5 اپریل2019ء کادن جامعہ کراچی بالخصوص شعبہ اردو کے لیے
نہایت اہم رہا۔شعبہ اردو کے زیرِ اہتمام ”بیٹیاں پھول ہیں“ کی تقریبِ
پذیرائی منعقد کی گئی۔اس دن معروف صحافی، تر قی پسند شاعرکہ جس نے 2009ء
میں تمغہ حسنِ کارکردگی (یعنی پرائیڈ آف پرفارمنس)کو لوٹا دیا تھا۔ بقولِ
میرؔ ؎ پر مجھے گفتگو عوام سے ہے کے مصداق کہ مجھے حکومت کی نہیں عوام کی
پذیرائی چاہیے۔ شعرائے عصرکی پیروی کرنے کے بجائے اُس نے اپنی الگ روش
اختیارکی۔ چھ شعری مجموعوں کا کلیات شائع کرنے کے بجائے 401غزلوں اور49
نظموں کا 344 صفحات پر مشتمل انتخاب بعنوان’بیٹیاں پھول ہیں‘ مثال پبلشرز
فیصل آبادنے شائع کیا۔اس کا دیباچہ ’کلیات نہیں انتخابِ شام‘عصری ادبی
منظرنامے کے چشم کشا حقائق سے روشناس کرادیتا ہے۔اس انتخاب میں پورے
پاکستان کی کاسماج سانس لیتا ہے اورادبی اُفق کے روشن ستاروں کی روشنی میں
اسلاف کی علمی وادبی حوالوں سے طلباء کی پذیرائی کی داستان بھی ملتی
ہے۔گویا یہ انتخاب دوسری جنگِ عظیم کے بعد آنکھیں کھولنے والے اور
تقسیم،ہجرت اورسرد جنگ کے چشم دید محمود شام کی یادوں کی البم ہے کہ ہرعکس
سرِ مژگانِ چشم موتی ٹانکے ہوئے اورمسکان آنسوؤں کی نمی سے بوجھل پن لیے
ہوئے۔
جن کے ہاتھوں ہوئے محل تیّار
وہی گھر کے لیے ترستے ہیں
محمود شام کو کون نہیں جانتا؟؟اُن کا اصل نام طارق محمود ہے اورو ہ ادب
اورصحافت کے طارق ہیں یعنی کشتیاں جلا کر میدان میں آئے ہیں۔شخصی اعتبار سے
ہمارے روایتی زعماء کی ہوبہو تصویر ہیں شاید اب یہ آخری ہمہ جہت صحافی ہیں
کہ جن پر چراغ حسن حسرت، عبدالمجید سالک اورمولانا غلام رسول مہر کاگمان
کیا جاسکتا ہے کہ انحطاط کے اس دور میں محمود شام ہمیں میّسر ہیں۔عہدِ زریں
میں کیسے کیسے نابغے پیوندِ خاک ہوئے!!
؎ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
عوام کی پذیرائی کے متمنی محمود شام ہندوستان کے شہر راجپورہ میں پیدا
ہوئے۔سن 1940ء سے ان کی عمر اُناسی برس بنتی ہے اُناسی برس کے اس نوجوان
میں آج بھی کچھ کرگزرنے کا عزم،عمل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔معیار کے بعد
اطراف یہ دونوں رسائل محمود شام کی انفرادیت پر دال ہیں جب کہ ان کی شاعری
کے موضوعات عوامی ہیں اوراظہار میں بھی روزمرّہ پر قدرت پائی جاتی ہے۔
زندگی ہے پیڑ کا سایا نہیں
کیسے بیٹھو گے یہاں آرام سے
لاہور کی نظر ہو کراچی کی فکر ہو
میری غزل میں میرا وطن کیوں نہ سانس لے
تقریب کی صدارت معروف شاعرہ پروفیسر شاہدہ حسن نے کی۔ مہمانِ خصوصی محترم
محمود شام، مہمانِ اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن اورمیزبان صدرنشین،شعبہئ اردو
پروفیسرڈاکٹر تنظیم الفردوس تھیں۔تقریب کاآغاز ایم۔اے سالِ آخر کے طالبِ
علم الطاف حسین نے تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا بعدازاں ایم۔اے سالِ آخر کی
