انسان جس معاشرے سوسائٹی اور
ماحول کے اندر اپنے روز و شب گزاتا ہے وہاں پر روزانہ اس کے مفادات کا ٹکرا
ﺅ اس جیسے دوسرے انسانوں سے ہو تا ہے لیکن وہ مخا صمت اور ٹکراﺅ کی اس
کیفیت میں بھی ماحول اور گردو پیش سے کنارہ کش نہیں ہو تا بلکہ اپنی بہترین
حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی سے اپنے ناقدین اور مخالفین سے سبقت لے جانے کی
کوشش میں جٹا رہتا ہے۔ کبھی کبھی اسے ہار کا منہ بھی دیکھنا پڑتا ہے لیکن
اکثر و بیشتر فتح اس کے قدم چو متی ہے لہٰذا وہ فتح کے خمار انگیز لمحات
میں خوشیوں کے شادیانے بجاتا اپنے تفوق کا ڈھول پیٹتا اور اپنی برتری کے
نغمے گا تا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسکی ساری تگ و تاز کا نقطہ ماسکہ
دوسروں پر بازی لے جانا اپنی دھاک بٹھا نا اور اپنی برتری کا احساس اجا گر
کرنا ہو تا ہے۔اقوامِ عالم کی کیفیت بھی افرادِ معاشرہ سے مختلف نہیں ہوتی
ان کے اندر بھی افراد کی طرح کے ہی پیمانے کارفر ما ہو تے ہیں اور وہ بھی
انھیں پیما نوں سے حالات کو ماپتی ہیں اور سر بلندی کی جانب مائلِ پرواز
رہتی ہیں۔ اقوام کے جذبات و احساسات انسانوں سے مختلف نہیں ہو تے لہٰذا اگر
میں یہ کہوں کہ اقوام کے رویے انسانوں کے جذبات کی طرح ابھرتے ہیں موجزن ہو
تے ہیں انا نیت کی تسکین کرتے ہیں ان کے تفوق کے جذبوں کو جلا بخشتے ہیں
اور انھیں دوسروں پر حکمرانی پر اکساتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔۔
وہ قومیں اور افراد جو پدرم سلطان بو د کی سحر انگیز کیفیت میں جکڑے رہتے
ہیں اور محض نعروں کے زور پر اپنی برتری قائم کر کے دنیا کو اپنے زیرِ نگیں
رکھنا چاہتے ہیں دنیا کی سرفرازی کو کبھی حاصل نہیں کر پاتے اندھیروں میں
تیر چلانے سے کبھی ہدف نہیں ملا کرتا ساحل پر بیٹھ کر کبھی سمندر کی تہہ
میں چھپے ہو ئے موتیو ں کے خزانے کا سراغ نہیں پا یا جاتا اور فقط داستان
گو ئی سے مملکتوں کو تسخیر نہیں کیا جا سکتا ۔ نعرے، فخر و ناز اور ڈھینگیں
نہ تو عظمتِ رفتہ ، جاہ و جلال اور قوت و حشمت کو واپس لا سکتے ہیں اور نہ
ہی اہلِ جہاں کو مرعوب کر سکتے ہیں ایسی قوم کی حالت بالکل اس نشے باز فرد
جیسی ہو تی ہے جو ہواﺅں میں محوِ پرواز رہتا ہے ،تسخیرِ کائنات کا غلغلہ
بلند کرتا ہے ، دشمن کو زیر کرنے اور سزا دینے کا خواب دیکھتا ہے۔ وہ اپنی
طاقت پر گھمنڈ بھی کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے
قابل نہیں ہوتا وہ تو ایک تنکے کو توڑنے کی قوت نہیں رکھتا لیکن اسکی خیالی
دنیا میں زمانے کے فاتحین اسے خراج دیتے اور اس کا پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔
نشاةِ ثانیہ کے قصے دلنشین، خوبصور ت، رنگین اور پر کشش تو ہو سکتے ہیں
لیکن وہ کسی بھی قوم کو عظمتوں سے ہمکنار کرنے کی قوت سے محروم ہو تے
ہیں۔نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر ایک ایسا ابدی قانون ہے جو قوموں
کی حیات و ممات کا فیصلہ کرتا ہے ۔قوموں کا مقدر بھڑکوں، دعوؤں اور دھمکیوں
سے نہیں بلکہ خونِ جگر ،جرات و بسا لت، اما نت و دیانت، جہدِ مسلسل اور عزمِ
راسخ سے ترتیب پاتا ہے اور جو کوئی بھی اس کائنات میں بحرِ بیکران کی تند و
تیز موجوں سے نبر آزما ہو تا ہے کامیابی اسی کے قدم چومتی ہے۔
جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود۔۔۔کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں
