جس میں محفل افتخار مجاز ہوں اور ماحول قہقہوں سے نہ
گونج اٹھے ‘ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔ وہ شخص اپنے دکھ اور پریشانیوں کو
فراموش کرکے دوسروں کو ہمیشہ خوشیاں بانٹا کرتا تھا ‘ میری ان سے پہلی
ملاقات آج سے کوئی اٹھارہ برس پہلے طارق فاروق مرحوم کے گھر ہوئی جب کراچی
سے میڈیا کے کچھ لوگ ان کے ہاں تشریف لائے تھے ‘ میں بھی مراتب علی شیخ کے
ساتھ وہاں پہنچا۔ میرے لیے حیران کن بات تھی کہ بات کا آغاز بھی افتخار
مجاز ہی کرتے اور اختتام بھی انہی پر ہوتا ۔گویا وہ محفل کی جان تھے انہوں
اتنے لطیفے اور واقعات سنائے کہ ہنستے ہنستے ہم سب کی پسلیوں میں درد ہونے
لگا۔ محفل ختم ہوئی تو افتخارمجاز نے مجھے اپنا تعارف کروایا وہی تعارف آگے
چل کر ایک مضبوط دوستی کی بنیاد بن گیا۔ایک صبح افتخار مجاز کی کال موصول
ہوئی ۔ دونوں جانب سے اس قدر والہانہ محبت کااظہار دیکھنے میں آیا کہ پہلی
کال کا دورانیہ نصف گھنٹے سے زائد کا رہا ۔ پھر روزانہ یہ معمول طول پکڑتا
گیا ‘ جن دنوں وہ حادثے کا شکار ہوکروہ صاحب فراش تھے وہ ایک رات میری کتاب
کارگل کے ہیرو پڑھ رہے تھے ‘ اچانک ان کا بیڈ روم خوشبو سے مہک اٹھا ‘گھر
کے تمام افراد سو رہے تھے ‘ انہوں نے لائٹ آن کرکے دیکھاتو کوئی بھی دکھائی
نہ دیا تمام رات اسی کیفیت میں گزری ‘ صبح جب میں بنک پہنچا تو سب سے پہلے
انہی کا فون موصول ہوا۔ وہ بہت خوش تھے کہہ رہے تھے کہ آپ کی کتاب کارگل کے
ہیرو نے تو مجھے حیران ہی کردیا مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کسی شہید کی
روح ساری رات میرے گھر میں موجود تھی خوشبو کا ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ
صبح تک جاری رہا ۔ہماری دوستی کا دوسرا ستون یہ کتاب بنی۔وہ صحت مند ہوں یا
بیمار مطالعے انہیں جنون کی حد تک شوق تھا ‘ایک مرتبہ انہوں نے خود بتایا
کہ ناشتہ کرتے ہوئے میں تمام قومی اخبارات کو پڑھ لیتا ہوں یہ میرا روٹین
ہے جبکہ دور حاضر میں شائع ہونے والے رسائل و جرائد جو ان کے گھر باقاعدگی
سے آتے تھے ‘ ان میں شائع ہونے والی آرٹیکل انہیں ازبر ہوتے ۔ ہماری دوستی
کی بنیاد اس قدر مستحکم ہوچکی تھی کبھی وہ میرے پاس بنک چلے آتے توکبھی میں
پی ٹی وی چلا جاتا ‘ گھنٹوں پر محیط محفلیں جمتیں ‘ قہقہے فضا میں گونجتے
رہے اس طرح دونوں کے دل میں ایک دوسرے کی محبت اور چاہت بڑھتی رہی ۔ حسن
اتفاق سے انہی ایام میں میری کتابیں شائع ہوکر مارکیٹ میں آگئیں ۔میں ان کی
تقریب کااہتمام کبھی نہ کرتااگر افتخار مجھے مجبور نہ کرتا ۔ وہ میری سوانح
عمری "لمحوں کا سفر" کے بھی عاشق تھے ۔ وہ اکثر کہاکرتے تھے کہ یہ کتاب ادب
میں ہمیشہ زندہ رہے گی ۔یادرہے کہ اس کتاب کی پروف ریڈنگ ممتاز دانش ور اور
چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان مجیب الرحمان شامی صاحب نے اپنے ہاتھ سے کی تھی
۔ کتابوں کی تقریبات کے انعقاد کے دوران ایک شخصیت کا ساتھ بھی میسر آیا
جنہیں ڈاکٹر ندیم الحسن گیلانی کے نام سے لوگ یاد کرتے ہیں وہ بھی افتخار