طالبہ مدیحہ ماہ نورنے ہدیہ نعتِ رسولِ مقبول ﷺ پیش کیا۔نظامت کے فرائض
ڈاکٹر ذکیہ رانی نے انجام دیے۔مقالہ نگاروں میں اساتذہ شعبہ اردومیں سے
ڈاکٹر صدف تبسم نے’محمود شام کی شاعری میں عصری حسیّت‘ عطیہ ہما صدیقی
نے’محمود شام روایت اورجدّت کاشاعر‘اور عائشہ نازنے’جدیداستعاروں
کاشاعرمحمودشام‘ اورشعبہ کی ریسرچ اسکالر ڈاکٹرنزہت انیس نے ’محمودشام
زمینی حقائق کاشاعر‘کے عنوان سے اپنے پُرمغز مقالات پیش کیے۔اس دوران
ایم۔اے سالِ اوّل کے طالب ِ علم میر سجاد حیدر نے نظم ’بیٹیاں پھول ہیں‘
حاضرین کو تحت الفظ میں سنائی۔بعدازاں صدرنشین،شعبہ اردو پروفیسرڈاکٹر
تنظیم الفردوس نے محمود شام صاحب کی شخصیت اورشاعری کے حوالے سے اظہارِ
خیال کرتے ہوئے کہاکہ شعری انتخاب ’بیٹیاں پھول ہیں‘صاحبِ انتخاب کی بیٹیوں
سے محبت کاغماز ہے اورمحمود شام صاحب کی خواہش پر اس تقریب میں ادبی
اورعلمی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی خواتین کو دعوتِ کلام
دی گئی ہے۔انھوں نے تقریبِ پذیرائی میں شرکت کرنے والے مہمانوں،شعبہ کے
اساتذہ و طلباء اورحاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ مہمانِ اعزازی معروف شاعرہ
ومحققہ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ محمود شام صاحب ہمیشہ سے اہلِ علم خواتین
کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں اورادب کے جمود کو توڑنے میں خواتین کا اہم
کردار رہا ہے۔اس شعری انتخاب پر مبارک باد دیتے ہوئے انھوں نے محمود شام کے
انتخاب سے نظم ’مُنی کی خواہش‘ اور ’میں سوچتی ہوں‘ بھی پڑھ کرسنائی۔
مہمانِ خصوصی محمود شام نے تالیوں کی گونج میں مائیک سنبھالا اوراپنی عمرِ
گزشتہ کوآواز دیتے ہوئے سیاسی،سماجی اورحسّی تجزیات کے جلو میں کلامِ شاعر
بزبانِ شاعر پیش کرکے داد سمیٹی۔
میں نہ ہوں گا تو یہ کالم تجزیے ہوں گے کہاں
پھر مرا واحد حوالہ شاعری رہ جائے گی
تقریبِ پذیرائی کی صدر معروف شاعرہ پروفیسرشاہدہ حسن نے محمود شام صاحب کی
غزلوں اورنظموں کا خصوصی تجزیہ پیش کیایقینا یہ مقالہ جب کبھی شائع ہوگا تو
محمود شام کی شعری قدروقیمت میں اضافے کا سبب ہوگا۔ تقریب کے اختتام پر
محمود شام نے اپنا انتخاب ’بیٹیاں پھول ہیں‘ صدرِ مجلس کی نذر کیا۔صدرِ
مجلس پروفیسرشاہدہ حسن نے گلہائے تہنیت مہمانِ خصوصی کو،ڈاکٹر فاطمہ حسن
صاحبہ نے محمودشام صاحب کی نصف بہترمحترمہ بلقیس شام کو گلدستہ پیش کیا۔
یادگاری تصویروں کے ساتھ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔بقول محمود شام
اب تو بیٹے پرائے ہوتے ہیں
صرف رہتی ہیں بیٹیاں اپنی
”بیٹیاں پھول ہیں“ کی تقریبِ پذیرائی پر میں انھیں دل کی گہرائیوں سے
مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
وہ ڈراتے ہیں یوں خدا سے مجھے
جیسے میرا کوئی خدا ہی نہیں |