پیدا
خودی میں ڈوبنے والوں کی عزم و ہمت نے۔۔ اس آبجو سے کئے ہیں بحرِ بے کراں
پیدا ( ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کی جو حالت تھی وہ سب پر روزِ روشن کی طرح
عیاں ہے ۔بھارت کا رویہ پاکستان کے ساتھ بہت معاندانہ تھا ۔ پاکستان کے پاس
فوجی سازو سامان اور ٹیکنالوجی کی کمی تھی۔اس کا خزانہ بالکل خالی تھا
کیونکہ بھارت نے اس کے حصے کے فنڈز روک لئے تھے۔ مالی بدحالی اور معاشی
ابتری اپنے شباب پر تھی اور کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے نے حا لات کی
سنگینی میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا۔ ان اعصاب شکن حالات میں بھارت پاکستان
کی نو زائیدہ ریاست کو ہر صورت میں کچل دینے پر تلا ہوا تھا۔عرب ریاستوں کے
تیل کے ذخائر ابھی دریافت نہیں ہو ئے تھے۔ انکی دولت ابھی زمین کی تہوں کے
اندر چھپی ہو ئی تھی اور اپنی نمود کے لئے کسی مناسب وقت کی منتظر تھی۔ چین
ابھی چیانگ کائی شیک کی استبدادیت میں جکڑا ہو ا تھا۔ روس بھارت کی پشت پر
کھڑا تھا اور پاکستان کو نیست و نابود کرنے کے لئے بھارت کی ساری کاوشوں
میں اس کا ممد و معاون بنا ہوا تھا۔ان دونوں طاقتوں کا با ہمی گٹھ جوڑ
پاکستان کے وجود کے لئے سنگین خطرہ تھا تبھی تو بانیِ پاکستان قائدِ اعظم
محمد علی جنا ح اور ان کے رفقائے کار امریکہ سے تعلقات کو استوار کرنے کے
لئے بے چین تھے ۔ وہ روس اور بھارت کے مہلک وار سے پاکستان کو محفوظ رکھنا
چاہتے تھے۔ قائد اعظم کو بھارت کے مکروہ عزائم کا بخوبی علم تھا کیونکہ
انھوں نے اپنی ساری سیاست انہی کے اندر کی تھی اور انکی ذہنی اور نفسیاتی
کیفیات سے کما حقہ آگاہ تھے لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ امریکہ سے تعلقات کو
مظبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے تاکہ بھارت کے مکروہ عزائم کو لگام دی جا
سکے۔۔
وقت کے طوفانی مدو جزر میں بے رحم موجوں کے تھپیڑے سہتے ہو ئے پاک امریکہ
دوستی کی یہ کشتی آگے بڑھتی رہی اور پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا
کرتی رہی۔چشمِ تصور سے دیکھئے کہ وہ قوم جو ۷۴۹۱ میں بالکل بے یارو مددگار
تھی جس کے پاس کوئی قابلِ ذکر طیارے نہیں تھے ، جس کے پاس جدید اسلحہ اور
جنگی سازو سامان کا فقدان تھا ۵۶۹۱ میں روس اور بھارت کی مشترکہ قوت کے
سامنے ڈٹ جاتی ہے اور ان کی پیش قدمی کو روک کر جرا ت و بسالت کی ایسی
ولولہ انگیز اور ایمان افروز داستا نیں رقم کرتی ہے کہ دنیا ورطہ حیرت میں
گم ہو جاتی ہے۔ کو ئی ہے جو مجھے یہ بتا نے کی زحمت گوارا کرے کہ بھارت اور
روس کی باہمی یلغار کو روکنے میں کون پاکستان کا ممدو معاون تھا کس نے
پاکستان کو اسلحے کے انبار دئے تھے ، کس نے جدید فوج کی تشکیل میں ہمارا
ہاتھ بٹا یا تھا اور کس نے ہمیں مالی مشکلات پر قابو پانے میں ہماری مدد کی
تھی ۔جب ہم بے یارو مدد گار تھے جب دنیا میں بالکل تنہا تھے مصائب و مشکلات
میں گھرے ہو ئے تھے اور ہمارا ازلی دشمن ہمارے وجود کو حرفِ غلط کی طرح
مٹانے پر بضد تھا اس وقت کوئی تو تھا جس نے ہمیں حوصلہ دیا تھا ہماری ڈھارس
بندھائی تھی اور ہمیں ڈٹ جانے کا پیغام دیا تھا۔ ۱۷۹۱ میں جب بھارت مشرقی
پاکستان کی فتح کے نشے میں بد مست ہو کر مغربی پاکستان کو ہڑپ کرنا چا ہتا
