ٹھل کلستان مشاعرہ
رشحات قلم : سیف علی عدیل
گزشتہ روز ایک ٹھل کلستان مشاعرہ جو اردو ادب کی تاریخ میں پہلا باضابطہ
ڈھولا مشاعرہ تھا ریکارڈ کے حساب سے راقم وہاں بطور مہمان شرکت کے لیے
انتہائی اصرار کے بعد اور اپنی بے حد مصروفیت سے کچھ وقت نکال کر وہاں پر
وارد ہوا مگر وہاں پر موجود لوگوں کی نابینا محبت کی بدولت مجھ ناچیز کو
بھی ٹھل کلستان مشاعرے کی میزبانی کا کرب بخشا گیا بڑے بڑے ماٹھے مشاعرے
سنے اور بڑےبڑے شاعر بھی سنے ہوئے تھے مگر آج اتفاق دیکھئے مخلوق خاک کی
صدارت میں سجایا گیا یہ ٹھل کلستان مشاعرہ جو کہ سابق صدر ممنون سے بھی
زیادہ بااختیار صدر کی صدارت میں رقم ہو رہا تھا مشاعرہ اپنی آب و تاب پر
اور دور دور متعدد مسخروں سمیت لوگ مشاعرہ مشاعیروں کو دیکھنے کےلئے جمع ہو
چکا تھے پنڈال سج چکا تھا رہی سہی کسر ان کے ساتھ بیٹھے دشمن نان صاحب نے
کچھ ایسے پوری کی کہ انہیں اپنی بیس کتابوں میں لکھی ہوئی بے ترتیب غزلوں
کی اہمیت سے نہ صرف انہیں آگاہ کیا بلکہ ان کے بیٹھنے کے انداز سے یوں
محسوس ہورہا تھا کہ وہ تھوڑی دیر کے بعد ان کی جھولی میں جا بیٹھیں گے اور
ان سے دست بستہ درخواست کریں گے کہ ایک بار میری کتابیں دیکھیں ضرور خیر ان
سے ہاتھ جوڑ کر ان کے کانوں میں چلتے مشاعرے کی آواز ہی نہ پڑھنے دے رہے
تھے اور اردو ادب کی تاریخ کا یہ پہلا باضابطہ مشاعرہ تھا جس میں کسی کے
آنے اور جانے اور بٹھانے کی ترتیب تھی نہ ترکیب بس کچھ لوگوں کے مقدر کو
آزمانے کے لیے اس مشاعرے کا انعقاد لازم قرار پایا کااس ٹھل کلستان مشاعرہ
کی طنابیں لھینچ کر صاحب شفقت نقیب کے ہاتھ میں کچھ ایسے دیں کہ وہ شاعر کو
بلانے کے بعد شرمندہ ہو جاتے کہ اور اکیلے ہی کچھ داد کی خیرات بھی کر تے
رہے اور ان کے چہرے کا کرب سامنے سے صاف نطر آرہا تھا اور دل ہی دل میں دعا
کر رہے تھے کہ انہیں کہیں سے کوئی بلانے آجائے اور وہ جلدی کہیں چلیں جائیں
اور تاریخ بے ضابطہ تماشا کی نقابت سے ان کی جان خلاصی ہوجائے ّیار رہے یہ
ذاتی احساسات ہیں،، اور ساتھ اس بات کا سختی سے نوٹس بھی لیا کہ آپ کا شہر
ٹھل کلستان مشاعرے کے نقشے پر نظر نہیں آنا چاہیے اور اس مشاعرے کے آغاز سے
اندازہ ہوا کہ مشاعرہ نہیں ہو رہا لکی ایرانی سرکس کی ٹکٹیں بانٹیں چا چکی
ہیں اب تمام مسخرے اپنااپنا تماشا دکھائیں گے اور ایک بات جس کی جتنی
واقفیت تھی وہ اپنے واقفان کو اسٹیج پر بٹھانے میں کامیاب ہو چکے تھے اور
جینوئین قسم 6شاعر اس تماشے کے شروع ہونے سے پہلے اس کو بھانپ کر اپنی
لنگوٹیاں ہاتھ میں کسے وہاں ہو لے ہولے ہو لئے . مزے کی بات یہ ہے کہ اس
ٹھل کلستان مشاعرہ اندازہ تب ہوا جب ایک شاعر نے میرے کان میں آکر کہا جناب
کلام میں نے اردو میں پڑھا ہے اور سامنے بیٹھی ہوئی مخلوق نہیں مجھے لگتا
ہے مفلوق الحال کوئی زبردستی بیٹھائی ہوئی خلائی مخلوق ہے سامنے ایسے پر
تپاک اور انہماک سے دیکھ رہے ہیں کہ جیسے ان سے کسی نے کہا ہو کہ آپ کے سر
پر سنہری پرندے بیٹھ چکے ہیں اگر آپ بولے تو اڑجائیں گے میں نے ہنس کر
مشاعرے کی کارروائی کا بھی اندازہ لگانا شروع ہی کیا تھا کہ صاحب شفقت مجھ
پر قہر بن کر ٹوٹ چکا تھا اور میرے سامنے بیٹھے لنگر بردار شاعر نے کہا
آثار بتاتے ہیں کہ یہ عذاب آپ پر نازل ہو گا میرے قدم ڈگمگانے لگے اور میں
