رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

 چند دن پہلے حکومت نے 22سال بعد شراب خانہ خراب کا باقاعدہ اجازت نامہ دیاہے جس پرکافی لے دے بھی ہوئی پھر ماحول میں سکوت طاری ہوگیا برسوں پہلے مرزا غالب نے کہا تھا
قرض کی پیتے تھے اور اس سوچ میں گم تھے
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی الٹا عدم ادائیگی کے باعث ان پر قرض خواہوں نے مقدمہ کردیا مرزا غالب کو ایک انگریز مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا حالات وواقعات سننے کے بعد انگریز مجسٹریٹ فیصلہ سنانے لگا تو مرزا غالب نے اس سے کہا تسلیم کرتاہوں میں نے قرض دیناہے لیکن جناب مجھ سے کچھ رعائت برتی جائے کیونکہ میں آدھا انگریزہوں۔ مجسٹریٹ نے تجسس سے دریا فت کیا ۔۔وہ کیسے؟
میں شراب پیتاہوں مرزا غالب نے اطمینان سے جواب دیا سو ٔ رنہیں کھاتا ۔۔ یہ سن کر وہ بے ساختہ ہنس دیا اور مرزا غالب کو قرض چکانے کیلئے مزید مہلت دیدی۔ہمارے ملک کے کئی مے نوش اس لئے اتراتے پھرتے ہیں کہ وہ آدھے انگریزہیں اگر وہ ارکان ِ اسمبلی ہوں تو پھر سونے پر سہاگے والی بات ہوئی نا۔۔ویسے ماضی میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے ایم این اے جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجزمیں شراب و شباب کی محفلیں اورمجروں کی بات کرکے اقتدارکے ایوانوں میں تھر تھلی مچادی تھی جس پر کئی وضاحتیں پیش کی گئیں پھر مقدس پارلیمنٹ سے متعددبار شراب کی خالی بوتلیں بھی پکڑی گئیں لیکن اسے بھی معمول کی بات جان کر نظراندازکردیا گیا کچھ اندر کے لوگوں کا کہناہے کہ وہ لوگ بھی شراب کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جو پانی کی طرح پیتے ہیں
غالباً ایسی ہی صورت ِ حال پر غالب نے ہی کہا تھا
یہ مسائل ِ تصوف اور تیرا بیان غالب
ہم تجھے ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوارہوتا
کہتے ہیں ایک لڑکی کی شادی ہوئی وہ 15دنوں بعد میکے آئی اور آتے ہی دھاڑیں ما مارکر رونا شروع کردیا ماں باپ نے پریشان ہوگئے
’’مجھے آپ نے کس کے پلے باندھ دیا؟
’’آخرہوا کیاہے؟ ماں نے پو چھا
’’میرا خاوند بہت بڑا شرابہ ہے۔لڑکی نے آنسو پوجھتے ہوئے جواب دیا
’’تجھے اب اپنے دنوں بعد پتہ چلاہے۔ باپ نے سخت لہجے میں کہا
’’ہاں۔۔لڑکی نے روتے روتے کہا کیونکہ آج وہ پئے بغیرگھر آگیا تھا ۔کہتے ہیں پاکستان میں روزانہ کروڑوں کی شراب پی جاتی ہے اور پینے والوں میں ہر عمر ہر جنس کے لوگ شامل ہیں راولپنڈی کی ایک شراب سازفیکٹری دن رات دھرا دھڑ شراب تیار کررہی ہے۔ سالانہ کروڑوں اربوں کی ولایتی شراب بھی امپورٹ کی جاتی ہے سمگل ہوکر آنے والی بڑی کھیپ الگ ہے اس کے علاوہ ملک بھر میں غیر قانونی طور دیسی شراب بھی ٹنوں کے حساب تیار اور فروخت ہوتی رہتی ہے کچی شراب پینے سے ہر سال سینکڑوں افرادکی ہلاکت کے باوجودقانون وقتی طورپرحرکت میں آتاہے اور کئی پولیس اہلکاروں کو مالامال کرکے پھر سو جاتاہے شنیدہے کہ پاکستان میں ویلنٹا ئن ڈے،ہیپی نیو ایئر،کرسمس، بسنت اور عیدین جیسے تہواروں پرشراب کی کھپت میں اضافہ ہو جاتاہے شاید پینے والے یہ سوچ کر پیتے ہیں
آگے چل کر حساب ہونا ہے
اس لئے بے حساب پی لیجئے
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب نے حرمتِ شراب کا جو حکم دیا ہے و ہ سر آنکھوں پر ! لیکن یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے شراب۔شراب ہوتی ہے اور یہ ہمیں تو کچھ نہیں کہتی ۔لیکن وہ یہ بات کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے ایک سابق وزیر ِ اعظم نے بھی’’ پینے‘‘ کا بر ملا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۔ہاں پیتاہوں۔۔۔ تھوڑی سی پیتا ہوں۔۔۔قوم نے ان کی اس غلطی کو معاف نہ کیا
یہ اپنی مستی ہے جس نے مچائی ہے ہلچل
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
کا عقیدہ رکھنے والے یقینا غلطی پر ہیں مذہب، اخلاق، قانون اور معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی مسلمان شرابی ہو،ارکان اسمبلی تو پھر عوام کے منتخب نمائیدے ہیں جن کا کردار رول ماڈل ہونا چاہیے برسوں پہلے جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجزمیں شراب و شباب کی محفلوں اورمجروں کا انکشاف کیا تھا اس کی صاف، شفاف ،غیرجانبدار طریقے سے ان الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں کیا ہوا؟ نہ جانے کیوں؟ ہمیں یقین ہے آج بھی پارلیمنٹ لاجز،اسمبلی کے ہوسٹلز اور بااختیار شخصیات کے دفاترسے شراب کی ڈھیروں خالی اور بھری بوتلیں برآمدکی جا سکتی ہیں یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں جتنا نظرآرہاہے اس لئے مٹی پاؤ والا فلسفہ کسی بھی لحاظ سے درست نہ ہوگا اسلام کی حد اورپاکستان کے آئین کی روشنی میں ایسے تمام بااختیارلوگوں کو ہر قسم کے عوامی عہدے اور سرکاری و غیرسرکاری ملازمتوں کیلئے نااہل قرار دیا جائے یہ حکومت کی اخلاقی، قانونی اور آئینی ذمہ داری ہے اور پارلیمنٹ جیسے قانون ساز ادارے میں شرابیوں کی موجوگی خطرے کی گھنٹی ہے یہ بااثر لوگ یقینا کبھی ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ نہیں ہونے دینگے ان کی موجودگی 22کروڑ عوام کی توہین اور اسلامی تعزیرات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اس کا مطلب ہے ہم شرابیوں کے رحم وکرم پر ہیں ورنہ حکومت کو نیاشراب خانہ کھولنے کی کیا ضروت تھی؟ شاید ان کا بھی یہی نقطہ ٔ نظر ہو
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
بتائیں آپ کا کیا خیال ہے؟

Ilyas Mohammad Hussain
About the Author: Ilyas Mohammad Hussain Read More Articles by Ilyas Mohammad Hussain: 474 Articles with 398900 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.