تھا تو کون تھا جس نے بھارت کو ایسا کرنے سے روکا تھا۔ بھارتی وزیرِ اعظم
مسز اندرا گاندھی اور اس کے چند عقابی وزرا پاکستان پر قبضہ کر کے دو قومی
نظریے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بحرِ ہند میں غرق کر دینا چاہتے تھے لیکن
امریکہ کی ایک دھمکی نے ان کے ارادواں پر اوس گرا دی اور یوں مغربی پاکستان
بھارے کی دست درازی سے محفوظ ہو گیا۔ اگر امریکہ اس وقت جرات کا مظاہرہ نہ
کرتا تو خدا جانے اس خطے کی اور ہماری حالت کیا ہو تی۔
آج ایک دفعہ پھر ہم دوراہے پر کھڑے ہیں اور وہ دوستی جو نصف صدی کا سفر طے
کر چکی ہے اس پر سوالیہ نشان لگا دئے گئے ہیں مذہب پرست طبقوں کی جانب سے
اگر پاک امریکی دوستی پر بوچھاڑ ہو تی ہے تو وہ قابل فہم بات ہے کیونکہ
انکی لغت میں تو تنقید اور بگاڑ کے علاوہ کچھ رکھا ہوا نہیں ہے۔ میڈیا کی
کہانیوں میں سوائے اپنی منفعت اور کمرشل ازم کے سوا کچھ نہیں ہوتا، انھیں
تو اپنی دوکانداری کے لئے کسی تازہ اور سنسنی خیز موضوع کی تلاش ہو تی ہے
اور جب مل جاتا ہے تو پھر نہ آﺅ دیکھتے ہیں نہ تاﺅ بس شروع ہو جاتے ہیں ان
کے نقطہ نظر سے ملکی سالمیت کا بیڑا غرق ہوتا ہے ان کی بلا سے انھیں تو بس
اپنی ما لی منعفت سے سرو کار ہوتا ہے۔ ان کے سنسنی خیزی انداز سے چونکہ ان
کے مالکان کی تجوریاں بھرتی رہتی ہیں لہٰذا وہ اپنا کھیل بڑی بے رحمی سے
جاری رکھتے ہیں لیکن وہ لوگ جو صاحبِ شعور ہیں اور ملکی حالات سے با خبر
ہیں اور عالمی امور پر انکی گہری نظر ہے جب وہ بھی سطحی اور جذباتی باتیں
کرتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے کیونکہ انھیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ پا کستان کی
بقا کن عوامل کی مرہونِ منت ہے۔
پاکستان کا قیام کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اسکے لئے لاکھوں لوگوں نے اپنی
جانوں کا نذرانہ دیا ہے تب کہیں جا کر آزادی کی صبح ہمارا مقدر بنی تھی ۔
اس صبح کے لئے ہمارے آ با ﺅ اجداد نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں لہٰذا ہم کسی
ایک فرد اور ادارے کو اس صبح کو خون میں لت پت کرنے کی اجا زت نہیں دے سکتے
۔ہمیں وطنِ عزیز کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے ہر ہاتھ کو جھٹکنا ہو گا
کیونکہ پاکستان ہمیں ہر رشتے سے زیادہ عزیز ہے۔ پاکستان کے دو بیٹوں کا قتل
کیا اتنا اہم ہے کہ اسکی خا طر اس ملک کی سالمیت کو داﺅ پر لگا دیا جائے۔
کیا ہم نے صدیوں پر محیط آزادی کی جو جدو جہد کی تھی، ہجرت کا جو کرب سہا
تھا اور پیاروں کی جدائی کا زہر پیا تھا اسے وطن کے دو بیٹوں کے انتقام کی
نذر کر دیا جائے۔ نہیں کبھی نہیں۔ وطن کے بیٹے ملکی سلامتی پر ہمیشہ قربان
ہو تے آئے ہیں اور جب تک پاکستان قائم ہے اسکی بقا کی خاطر قربان ہو تے
رہینگے۔ فیضان اور فہیم کی قربانی بھی اسی زمرے میں شمار ہو گی جو ہمیں
اپنی صفوں کو مضبوط بنا نے کا پیغام دیتی رہیگی لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم
اپنے ان دو نوجوانوں کے انتقام کی خاطر اپنے وطن کو نا قابلِ تلافی نقصان
پہنچا بیٹھیں۔
ہمیں ایک لکیر کھینچنی ہو گی جو وطن کی سلامتی کی ضامن ٹھہرے۔ ہمیں اس لکیر
کو کسی بھی حالت میں عبور نہیں کرنا کیونکہ اس لکیر کو پھلانگنا خود کشی کے
مترادف ہو گا ۔پوری قوم نے اپنے ردِ عمل سے حکومت کو واضح پیغام دے دیا ہے
