اظہار ِ حق کاپہلا اعلان
جب قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی : وانذرعشیرتک الاقربین توآپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے کوہِ صفا پر چڑھ کر بُطُونِ قریش کو آواز لگانی شروع کی ،اے بنی
فہر ! اے بنی عدی ! یہاں تک کہ سب کے سب اکٹھا ہوگئے حتیٰ کہ اگر کوئی آدمی
خود نہ جاسکتا تھا تو اس نے اپنا قاصد بھیج دیا کہ دیکھے معاملہ کیا ہے
․․․؟غرض قریش آگئے ،ابو لہب بھی آگیا ۔اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا : تم لوگ یہ بتاؤ ! اگر میں یہ خبر دوں کہ ادھر وادی میں شہسواروں
کی ایک جماعت ہے جو تم پر چھاپہ مارنا چاہتی ہے تو کیا تم مجھے سچا مانو
گئے ․․․؟لوگوں نے کہا ہاں !ہم نے آپ پر سچ ہی کا تجربہ کیا ہے ۔پھر آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تو میں تمہیں ایک سخت عذاب سے پہلے خبردار
کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔اس پر ابولہب نے کہا تو سارے دن غارت ہو تو نے
ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا ۔بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ ابولہب نے
کوہِ صفا پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کامارنے کے لئے ایک پتھر بھی اٹھایا تھا
(ترمذی)
یہ بانگِ دَرا غایت تبلیغ تھی ۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے قریب ترین
لوگوں پر واضح کردیا تھا کہ اب اس رسالت کی تصدیق ہی پر تعلقات موقوف ہیں
اور جس نسلی اور قبائلی عصبیت پر عرب قائم ہیں وہ اس خدائی اِنْذار کی
حرارت میں پگھل کر ختم ہوچکی ہے ۔
حق کا واشگاف اعلان
اس آواز کی گونج ابھی مکہ کے اطراف میں سُنائی ہی دے رہی تھی کہ اﷲ تعالیٰ
کا ایک اور حکم نازل ہوا : فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین( ۱۵:۹۴)’’ آپ
کو جو حکم ملا ہے اسے کھول کر بیان کر دیجئے اور مشرکین سے رُخ پھیر لیجئے
۔‘‘اس کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شرک کے خرافات وابا طیل کا پردہ
چاک کرنا اور بُتوں کی حقیقت اور قدر وقیمت کو واشگاف کرنا شروع کردیا۔آپ
مثالیں دے دے کر سمجھاتے کہ یہ کس قدر عاجز وناکارہ ہیں اور دلائل سے واضح
فرماتے کہ جو شخص انہیں پوجتا ہے اور ان کو اپنے اور اﷲ کے درمیان وسیلہ
بناتا ہے وہ کس قدر کُھلی ہوئی گمرائی میں ہے ۔اہلِ مکہ ایک ایسی آواز سُن
کر جس میں مشرکین اور بت پرستوں کو گمراہ کہا گیا تھا ۔احساس ِ غضب سے پھٹ
پڑااور شدید غم وغصہ سے پیچ وتاب کھانے لگا ،گویا بجلی کا کڑکا تھا جس نے
پُر سکون فضا کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔اسی لئے قریش اس اچانک پھٹ پڑنے والے
’’انقلاب ‘‘کی جڑکاٹنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ اس سے پُشتینی رسم ورواج
کا صفایا ہوا چاہتا ہے ۔قریش اُٹھ پڑے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ غیر اﷲ کی
اُلوہیت کے انکار اور رسالت وآخرت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ
کو مکمل طور پر اس رسالت کے حوالے کردیا جائے اور اس کی بے چون وچراں اطاعت
کی جائے ،یعنی اس طرح کہ دوسرے تو درکنار خود اپنی جان اور اپنے مال تک کے
بارے میں کوئی اختیار نہ رہے گا ۔اور اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرضی
کے مقابل میں انھیں اپنی مرضی پر عمل پیرا ہونے کا اختیار نہ رہے گا ۔قریش
اس مطلب کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے اس لئے ان کی طبعیت اس ’’رسواکن ‘‘
پوزیشن کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھی ۔قریش یہ سب کچھ سمجھ رہے تھے لیکن
مشکل یہ آن پڑی تھی کہ ان کے سامنے ایک ایسا شخص تھا جو صادق وامین تھا ،انسانی
اقْدار اور مَکارم اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھا اور ایک طویل عرصے سے اُنہون
نے اپنے اباؤاجداد کی تاریخ میں اس کی نظیر نہ دیکھی تھی ۔آخر اس کا
بالمقابل کریں تو کیا کریں قریش حیران تھے اور انہیں واقعی حیران ہونا
چاہئے تھا ۔ کافی غورو خوض کے بعد ایک راستہ سمجھ میں آیا کہ آپ کے چچا ابو
طالب کے پاس جائیں اور مطالبہ کریں کہ وہ آپ کو اس کام سے روکیں۔
قریش ابو طالب کی خدمت میں
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اشراف ِ قریش سے چند آدمی ابوطالب کے پاس گئے اور