بے ساختہ اسٹیج کی طرف بڑھنے لگا صاحب شفقت نے مجھ ناچیز کو اس تماشہ کی
میزبانی کے لیے پکارا تو پھر کیا میری زبان سے لفظ نکلا کہ میں میں
،،ناکارہ ،،،،،میں نہیں بس یہی الفاظ میرے حلق سے نکلے اور وقت کی نزاکت کو
دیکھتے ہوئے پھر میں کسی اور منظر کا نظارہ کرنے لگا کہ مخلوق خاک کی صدارت
میں یہ اس ستارے زمین کا پہلا بے ضابطہ ٹھل کلستان مشاعرہ تھا جسے لوگ
دیکھنے آئے ہوئے تھے بہرحال میں فرمایا جا چکا تھا تو اس تماشے میں آنے کی
خبر نہ تھی سو دعوت بھی نہ تھی تو اس کا میزبان زبردستی طور پر مجھے بنایا
گیا مجھے یوں لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کی نابینہ محبت کسی ایسے ہی وقت کی تلاش
میں تھی کہ اس غیر سنجیدہ ٹھل کلستان مشاعرہ کا کریڈٹ مجھے دے دیا جائے -
کچھ لوگوں کو یہاں پر ذلیل کرنے کے لیے مسخروں کے ساتھ لاکر بٹھا دیا گیا
پرانےزمانوں میں میلے ٹھیلے لگا کرتے تھے جہاں پر ناچنے والے مسخرے ،شاعر
اور دیگر لوگ اپنا اپنا تماشا لگا کر بیٹھے ہوتے اور زندگی سے دور اآج ایسا
ہی کچھ ہوا کہ ٹھل کلستان مشاعرہ میں متعدد شعرا کو ذہنی کوفت دی گئی کہ جب
ان کے ساتھ مسخروں کو لا کر بیٹھایا گیا اور سامنے پاو ر لومز کے مزدوروں
کو ....
سو تماشے کا انعقاد ہوچکا تھا حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مشاعرہ دیکھنے والوں
کی آنکھوں میں جب دیکھا تو مجھے شاعری سناتے ہوئے نہ صرف شرم آئی بلکہ اس
چیز کا اندازہ ہوا کہ آج بھرپور وقت ضائع ہوا ہے چند لمحوں میں انداز ہو
چکا ہے تھاھ کہ یہاں سے لوگ تاک رہے تھے یا جھانک رہے تھے سخت گرمی میں
اپنی ٹانگوں میں ہاتھ چھپائے ہوئے تھے کہ کہیں یہ اوپر نہ اٹھ جائیں خیر
ایک پوری کہانی ہے جس کو فرصت میں فلمایا جائے گا اور اس کو خراج پیش کیا
جائے گاتمام اخباری ریکارڈ کے مطابق جن27شعرا کو میزبان بنا کر پیش کیا گیا
وہ اس کے میزبان نہیں تھے کچھ کی صحافتی مجبوریاں تھیں کہ اخبار کی چھپوائی
کا خرچ انہیں مل چکا ہے اور کچھ رقم بھی انہیں دے گئی جس کے ان کا اور ان
کے دوستوں کا منو رنجن ہوتا رہا ....اور وہ اتنے بے بس تھے کہ سامنے بیٹھے
ہوئے سو رہے تھے اور کچھ اپنے دوستوں کو خود ہی ہار پہننا پہنا کر بتا رہے
تھے کہ مشاعرہ ہم کروا رہے ہیں خیر چند شعراکی بجائے وہاں پر90فیصد ترکھان
مسخرے موجود تھے اور انہیں ملک کے کونوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر بلوایا گیا تھا
میری اطلاعات کے مطابق انہیں کبھی کسی سنجیدہ مشاعر ے میں مدعو نہیں کیا
جاتا بقول استادِ محترم مسخرہ دبئی سے آئے یا پاکپتن سے وہ مسخرہ ہی ہوتا
ہے مخلوق خاک جس اذیت میں مبتلا رہے اس کا ذکر بھی پھر کبھی کیا جائے گا
راقم کے سامنے بیٹھے ہوئے بیسوں کی تعداد میں اصلاح لینے والے بمعہ سرپر ست
اعلیٰ ذرا بھی شرمنہ ہ نہ ہوئے جب زبردستی اسٹیج پر بلوا لیا گیا اور
نابینہ محبتوں کا اظہار کرتے ہوئے میزبانی گلے میں ڈال کر انتہائی غیر
سنجیدہ ماحول اور غیر سنجیدہ لوگوں کے سامنے جوتا گیا وہاں پر بیٹھے تمام
شعرا نے کہا کہ آج ہمارے ساتھ یہ کیسا ظلم ہوا ہے .یا ہمارا چیزا لیا گیا
ہے ..کچھ سمجھ نہیں آرہا خیر تماشا لگ چکا ہے اس پر عروج زوال آتا رہا ہے