کہ ریمنڈ ڈیوس قاتل ہے اور کسی رحم کا مستحق نہیں لیکن ہمیں دشمن پر جست
لگانے سے قبل اپنی طاقت کا صحیح اندازہ لگانا ہو گا کیونکہ غلط اندازے کی
جست بعد میں تبا ہی کا موجب بنتی ہے۔ سفارتی آداب اور استثنی کا معاملہ
کبھی بھی قومی سلامتی سے فائق نہیں ہو تا لیکن قومی سالمیت اور بقا ہمیشہ
دانش کا تقاضہ کرتی ہے جسے ہر حال میں ملحوظِ خاطر رکھنا انتہائی اہم ہے۔
سفارتی استثنی کا معاملہ حکومت کی راہ کا سب سے خطرناک کانٹا بنا ہوا ہے
کیونکہ یہ مطالبہ امریکی حکومت کی جانب سے بار بار دہرایا جا رہا ہے لیکن
دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنی راہ کے کانٹے کیسے چنتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے
مجرمانہ فعل کے بعد عوامی جذبات انتہا ئی خطرناک حدوں کو چھو رہے ہیں۔ لیڈر
شپ کا امتحان ہے کہ وہ بپھرے ہو ئے عوام کے جذبات کو کیسے قابو میں کرتی ہے
تاکہ کہ عوامی جذبات کی توہین بھی نہ ہو اور معاملہ بھی خوش اسلوبی سے سلجھ
جا ئے۔سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے دانشوروں کا قول ہے اور
حکومت کی دانش دانشوروں کے اس قول میں اپنی دانش کے رنگ بھر کر قوم کی صحیح
سمت میں راہنما ئی کا فریضہ سرانجام دے کر اس بلا کو ٹال سکتی ہے۔۔
ہمیں اس حقیقت کو کبھی نہیں بھو لنا چائیے کہ امریکہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے
میں انتہائی جذباتی ہے اور ریمنڈ ڈیوس کی جلد رہا ئی کا متمنی ہے ۔ ہمیں یہ
نہیں بھولنا چائیے کہ عراق کے معاملے میں جو کچھ بھی ہوا ہماری آنکھوں کے
سامنے ہے اور کل کی بات ہے۔ ا مریکہ نے اپنی ضد اور ھٹ دھرمی میں عراق کی
اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس کی سڑکیں اس کے پل اس کے کارخانے اس کی فیکٹریاں
اس کے بجلی گھر اور اس کے پل راکھ کا ڈھیر بنا دئے۔ اسکے قائد کو سرِ عام
پھانسی دے دی ۔اس کی معیشت اس کا امن اور اس کی یک جہتی کو تبا ہ و برباد
کر کے رکھ دیا گیا۔ یہی کچھ افغانستان کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ دانش کا
تقاضہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال کی سنگینی سے بچنے کی کوشش کی جا ئے کیونکہ
دنیا کی سپر پاور ا پنی ضد اور ہٹ دھرمی میں ہمارا حشر بھی ان اقوام جیسا
کر سکتی ہے۔پاکستان کا ازلی دشمن اس کے سر پر کھڑا ہے۔ وہ تو ایک اشارے کا
منتظر ہے کہ اسے ایک اشارہ ملے اور وہ اکھنڈ بھارت کے خواب میں ہمارے لہو
سے رنگ سجائے۔ہاتھی اگر بد مست ہو جائے تو پھر ا س سے الجھنا خود کشی کے
مترادف ہوتا ہے اور ہم اس وقت ایسی ہے کیفیت سے دوچار ہیں قیادت کا فرض ہے
کہ وہ قوم کو صورتِ حا ل کی سنگینی سے آگاہ کرے کہ فریقِ مخالف بڑا طاقتور
ہے اور اس سے ٹکراﺅ کی صورت میں کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ معاملات جذباتیت
کا نہیں بلکہ تحمل کا تقاضہ کر رہے ہیں لہٰذا ہمیں دانش مندی سے حالات کے
بہاﺅ کو روکنا ہو گا وگرنہ حا لات و واقعات اس نہج پر چلے جائیں گے جہاں پر
پچھتا وے کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔۔۔۔
یا رب میرے وطن کی زمینوں کی خیر ہو۔۔خستہ تنوں کی خستہ مکینوں کی خیر ہو
چاروں طرف سے اٹھا ہے طوفانِ رستا خیز۔۔اب ناخدا کی اور سفینوں کی خیر ہو
(ڈاکٹر مقصود جعفری) |