ہوس کا یہ شاخسانہ ہے کہ انسان کے نصیب سے چین چھن جا تا
ہے ۔ انسانی جبلت اپنی تمام تر حقیقتوں کے شواہد کا فہم و ادراک ہونے کے
سبب بھی خسارے کی طرف اُٹھنے والے قدم نہیں روک پاتی وجہ صرف یہی ہے کہ
خواہشاتِ نفسانی اخلاقیات کے تمام تر تقاضوں کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے خالق
کی بجائے خود کو ہی خُدا بنالیتی ہیں۔ انسان اپنے اُس منصب سے خو د کو
محروم کر دیتا ہے جو خالق نے اُسے تخلیق کے وقت عطا کیا ہوتا ہے۔ انسان
اپنے رب کی بجائے اپنی انا کاا سیر ہو کر اپنے ایمان کی تباہی میں کو ئی
کسرنہیں چھوڑتا۔ ایمان کی رخصتی کے ساتھ ہی انسان کااپناوجود اُس کے لیے
بوجھ بن جاتا ہے۔ انسان خودکو اپنے رب کی حفاظت سے نکال کر خود کو اپنے نفس
کے سپُرد کر دیتا ہے۔ انسان پھر اپنے رب کا نہیں رہتا وہ تو اپنی خواہشات
اور اپنی سطعی سوچ کا غلام بن جاتا ہے۔اِسی طرح پھر انسان جن نگاہوں کا خود
کو تارا گردانتا ہے وہ لوگ بھی وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی فطرت سے آشنائی کے
بعد اُس کو چھوڑتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے شخص کی حالت ایسے درخت کی مانند
ہوجاتی ہے۔ جس پر نہ تو کبھی ہریالی آتی ہے اور نہ ہی وہ کبھی سایہ شجر دار
بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایسا شخص صرف اپنی زندگی
کے سب سے اہم سوال پر غور کرلے کہ اُس کے وجود کو اِس دُنیا میں کیوں تخلیق
کیا گیا ۔عقل سلیم کام نہیں بھی کرتی تو عقل کے تقاضوں کو چھوڑ کر اپنی روح
سے ہی اِس سوال کا جواب پوچھ لے۔ اربو ں کھربوں ڈالر کی کرپشن کرکے غریب
عوام کو لہو نچوڑنے والے نام نہاد سیاستدان، بیوروکریٹ، سابق جرنیل ذرا
اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کیا انھیں اِس تحریر میں کہیں اپنا عکس
نظر آرہا ہے یا نہیں۔
عمران خان کی حکومت کے تیور اب مکمل طور پر عیاں ہوچکے ہیں نہ تو حکومت کے
پاس کوئی ویژن ہے اور نہ ہی اچھی ٹیم۔ عمران خان نے گزشتہ چار دہایوں سے
قائم" اسٹیٹس کو " توڑنے کے لیے دو دہایوں تک سخت محنت کی اور یوں قوم کو
نئی اُمنگ کا حامل بنا کر چھوڑا۔ یوں مقتدر حلقوں نے بھی عمران خان کو
آزمانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ نواز شریف کے بُرئے دن شروع ہوئے اور اِس کے
ساتھ ساتھ زرداری بھی اِسی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔ لیکن عمران خان کی حکومت
کی سمت درست نہیں جارہی ہے۔ عمران خان اور اُس کے وزراء کی جانب سے مسلسل
پُرانی حکومتوں کا رونا رونا اور عوام کی زندگی کو اُجیرن بنائے رکھنا ۔ یہ
ہے گُڈ گورنس جناب خان صاحب کی۔ پٹرول کا ہولناک بم گردایا ہے ۔ عمران خان
کی نیت پہ کوئی شک نہیں لیکن عوام کو تو ظلم ہی سہنا پڑ رہا ہے۔ جس طرح
نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے کندوں پر چڑھ کر قوم کے ساتھ تین دہایؤں تک رہے ۔
اب یہ الگ بات ہے کہ معاشی حالت کیسی ہے۔ نواز شریف نے جیسے ہی خود کو مدبر
سمجھنا شروع کیا اور اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دیکھانا شروع کردیں۔ یوں نواز
شریف کا زوال شروع ہوگیا ۔ لیکن عمران خان کی مسلسل آٹھ ماہ کی حکومت نے