بولے ’’اے ابوطالب ! آپ کے بھتیجے نے ہمارے خداؤں کو بُرا بھلا کہا ہے ،ہمارے
دین کی عیب چینی کی ہے ،ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہا ہے اور ہمارے باپ
دادا کو گمراہ قرار دیا ہے ۔لہٰذا یا تو آپ انہیں اس سے روک دیں یا ہمارے
اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں کیونکہ آپ بھی ہماری ہی طرح ان سے مختلف دین
پر ہیں ۔ہم ان کے معاملے میں آپ کے لئے بھی کافی رہیں گے۔‘‘اس کے جواب میں
ابوطالب نے نرم بات کہی اور رازدارانہ لب ولہجہ اختیار کیا چنانچہ وہ واپس
چلے گئے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سابقہ طریقے پر رواں رواں رہتے
ہوئے اﷲ کا دین پھیلانے اور اس کی تبلیغ کرنے میں مصروف رہے ۔
محاذآرائی کے مختلف انداز
جب قریش نے دیکھا کہ محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم )کو تبلیغ دین سے روکنے کی
حکمت کار گر نہیں ہورہی ہے تو ایک بار پھر انہوں نے غور خوض کیا اور آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی دعوت کا قلع قمع کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے جن کا
خلاصہ یہ ہے ۔’’ہنسی ،ٹھٹھا ،تحقیر ،استہزاء اور تکذیب ‘‘اس کا مقصد یہ تھا
کہ مسلمانوں کو بددل کرکے ان کے حوصلے توڑ دیئے جائیں ۔اس کے لئے مشرکین نے
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو ناروا تہمتوں اور بیہودہ گالیوں کا نشانہ بنایا ۔کبھی
وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پاگل کہتے جیسا کہ ارشاد ہے :’’ان کفار نے کہا
اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا تو یقیناً پاگل ہے ۔‘‘(۱۵،۶)اور کبھی آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم پر جادو گر اور جھوٹے ہونے کا الزام لگاتے ۔
محاذآرائی کی دُوسری صورت
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کومسخ کرنا، شکوک وشبہات پیدا کرنا ،جھوٹا
پروپیگنڈاکرنا ۔تعلیمات سے لے کر شخصیت تک کو واہیات اعتراضوں کا نشانہ
بنانا اور یہ سب اس کثرت سے کرنا کہ عوام کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعوت
وتبلیغ پر غور کرنے کو موقع ہی نہ مل سکے ۔چنانچہ یہ مشرکین قرآن پاک کے
متعلق کہتے تھے کہ : ’’ یہ پہلوں کے افسانے ہیں جنہیں آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم
)نے لکھوا لیا ہے ۔اب یہ آپ (آپ صلی اﷲ علیہ وسلم)پر صبح و شام تلاوت کئے
جاتے ہیں ۔‘‘(۲۵،۵)اور مشرکین یہ بھی کہتے تھے کہ : ’’یہ (قرآن) تو آپ کو
ایک انسان سکھاتا ہے ۔‘‘ (۱۶،۱۰۳)اوررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایک
اعتراض یہ بھی تھا کہ :’’یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں
میں چلتا پھرتا ہے ۔‘‘(۲۵،۷)
کچھ لواور کچھ دوکی پالیسی
سودے بازیاں جن کے ذریعے مشرکین کی یہ کوشش تھی کہ اسلام اور جاہلیت دونوں
بیچ راستے میں ایک دوسرے سے جاملیں یعنی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر اپنی
بعض باتیں مشرکین چھوڑ دیں اور بعض باتیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم چھوڑ دیں ۔قرآن
پاک میں اسی کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ : ’’وہ چاہتے ہیں کہ آپ ڈھیلے
پڑجائیں تو وہ بھی ڈھیلے پڑجائیں ۔‘‘ (۶۸،۹)ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ اسود بن مطلب بن اسد
بن عبدالعزیٰ ،ولید بن مغیرہ ،امیہ بن خلف اور عاص بن وائل سہمی آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے سامنے آئے یہ سب اپنی قوم کے بڑے لوگ تھے ۔بولے اے محمد ! آؤ
جسے تم پوجتے ہو اسے ہم بھی پوجیں اور جسے ہم پوجتے ہیں اسے تم بھی پوجو ۔اس
طرح ہم اور تم اس کام میں مشترک ہوجائیں ۔اب اگر تمہارا معبود ہمارے معبود
سے بہتر ہے تو ہم اس سے اپنا حصہ حاصل کرچکے ہوں گے اور اگر ہمارا معبود
تمہارے معبود سے بہتر ہوا تو تم اس سے اپنا حصہ حاصل کرچکے ہوں گے ۔اس پر
اﷲ تعالیٰ نے پوری سورہ قل یایھالکفرون نازل فرمائی ۔جس میں اعلان کیا گیا
ہے کہ جسے تم لوگ پوجتے ہو اسے میں نہیں پوج سکتا ۔ اس فیصلہ کن جواب کے
ذریعے ان کی مضحکہ خیز گفت وشنید کی جڑ کاٹ دی گئی ۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․جاری ہے․․․․․․․․․․․․․․․․․․
|