کی طرح یاروں کے یار تھا ۔جب میں نے عظیم شخصیات کی ماؤں پر کتاب لکھنے کا
ارادہ کیاتو افتخار سے مشورہ مانگا انہوں نے اسی وقت بتایا کہ اردو ڈائجسٹ
کا مکمل ایڈیشن ماؤں کے حوالے سے شائع ہوچکا ہے ‘اس سے بھی استفادہ کریں ۔کہنے
کا مطلب یہ ہے جب بھی کبھی تحریر و تالیف میں مجھے کوئی دقت پیش آئی انہوں
نے رہنمائی فرمائی ۔یہ افتخار مجاز ہی تھے جنہوں نے اپنا سر میری والدہ کے
سامنے جھکاتے ہوئے کہا مجھے آپ کی شکل میں اپنی ماں دکھائی دیتی ہے ۔ پھر و
ہ منظر بھی میں نہیں بھول سکتا جب اعزاز احمد آذر کے صاحبزادہ حسن اعزاز کی
کتاب کی رونمائی لاہور پریس کلب کے آڈیٹوریم میں ہورہی تھی ۔ کمپیرنگ کے
فرائض افتخار ہی انجام دے رہے تھے ‘ حسن اعزاز اپنی تازہ غزلیں سنا کر
حاضرین کو محظوظ کررہا تھا کہ اچانک ایک مقرر نے یہ کہہ کر پوری محفل کو
زعفران بنادیا کہ افتخار کی کبھی ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے تو کبھی بازو کی ہڈی ۔
ہمیں شک ہے یہ کارنامہ ان کی بیگم ہی انجام دیتی ہوں گی ۔اگر یہ کہاجائے تو
غلط نہ ہوگا کہ افتخار ہر محفل کی جان تھے ‘ ان کے بغیر کسی بھی مجلس میں
جانے کالطف نہیں آتا تھا ۔ ایک دن اچانک مجھے خبر ملی کہ وہ شیخ زید ہسپتال
میں زیرعلاج ہیں ‘ ان کی بیماری کا سن کر مجھے دکھ ہوا ۔میں جب ان کی مزاج
پرسی کے لیے ہسپتال پہنچا تو وہ پہلے کی طرح ہنستے مسکراتے نظر آئے ۔ ایک
بات میں یہاں ضرور کہنا چاہتاہوں کہ بے شک افتخار اولاد نرینہ سے محروم تھے
لیکن انہیں کبھی مایوسی کا اظہار کرتے نہیں دیکھا ۔جس طرح وہ دوستوں میں
مقبول تھے اسی طرح وہ اپنے خاندان میں ہر دلعزیز تھے ‘چند سال پہلے جب ان
کے بڑے بھائی اعزاز احمد آذر کاانتقال ہوا تو افتخار کی آنکھوں میں پہلی
بار آنسو دیکھے ‘ وہ بڑے بھائی کو اپنے باپ کی طرح ہی پیار کرتے تھے ‘ میں
از راہ محبت ان دونوں بھائیوں کو محمدعلی جوہر اور شوکت علی جوہر سے تشبیہ
دیا کرتا تھا ۔میں سمجھتا ہوں افتخار بھائیوں سے بڑھ کر تھے ۔وہ پہلے فالج
کی بیماری میں مبتلا ہوئے ابھی وہ بیماری ٹھیک نہیں ہوئی تھی کہ دل کے مرض
میں سراٹھالیا ۔یہ دونوں امراض ہی جان لیوا ثابت ہوئے ۔ 3اپریل کی دوپہر جب
میں نظام بلاک کی عثمان مسجد میں ان کی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد فارغ ہوا
تو مسجد میں تل رکھنے کی جگہ نہ تھی ۔میڈیا ‘ادب اور صحافت کے سرکردہ لوگ
اپنے اس عظیم دوست کو خراج تحسین پیش کرنے آئے تھے ۔انہوں نے اپنی زندگی کا
بڑا حصہ پی ٹی وی میں گزارا۔وہ صاحب طرز شاعر اور ادیب کے ساتھ ساتھ بڑے
کشادہ دل انسان تھے ۔ ایک مجموعہ کلام اور بھائی اعزازا حمد آذر پر کتاب
بھی مرتب کی تھی ۔بے شک جو شخص دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن اپنے رب
کے پاس بھی لوٹ کر جانا ہے لیکن کچھ لوگ اپنے حسن اخلاق ‘ کردار اور
خوشدلانہ رویے ہمیشہ یاد رہتے ہیں ۔ افتخار مجاز بھی انہی لوگوں میں شامل
تھے جنہوں نے دوستیاں تو بے شمار کیں لیکن دشمنی سے ہاتھ کھینچ کر ہی رکھا۔
بے شک ہم اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ |