شاہ سلمان بن عبدالعزیزکوسعودی عرب کاتخت سنبھالے چارسال
ہوچکے ہیں۔ ان چارسالوں میں ملک مکمل طورپرتبدیل ہوچکاہے۔ریاست پہلے سے
زیادہ غیر مستحکم ہوچکی ہے۔ریاستی اقدامات بھی پہلے کی نسبت زیادہ غیرمتوقع
اور جابرانہ ہوتے جارہے ہیں۔شاہ سلمان اپنے بھائی اوراُس وقت کے بادشاہ شاہ
عبداللہ کی جانب سے ولی عہد مقرر کیے جانے سے پہلے 50سال تک ریاض کے گورنر
رہے تھے۔اُس عرصے میں انھوں نے ایک چھوٹے سے صحرائی قصبے کے ایک جدید شہر
بننے کے عمل کی نگرانی کی۔ اس دوران وہ بہت محتاط طریقے سے وہابی علماء کو
بھی ساتھ لے کر چلے۔وہ شاہی خاندان کے نگران بھی تھے کیوںکہ خاندان کے
اکثرافراد ان کی عملداری کے علاقے میں ہی رہتے تھے۔
بادشاہتوں میں جانشینی کاعمل ہمیشہ ہی ایک کمزورپہلورہاہےلیکن شاہ سلمان کے
تخت پربیٹھنے سے نصف صدی پہلے سعودی عرب میں جانشینی کاسلسلہ بالکل واضح
تھااور وہ یہ کہ ابن سعود کے بیٹے بہ لحاظ عمرتخت کے حق دارہوں گے۔شاہ
سلمان جانشینی کاسلسلہ ایک سے زائد مرتبہ تبدیل کرچکے ہیں۔انھوں نے اپنے
بیٹے کوولی عہد مقرر کرنے کیلئےدوولی عہدوں کوعہدے سے معزول کیا۔سابق ولی
عہد شہزادہ محمد بن نائف کوان کے خاندان سے الگ کرکے نظربندکردیا گیا
ہے۔ظاہری طورپروہ شاہی خاندان کی وفاداری حاصل کرنے میں محمد بن سلمان کے
حریف تھے۔ محمدبن نائف کے ساتھ ہونے والاسلوک موجودہ بادشاہ اورولی عہد کے
ابن سعودکے نظام میں تبدیلی کی عکاسی ہے۔عام شنید ہے کہ گزشتہ چارسال میں
سعودی عرب ایک سخت اوربے رحم آمریت کی شکل اختیارکرگیاہے۔حقوق نسواں کے
کارکنوں کوریاستی ظلم وجبرکانشانہ بنایاجارہا ہے۔2017ء میں شاہی خاندان کے
افراد سمیت سیکڑوں کاوباری افراد کوحراست میں لے کران کے اثاثوں
کوہتھیالیاگیا۔ان میں کئی افرادتاحال زیرحراست ہیں۔اس کے علاوہ جمال خا
شقجی کے قتل میں بھی ولی عہد کانام لیاجاتارہاہے لیکن اب یہ معاملہ انتہائی
پراسراراندازمیں ماضی کے اندھیروں میں دھکیل دیاگیاہےکیونکہ مغربی اتحادیوں
کومطمئن کرنے کیلئےپہلی مرتبہ ولی عہدنے سعودی معاشرے کی دیرینہ روایات
کوپس پشت ڈالتے ہوئےسعودی خواتین کوبہت سے معاملات میں آزادی دی ہے جس میں
ڈرائیونگ لائسینس کے علاوہ سفارتکاری کے میدان میں تقرریاں بھی شامل ہیں جن
کو روشن خیالی سے تشبیہ دی جارہی ہے۔
شاہ سلمان نے اپنی بادشاہت کے ابتدائی تین سالوں میں کئی غیرملکی دورے
کیے۔ان دوروں میں مراکش کا تفریحی دورہ بھی شامل تھا۔تاہم گزشتہ سال انھوں
نے کوئی غیرملکی دورہ نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی صحت کے باعث سرکاری
دوروں سے اجتناب کررہے ہوں لیکن یہ طویل تفریحی دوروں سے پرہیزکی وجہ نہیں
ہوسکتی۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں موجود عدم استحکام کی وجہ سے ان
کا غیر ملکی دورے کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
محمد بن سلمان نے حال ہی میں کابینہ میں متعدد تبدیلیاں کی ہیں۔ان میں سب
سے اہم تبدیلی نیشنل گارڈکے سربراہ کی ہے۔ نیشنل گارڈسلطنت کو داخلی خطرات