سجید ہ شاعر ایک دوشعر پرھ کر جان بخشی کرواتے رہے جن اداکاروں اور مسخروں
کے لئے تماشا سجا ہوا تھا بقول ان کے کہ ہم ایسے ادارکار ہیں کہ مشاعرے کو
جب چاہیں جس طرف چاہیں لے جائیں اسٹیج پر بیٹھے ہوئے بھی ہم اداکاری سے کسی
شاعر کو سننے نہیں دیتے اور جب خود آلہ گفتار پر منہ رکھتے ہیں تو محفل کو
اپنی اداکاری کا گرویدہ بنا لیتے ہیں کہ شاعر ی سمجھنے اور سننے کی کسی کو
ہو ش نہیں رہتی اور دیکھنے والوں کی نطروں میں نظریں ڈال کر انہیں مشاعرہ
دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اتنی داد دیتے ہیں کہ آنے والے شاعر کےلئے
مشاعر ہ پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے وہاں مسخرے میں آئے ہوئے شعرا نے کہا کہ آج
بھر پور وقت ضائع ہوا ہے اور آج پتہ چلا کہ لوگ ادب کے ساتھ کیسے گھنائونا
مذاق کر رہے ہیں اور ادب کی کمان ان کے ہاتھ میں جن کو تلازمہ کاری کے
معتلق بھی نہیں معلوم اور ان سے شعرا کو ڈگریاں دی جائیں گے اس خبر شعر ا
میں سنگین قسم کے خدشات جنم لے چکے ہیں جنہوں نے اس ٹھل کلتسان مشاعرے کی
سہرا بندی کروائی تھی ان کے اپنے کلام میں تقریباً 5 مصرعے بے وزن تھے اور
دشمن، نان نے اردو میں کمزور ترین شعرا کے لئے جتنی رعاتئیں موجود ہوتی ہیں
وہ استعمال کر کے اپنے تشخص ہو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اپنے ہاتھوں
اپنے ادیب ہونے کا گلہ گھونٹ دیا صاحب زلاگان نے ایک لمحہ بھی شرمندگی
محسوس نہیں خیر میں نے وہاں جتنا وقت گزارا انتہائی کوفت میں وقت گزارا
شاعر اس تماشے میں اپنے شعر سناتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوئے کہ میں جانتا ہوں
کہ آپ کی کسی شعر کی سمجھ نہیں آہی مگر جس شعر کی سمجھ نہ آئے اس کی زیادہ
داد دیتے ہیں کہ تا کہ آپ کا بھرم رہ جائے خیر اپنا بھرم رکھنے کےلئے اور
ندمات میں مبتلا جناب مخلوق خاک نے شاعر سے وہی شعر پھر سننے کےلئے گزار ش
کی تو شاعر نے انتہائی غصے کے ساتھ وہ شعر پڑھ کر اجازت لے لی .....شاعر نے
کچھ وقت کےلئے ایسا محسوس کیا کہ وہ ایک گنہگار ہے اور اس خلائی مخلوق کی
عدالت میں پیش ہے جنہں اردو نہیں آتی یہ کسی اور زبان کو سمجھتے ہیں میرے
غصے کی حالت تب اس سے بھی زیادہ ہو چکی ہے کہ جب ایک پاکستان کے نامور شاعر
نے کہا کہ معافی چاہتا ہوں کہ میں کوئی اداکار یا گلو کار نہیں
..........بس کیا کہ کوئی بھی شرم سے پانی پانی نہ ہوا اور انہوں نے ایک دو
شعر سنا کر اپنی حاضری لگوائی اور چلے گئے .جب مخلوق خاک کی بھاری آئی تو
تب تک ان کا سر بھاری ہو چکا تھا اور وہ معافی مانگ چکے تھے کہ آئندہ قسم
لے لیں ایسے کسی تماشے کا حصہ نہیں بنوں اور اٹھاتا ہوں کہ آج کہ بعد میں
شاعر نہیں ہوں اور مجھے بطور شاعر ایسے کسی مشاعرے میں مدعو نہ کیا جائے
جہاں شاعر نہیں مسخرے ہوں خیر پاکستان کے سب سے بڑے مسخر ے نے اس مسخرے ہو
بھر پور طریقے کامیاب بنانے کےلئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائیں
اس ٹھل کلتسان مشاعرہ کی کامیابی کی ان تمام گیٹ بردار ،اور لنگر بردار اور
اشتہار بردار اور لسٹ بردار میزبانی کو مبارک باد ....اس ٹھل پاکستا کی کم
ازکم ایک سو قسط ہو گی دیکھنا پڑھنا نہ بھولئے گا ...
آج تو آنکھوں سے اردو پہ مصیبت دیکھی
میں نے یاں روتی خدا قسم ندامت دیکھی |