ساتھ ساتھ قدرت کے امتحان پر شاکر دیکھائی دے رہی تھی۔ میرے
استفار پر کہنے لگی کہ بیٹا "میرا رب اپنے عزیز بندوں کو ہی آزماتا ہے میں
اسکے ہر امتحان پر راضی بہ رضا ہوں دُعا کرو میں ہر آزمائش پر پوری اُتروں"۔
میں ناچیز کیا میری اوقات کیا! یہ سب میرے سوہنے رب کی طرف سے وسیلہ ہے کہ
میں خالد عنبر بیزار کی کتاب لانے کا قصد کیا۔میرے استفسار پر مجھے خالد کہ
والدہ نے بتایا کہ کئی شاعر اور ادیب آتے تھے اور خالد کی شاعر ی اُٹھا کر
لے جاتے تھے کہ ہم خالد کی شاعری کی کتاب لائیں گے لیکن وہ پھر کبھی واپس
نہ آتے۔ ایک آٹے کے خالی تھیلے سے جب خالد کی نگارشات دیکھیں تو میں لرز کر
رہ گیا۔ رجسٹر خریدنے کی سکت نہ رکھنے سے سبب وہ کاغذ کے ٹکڑوں پر غزلیں
لکھ کر اس آٹے کے تھیلے میں ڈال دیتا تھا۔انہی نگارشات سے معلوم پڑا کہ وہ
اپنی شاعری کی کتاب مرتب کرناچاہتا تھا اور اسکے لیے اس نے کتاب کا نام اور
دیباچہ تک لکھ رکھا تھا۔قبولیت کی گھڑی تھی کہ میں نے وسائل کی پروا نہ
کرتے ہوئے خالد کی والدہ سے کہا کہ اماں اب میں تب آپکے گھر آؤں گا جب اسکی
کتاب چھاپ کر لاؤں گا۔اسی سوچ کے ساتھ میں نے اقبال زرقاش سے کہا کہ آج سے
ہمیں خالد کی کتاب کے لیے اسکی بکھری شاعری کو مختلف ذرائع سے اکٹھاکر نے
کی مہم پر جُت جانا ہو گا۔اقبال زرقاش، ناصر بنگش اور دیگر دوستوں اور
اخبارات سے ہم نے خالد بیزار کی شاعری کو اکٹھا کیا ۔ یاد رہے کہ یہ مواد
اُس کی شاعری کا عشر عشیر بھی نہیں جو اس کی تخلیق تھا۔کئی نامور گلوکاروں
جن میں عطاء اﷲ عیٰسی خیلوی بھی شامل ہیں ،نے خالد کے گیت گائے جو ہم حاصل
کرنے میں ناکام رہے لیکن جو مواد موجود تھا اسے دوستوں کے تعاؤن سے"چاندنی
سے دِیا جلاتے ہیں" ادبی منظر نامے پر لانے میں کامیاب رہے۔
29 مارچ 2019ء میری زندگی کا ایک نہایت خوشگوار دن تھا۔میں ایک ذہنی
وجسمانی معذور انسان کے چہرے پر خوشی لانے کا آرزو مند تھا۔ایک ماں کے
اکلوتے بیٹے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل اور دُعاؤں کا متمنی تھا۔اگرچہ میری
دیگر مصروفیات بھی تھیں لیکن اولین ایجنڈاخالد عنبر بیزار کے ہاتھوں میں
اسکی لکھی کتاب دینا چاہتا تھا۔میں اپنے دوستوں اقبال زرقاش اور سردار ایاز
خالد مٹھیالوی کے ہمراہ خالد کے گھر پہنچا۔ حسب معمول خالد کی والدہ نے
استقبال کیا ۔ جب خالد کو اسکی تخلیق ہاتھ میں دی تو وہ چند منٹوں تک اُسے
ٹٹولتا اور حیرت سے دیکھتا رہا جبکہ اسکی والدہ بھی خوشی سے سرشار ہوگئیں۔
طویل انتظار کے بعد خالد کے مایوس اور لٹکے ہوئے چہرے پر خوشی کے آثار
نمایاں ہونے لگے۔وہ اچانک چّلا اُٹھا۔ بہت شکریہ بہت شکریہ شہزاد صاحب اﷲ
آپکو علی علیہ السلام کے صدقے بہت دے۔پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کی طرف
لوٹنے لگا۔ ہماری خواہش پر اس نے کتاب سے غزلیں پڑھنی شروع کر دیں ۔ نظر کی
کمزوری اور عینک کے بغیر بھی اس نے اپنی غزلوں کوشاعرانہ انداز میں پڑھا
جیسے کبھی وہ مشاعروں میں پڑھا کرتا تھا۔ خالد نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ
زندگی کی طرف لوٹے گا۔اُس وقت میں اپنے آپ کو دُنیا کا خوش قسمت ترین انسان
سمجھ رہا تھا جب خالد کی والدہ مجھے دُعائیں دے دے نہ تھک رہی تھیں۔خالد
عنبر بیزار صرف میرا نہیں ہم سب اہل ادب کا اثاثہ ہے۔ میں نے صرف ایک ہیرے
کو تلاش کر کے اُسے پہچان دینے کی سعی کی ہے۔اب وہ تاریخ میں امر ہو گیا ہے۔
تاریخ اسے اب مٹا نہیں سکتی ، خالدعنبر بیزار سب کا ہے۔ |