بھی "اُن" کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ عمران خان سے ملک سنبھالا نہیں جا
رہا ہے۔ مہنگائی ہے کہ تھم ہی نہیں رہی۔ بجلی گیس، ڈالر، پٹرول بم سب کچھ
تو عوام پر قہر بن کر گر رہے ہیں۔ عوام بے چاری کو مانیٹری و فسکل پالیسیوں
سے کیا غرض ۔ اُنھیں اِس سے بھی کوئی غرض نیں کہ افراط زر کی شرح کیا ہے۔
عوام معاشی استحکام کے اشاریوں کے لفظی گورکھ د ھندوں سے بھی نابلد ہیں ۔
اُنھیں تو اتنا پتہ ہے کہ عمران خان کے بڑئے بڑئے دعوے زمیں بوس ہوچکے ہیں۔
عمران خان کے پاس معاشی ٹیم نہ ہے ۔ ممی ڈیدی ماحول کے پروان چڑھے ہوئے
اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے بنائے گئے مشیر وزیر ہوا میں گھوڑے دوڑا رہے ہیں
اور قوم کے حال اور مستقبل کے ساتھ مس ایڈوینچر میں مصروف ہیں۔ یہ وزیر ،
مشیر خود کو کوئی اوتار سمجھ بیٹھے ہیں لیکن عوام کی حالت وہی ہے شودر سے
بھی بد تر۔ اسٹیبلشمنٹ جب کسی بھی سیاستدان کی حمایت کرتی ہے تو وہ اِس بات
کو پیش نظر رکھتی ہے کہ ملک کی عوام اور اُس کے معاشی معاملات کو مستحکم
طور پر سنبھالا دیا جائے۔
افسوس موجودہ حکومت نے عوام کو نواز شریف کی یاد دلا دی ہے۔ عوام کے لیے
تبدیل ڈارونا خواب بن کر رہ گیا۔ امن و مان کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ گڈ
گورنس نام کی چیز حکومت میں ہے نہیں۔ نوکر شاہی میں بے چینی عروج پر ہے۔
انتہائی شریف النفس عثمان بزدار نے خاموشی کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے اراکین
کی تنخواؤں اور اپنی مراعات میں اضافے کے لیے جو کچھ بھی کیا وہ یقینی طور
پر وسیم اکرم پلس کا کیا دھرا ہی ہوسکتا ہے۔دوسری جانب نواز شریف کی چھ
ہفتے کے لیے ضمانت۔ شہباز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالے جانے کا
حکم ۔مریم نواز کے مقتدر حلقوں سے رابطے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ نوازشریف کی
مشکلات کے دن ختم ہونے کو ہیں۔ عوام کو معاشی طور کوئی ریلیف نہ دئیے جانے
اور بلکہ مہنگائی بم گرائے جانے کے بعد عمران خان کو اب تبدیلی کے نام کو
اپنی زبان پر نہیں لانا چاہیے۔ عوام کو پوری قوم سے معافی مانگ کر اور اُن
سے جن کے کہنے پہ ق لیگ، ایم کیو ایم، آزاد عمران خان کے ساتھ ملائے گئے
تھے اُن سے بھی معافی مانگنی چاہیے۔ اسد عمر، جیسے معاشی مشیر کو فوری طور
پر فارغ کر دینا چاہیے۔
پولیس ریفارمز کہاں گیئں۔ غریب کل بھی بے آسرا تھا آج بھی اُس کی حالت بھی
ایسی ہی ہے۔ عوام شہباز شریف کو یاد کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کا موازنہ
شہباز شریف سے کیا جارہا ہے۔ بچارے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ
عمران رے عمران تیری کون سی کل سیدھی۔ مہنگائی کا طوفان ہے اور ہم ہیں
دوستو۔آرمی چیف کو چاہیے کہ فوری طور پر تمام قومی حکومت کے قیام کا اعلان
کرئے اور اپنی فیلڈ کے ماہرین کو اور کرپشن سے پاک سیاستدانوں، بیوروکریٹوں
کو حکومت میں شامل کرئے۔اور کرپشن کی رقم خواہ وہ زردار ی کے پاس ہے یا
شریف خاندان کے پاس کسی کے پاس بھی اُن سے چھین لی جائے۔عوام مہنگائی کے
ہاتھوں بے حال ہوچکے ہیں۔ اسد عمر کی نالائقی کی وجہ سے عوام ڈار کو یاد کر
رہے ہیں۔
|