سے بچانے کے ذمہ دارہوتے ہیں۔ محمد بن سلمان نے 32سالہ عبداللہ بن بندربن
عبدالعزیز کو نیشنل گارڈ کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ وہ اس سے پہلے مکہ کے نائب
گورنر تھے۔ وزیر دفاع کا قلمدان محمد بن سلمان نے اپنے پاس رکھاہے۔ تاہم یہ
بات قابل ذکر ہے کہ نیشنل گارڈ کے سربراہ اوروزیردفاع دونوں ہی نہ توفوجی
تجربہ رکھتے ہیں اورنہ ہی انہوں نے فوجی تربیت حاصل کی ہے۔
محمد بن سلمان کے اہم فیصلوں میں یمن کی جنگ بھی شامل ہے۔خطے کے دوتیل پیدا
کرنے والے امیرملکوں نےاس جنگ میں عرب دنیاکے سب سے غریب ملک کوتباہ کرکے
رکھ دیاہے ۔ وہاں جنگ کے نتیجے میں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔جہاں
سعودی عرب ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کوشکست دینے کیلئےبے تحاشا
وسائل صَرف کررہاہے وہاں ایران کےبھی جنگی بجٹ میں بے پناہ اضافہ ہوگیا
ہے۔اس طرح دواسلامی ملک ایک بین الاقوامی سازش کاشکاراپنے ہی ہاتھوں اپنے
وسائل برباد کرنے پرتلے ہوئے ہیں جس سے امت مسلمہ سخت اذیت کاشکارہے۔ یمن
کےشہر حدیدہ میں جنگ بندی کیلئےاقوام ِمتحدہ نے مصالحانہ کرداراداکیا۔یہ
یمن میں جنگ بندی کیلئےکی گئی پہلی ٹھوس کوشش تھی۔ بین الاقوامی برادری
کوچاہیے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے ہاتھ مضبوط کرے تاکہ یمن میں قیدیوں کے
تبادلے کی نگرانی کی جاسکے اوردیرپاجنگ بندی کی راہ ہموارکی جاسکے۔
سعودی عرب کواپنی معیشت میں تنوع لانے،صنفی امتیازکومزیدکم کرنے اوربین
الاقوامی برادری میں اپنے تعلقات بڑھانے میں کئی چیلنجوں کاسامناہے جبکہ
ایرانی عوام مہنگائی کے ہاتھوں کئی مرتبہ سڑکوں پرآکراپنی بدحالی کی دہائی
دے چکی ہے۔جمال خاشقجی کے قتل نے صورت حال کومزیدپیچیدہ اورغیریقینی
بنادیاتھالیکن محسوس ہوتاہے کہ سعودی حکومت بالآخراس دباؤ سے باہر نکل چکی
ہے۔ ان تمام چیلنجوں سے نبٹنے کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک یمن کی جنگ سے
باہرنکلیں اورجنگ کی آگ میں اپنے وسائل جھونکنے کی بجائے اپنے ملک کے
مفادعامہ اورامت مسلمہ کودرپیش مسائل کی طرف توجہ دیں۔یمن کی جنگ سے
باہرنکلنے کابہترین طریقہ تویہ ہے کہ اس معاملے کواوآئی سی کے پلیٹ فارم
پرغیرجانبدارکمیشن کے حوالے کیاجائے جودونوں ممالک کے مشورے سے قائم ہوجہاں
کمیشن کے فیصلے کی ہرحال میں پابندی کی ضمانت بھی فراہم کی جائے۔ یمن کے
عوام کی مکمل خودمختاری کااحترام کرتے ہوئے اس کوغیرجانبدارقراردیکردونوں
ممالک کے علاوہ تمام اسلامی ممالک یمن کے امن اوراس کی آبادکاری کیلئے ایک
فنڈمقررکریں تاکہ وہاں کے ہمارے مسلمان بہن بھائی امن وسکون کی زندگی
گزارسکیں۔یہاں یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ ایران پرامریکاکی جانب سے
نارواپابندیوں کے خلاف ایران کے ساتھ مکمل یکجہتی کااظہارکیاجائے اپنے
اخلاص کی شروعات کا فوری طورپرسیلاب کی تباہی پرایران کابھرپورساتھ
دیکراسلامی اخوت کاعملی اظہار کیاجائے۔
|