سات دہائیوں سے پاکستان کے سیاستدان اوربااختیاربابو اپنے
ہن وطنوں کو ایک بات ہی مژداسناتے چلے جارہے ہیں کہ ملک اس وقت نازک ترین
دور سے گزر رہا ہے ، ملک اندرونی اور بیرونی خطرات سے دو چار ہے ، ملک پر
اس وقت شدید معاشی دباؤ ہے وغیرہ وغیرہ۔ کبھی کسی محب وطن سیاسی رہنما نے
عوام کو کوئی نویدسعیدنہیں دی کہ ہم دشواردوراوربندگلی سے باہر نکل آئے ہیں
اور آگے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں بلکہ ہمیشہ سے مایوسی اورناامیدی ہی
پھیلائی جاتی رہی ہے ، خاص طور پر آج کل الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی
بھرمار نے ہماری سیاسی اشرافیہ اورطاقتورافسرشاہی کیلئے یہ کام مزید آسان
کر دیا ہے کیونکہ میڈیا ہمیشہ منفی خبروں کو ہی اپنی ریٹنگ کا ذریعہ سمجھتا
ہے۔ ایک کے بعد ایک سیاسی ، فوجی اور نیم جمہوری حکمران آتے رہے اور ہر بار
ہر حکومت کا خاتمہ اس کی بدعنوانی یابدانتظامی کی بنیاد پر ہوا یا پھر کیا
گیا۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ جو بھی شخصیت حکومت میں ہوتی ہے اسے
رہبر نہیں بلکہ رہزن سمجھاجاتا ہے اور جونہی اس کااقتدارختم ہوتا ہے تو وہ
اگلی باری کیلئے مظلوم اورمعصوم بن جاتا ہے۔ یہاں ہر سیاستدان ،ہر لیڈر اور
ہر بڑے آدمی پر بدعنوانی اوربدزبانی کے الزامات لگتے رہے ہیں مگر بار بار
ان کرداروں نے عوام اورووٹرز کو بیوقوف بنایا ، ملک میں برائیوں کے سدباب
کیلئے فوجی عدالتیں بنائی گئیں ، احتساب عدالتیں بنائی گئیں ،شرعی عدالتیں
بنائی گئیں ، ایک کے بعد ایک ادارے بنے ، سینکڑوں قسم کے کریک ڈاؤن ،آپریشن
اور پالیسیاں بنائی گئیں ، لوگوں کا احتساب ہوا ،چورزندانوں میں ڈالے گئے ،
کورٹ مارشل ہوئے ، معطلیاں ہوئیں ، جرمانے ہوئے ، سزائیں ہوئیں مگر یہاں یہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی جو آج حالت ہے اس کی مرکزی ذمہ داری کس
پرعائدہوتی ہے۔ کون ہمارے قومی مجرموں کو پہچانے اورانہیں کیفرکردارتک
پہنچائے گا۔ کون قوم کی سچائی تک رسائی یقینی بنائے گا۔کس طرح ملک کی لوٹاا
ہواپیسہ وطن واپس آئے گااورکس طرح عوام کی فلاح و بہبود پر صرف ہوگا۔ کون
ڈیل اورڈھیل کی سیاست کے ڈیتھ وارنٹ پرمہرتصدیق ثبت کرے گا۔ہمارے ملک میں
میرٹ کی رٹ کس طرح قائم ہوگی۔ کون طاقتوراورکمزور کی تمیز کیے بغیربے رحم
احتساب کرے گا ۔
پاکستان میں جب بھی کسی بدعنوان شخص پر کوئی ادارہ ہاتھ ڈالتا ہے تو جو
انکشافات ہوتے ہیں وہ اس قدر حیران کن ہوتے ہیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا
ہے کہ آخر ایک انسان کو دولت کی اس قدر بھوک بھی ہو سکتی ہے۔ پچھلے چند
برسوں کی ہی بات اگر لے لی جائے تو ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے
قومی وسائل میں کس طرح بے دردی سے اور بے رحمی سے نقب لگائی گئی اور منی
لانڈرنگ کی مددسے پیسہ بیرون ملک منتقل کیا گیا ، کس نام سے گننا شروع کیا
جائے سمجھ نہیں آتی کیونکہ اعدادوشمار کی حدتک نیب کے شکنجے میں آنیوالے
ہرکردارپر لاکھوں کروڑوں نہیں اربوں کھربوں کا ملبہ ڈال دیاگیامگربرآمدگی
کاکوئی علم نہیں مثلاً سب سے پہلے سابق سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق
رئیسانی ، سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق ، سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم
حسین ، فواد حسن فواد ، احد چیمہ ، سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور
نہ جانے ایسے ایسے ‘‘ فرنٹ مین ‘‘ نیب کی گرفت میں آئے ہیں کہ عقل دنگ رہ
جاتی ہے کہ اتنی دولت کو ایک انسان کیا کرے گا۔ جب ایک ارب روپیہ کسی بھی
انسان کی سات نسلوں کیلئے کافی ہوتا ہے تو پھر کھربوں روپے تو شاید کسی شخص
کی آنے والی نسلیں قیامت تک نہ ختم کر سکیں گی مگر لالچ اور ہوس انسان کی
فطرت میں شامل ہوتی ہے،وہ ضرورت نہیں بلکہ اپنی ہوس والی فطرت کے تحت پیسہ
بٹورتااور جوڑتا رہتا ہے۔ اوپر بیان کردہ کرداروں سے اندازہ لگایا جا سکتا
ہے کہ ان لوگوں میں سے تقریباً سبھی ناموں کو عام عوام نہیں جانتے مگر
انہوں نے جن لوگوں کے لیے کام کیا ہو گا شاید ان ناموں سے پاکستان کا بچہ
بچہ واقف ہو گا مگر بدقسمتی سے کبھی بھی کسی کو فیصلہ سزا نہ ہو سکی ،
فیصلہ کن سزا کا مطلب ہے کہ کبھی بھی کسی بڑے کو اس طرح کی سزا نہیں ہوئی
کہ وہ ملکی سیاسی منظر نامے سے ہی آؤٹ ہو جاتا بلکہ جب جب بھی کسی بڑے کو
سزا ہوئی تو اسے سیاسی انتقام کا نام دیا گیا۔اور اگلی باری وہی سیاستدان
مزید طاقت کے ساتھ اقتدارمیں آیا ، پاکستان میں درحقیقت سیاسی منصب صرف اور
صرف دولت اکھٹی کرنے کی نیت سے حاصل کیے جاتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ آج
پاکستان پر قرضوں کی گنتی کرنے لگیں تو اتنے ہندسے ہیں کہ شمار بھی نہیں جا
سکتے مگر پکڑے جانے والے اشخاص یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ انہوں نے
اتنی ساری دولت کہاں سے اکھٹی کی ہے۔
ہمارے ہاں سیاستدان اپنے سیاسی گناہ چھپانے کیلئے فوج کو کوستے ہیں کہ ملک
کا سارا بجٹ تو دفاع پہ صرف ہو جاتا ہے جبکہ پاکستان کی غیور قوم اورپاک
فوج نااہل سیاستدانوں کو ملک کی معاشی بربادی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ ایک
بات اہم ہے کہ اگر پاکستان کی افواج کمزور ہوتیں تو خدانخواستہ ملک کا وجود
خطرے میں ہوتا اس لیے دفاع کے لیے ایک خاص بجٹ تو ہر صورت درکار ہے۔ لیکن
باقی کے بجٹ کا حساب کون حساب دے گا ۔ اتنی بھاری مقدار میں بیرونی قرض
آخرکارکہاں کہاں خرچ ہو ا۔کون سی سہولیات اور آسانیاں عوام کے حصے میں
آئیں۔کیا پی آئی اے سمیت ہمارے ریاستی ادارے منفعت بخش بن گئے۔ جس ادارے کا
نام لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی خسارے میں ہے اور حکومت اس کو چلانے
کیلئے سالانہ اربوں روپے قومی خزانے سے دیتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی انتہائی
اہم ہے کہ کیا تمام سرکاری ادارے سیاسی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں۔کیا ان میں
ناجائز بھرتیاں اور ترقیاں سیاستدان خود نہیں کرواتے۔ کیا بڑے بڑے منصوبوں
پر کمیشن اور کِک بیکس انہی سیاستدانوں کے فرنٹ میں وصول نہیں کرتے ۔ جب ان
سب چیزوں کا تمام اداروں کو بخوبی علم ہے تو پھر کیوں قومی مجرموں کو عوام
کے سامنے پیش کیا جاتا۔ کیوں کسی چوراوربدعنوان کو دوبارہ ملک کے ساتھ
کھیلنے کی مہلت دی جاتی ہے۔ کیوں ریاست پوری طاقت کے ساتھ ان قومی مجرموں
پرہاتھ نہیں ڈالتی اورانہیں نشان عبرت نہیں بناتی۔ کیا ریاست اس قدر کمزور
ہے کہ کوئی بھی ایک خاص شخص کسی بھی وقت ریاست سے بالاتر ہو سکتا ہے۔ عوام
یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کاحقیقی ہیرو،مسیحااورنجات دہندہ کون ہے ۔ |