“امی، امی بتائیں ناں!آپ تو کہتی
ہیں سالگرہ منانا گناہ ہے،کیک لانا اس پر عمر کے برابر کینڈلز لگانا پھر اس
پر چھری چلا کر تالیاں بجا کر سونگ گانا یہ سب غلط ہے اگر آپ کا دل چاہ رہا
ہے میٹھا کھانے کو تو آپ یونہی بنا کر کھا لو صرف سالگرہ ہی کیوں مخصوص،اور
سالگرہ غیر مذہب کے لوگ مناتے ہیں جو ہم مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے اور نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو فرمایا ہے کہ جس شخص نے غیر قوم کی
شباہت اختیار کی اس کا حساب اسی قوم کے ساتھ ہوگا“
میں اپنے بیٹے کے اتنے سارے سوالات اور پھر انکے خود ہی جواب دینا جو کہ اس
کی یاد داشت میں الحمد اللہ محفوظ تھے سن کر اس کا غصہ اور جذباتیت اچھی
طرح محسوس کر رہی تھی کیونکہ ابھی پانچ منٹ پہلے بارہ ربیع الاول کے حوالے
سے جو جوش و خروش اور گہما گہمی کی خبریں ٹی وی چینلز پر چل رہی تھیں انہی
میں یہ خبر بھی دل دہلا دینے،حواس کھو دینے اور روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے
والی تھی ۔
ہمارے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں،دین کے نام پر حاصل کئے جانے
والے ملک میں اب کون سے دین کو ایجاد کرنے کی کوشش میں لوگ کیا کیا کر
جائیں گے؟
یہ کون لوگ ہیں؟یقیناً ہم ہی ہیں جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی
محبت کا لبادہ اوڑھ کر غیر مذاہب کے تہواروں اور طریقوں کو رائج کر کے دین
اسلام پر داغ لگانے میں کوشاں ہیں۔
ایک تو سالگرہ منانا،پھر اس پر کیک بھی بنا ڈالا وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی عمر مبارک کے حساب سے تریسٹھ پونڈ کا۔
پھر اس پر طرہ یہ کہ اس پر مکہ معظمہ،اس کے پہاڑ،میدان اور پھر خانہ کعبہ
کی شبیہ اور مدینہ منورہ اس کی ہریالی اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی
شبیہ دے کر اس کو چھری سے کاٹا گیا اور مزے لے لے کر کھایا گیا۔
یقیناً یہ منظر سینکڑوں لوگوں نے دیکھا۔ اس میں بنانے والے،کاٹنے والے اور
کھانے والے بھی شامل ہیں اور دکھانے والے بھی۔
کیا کچھ محسوس کیا کہ یہ آخر ہوا کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟
کیا واقعی بقول ہماری پیاری باجی ثمینہ مرسلین کے ہم“سیکولر“ہوچکے ہیں؟
دین اور دنیا کی جو تعریف انہوں نے ہمیں بتائی کہ ہم نے دین اور دنیا کو
علیحدہ علیحدہ حیثیتیں دے دی ہیں؟
قرآن میں بتائے ہوئے زندگی کے طریقے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
حیا ت طیبہ کیا ہمیں اس دور میں مختلف حیثیت سے دیکھنی چاہیئے؟
لیجئے جناب! بیٹے صاحب ہم سے سوال کر رہے تھے اور ہم اپنے آپ سے۔۔۔۔
اب ضبط تحریر میں لانے کے بعد آپ سے بھی سوال ہے؟
کہیں جواب ملے تو دل کو کچھ سکون ملے کہ کس پر کہیں کہ کیا ہے اب سراپا
سوال ہیں! ہم سب۔ |