موٹاپے سے سمارٹنس تک کا سفر

(مسکرائیے، مسکرانے سے آپ کی فیس ویلییو بڑھے گی )

بچپن میں جو قصہ میں خوش ہو کر سنتی تھی اب وہی قصہ سن کر پاؤں پٹختی، روتی دھوتی اپنے تین من وجود کو کوستی اٹھ جاتی اور تمام گھروالوں اور گھر آنے والے مہمانوں کے قہقہے میرا پیچھا کرتے اندر آجاتے۔ ادھر اماں تھیں کہ ہرایک کو میری پیدائش کاقصہ سنانے بیٹھ جاتیں۔۔چلیں آپ کی حسرت نہ رہے ۔۔۔آپ بھی سن ہی لیں۔۔

میں کراچی میں کورنگی کے کے ایک ہسپتال میں پیدا ہوئی۔اتنی تندرست۔۔موٹی۔۔اور پیاری تھی کہ نہ صرف نرسیں اور ڈاکٹر بلکہ ہسپتال میں آنے والا ہر شخص چاہے وہ مریض تھا یا مریض کو دیکھنے آیا تھا سب کو ہی میرے درشن کرواۓ گئے۔۔اس دور کے عجیب خبتی لوگ تھے وزنی بچے کو دیکھ کر ان کی باچھیں کھل جاتیں جبکہ کمزور بچے کی پیدائش پر ننھیال والے سارا الزام ساس اور نندوں پر ڈال دیتے ۔۔اور وہ بھی کہاں کم تھیں ۔۔پتا نہیں کیا پیدا کیا ہے جیسے جملوں سے ماں اور بچے کی خوب آؤ بھگت ہوتی۔ خیر تو بات ہورہی تھی میری پیدائش کی اماں صاحبہ کو انعام کے ساتھ ساتھ ہسپتال والوں نے سرٹیفیکیٹ بھی دیا ۔اور میری وہ تصویریں اس ہسپتال میں ان ڈاکٹروں کے ساتھ جو مر کھپ گئے ہیں آج تک چسپاں ہیں۔اور اماں کی بدولت ہمارے خاندان کا ہر فرد، جاننے والے اور ان کے جاننے والے ،پڑوسی اور حتی کہ ان کے رشتہ دار سب اس ہسپتال کا دیدار کرچکے ہیں ۔اب تو ہر آنے والا دانستگی میں کہہ بیٹھتا ہے کہ بہن ہسپتال میں اس کی لگی تصویریں دیکھنے تو ہر کوئی جاۓ گا مگر رشتہ لے کر کوئی نہیں آۓ گا ۔۔اس پر مزید کہتے ہوۓ جاتے دو من کی دھو بن تو سنا تھا مگر ادھر تو تین من کی روشن آرا ہیں ۔۔۔قد کاٹھ ہوتا تو پھر بھی تھا لیکن یہ تو گٹھی بھی ہیں۔۔۔منحوس کہیں کے دل کرتا تھا پیٹ میں سر مار کے سارے سموسے اور بسکٹ جو چاۓ میں ڈبو کر کھاۓ۔۔ ان کے سب نکال کر چلتا کروں۔۔۔بھلا بتاؤ یہ بھی کوئی بات ہوئی ۔۔۔ہاں نہیں تو۔۔۔ یہی نہیں میرے ساتھ شادیوں میں کیا ہوتا تھا وہ بھی سنیں۔۔۔پہلے تو ہر قمیص پہننے پر شمیز لگتی یا پھر آگے جانے سے انکار کردیتی۔۔۔ادھر اماں اس کو کھلا کرنے کے چکر میں قمیص کی آخری حدود تک سلائی مارتیں مگر نگوڑی قمیص چھر چھر کی آواز کے ساتھ ہی عین شادی ہال میں ہمیں عزت بخشتی۔۔۔اور ہم دوپٹے سے اس چھجے ہوۓ حصے کو چھپاتے۔۔۔۔۔اور سنیۓ۔۔۔ساری کزنز ڈانس کرتیں تو ہمارا بھی دل مچلتا۔۔۔ اماں کے سو روکنے پر بھی ہم شیلہ کی جوانی پر ڈانس کرتے۔۔۔یوں ہال میں موجود بھوک سے روتے بچے اور عورتیں غیبت چھوڑکر ہمارے ڈانس پر اتنا خوش ہوتے کہ ان کے قہقہے ان کے گھر واپس جانے تک بھی نہ رکتے۔۔۔۔لیکن مجھے گھر آکر ڈانٹ نہیں۔۔ مار پڑتی تھی۔۔۔

بچپن میں جو اماں مجھے زبردستی کھلاتی تھی کہ کہیں میں کمزور نہ ہوجاؤں اور ان کے سرٹیفیکیٹ کے اصلی ہونے پر لوگوں کو شک نہ ہو وہی اب کھانے کے دوران میرے ایک نوالے کو دو گنتیں۔۔۔۔میں بھی بھلا کہاں رکتی ۔۔۔ایک روٹی۔۔ پکاتے ہوۓ کھالیتی اور ایک روٹی کچن صاف کرتے ہوۓ۔۔۔تو کیا کرتی ۔۔اتنا بڑا پیٹ خالی رہتا تو آوازیں دیتا نا۔۔۔۔

ویسے تو میں گوری چٹی تھی لیکن چہرے کے خدوخال واصح نہیں ہوتے تھی اور تو اور ٹھوڑی بھی یک نہ شد دو شد تھیں ۔۔۔۔

آپ یہ نہ سوچیں کہ ہمارا وزن صرف بڑھتا تھا ایک دفعہ گھٹا بھی۔۔۔تو پھر سنیۓ ۔۔ہوا کچھ اس طرح کہ ایک دن ہم اماں کے ساتھ بازار کے لیۓ نکلے رکشے والے نے مجھے بٹھانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ٹائر کمزور ہیں بس اماں نے یہ بات دل پہ لے لی اور صبح ہی صبح ہمیں گھسیٹ کر واک کے لئۓ لے گئیں۔۔اماں زرا آگے ہوئیں تو ہمیں بیٹھنے کا موقع مل گیا۔۔۔اماں ایک کلومیٹر آگے گئیں تو ان کو پتا چلا وہیں سے آواز دی کہ جلدی آؤ۔۔۔ہم نے تو سنی ان سنی کر دی مگر ایک کتے کو مالک نے اشارہ کیا تو کچھ ہی دیر میں ہم اماں سے ایک کلومیٹر آگے تھے۔۔۔گھر آکر وزن کیا تو پتا چلا ۔۔۔پورے پانچ کلو کم ہوا تھا۔۔اماں نے اس کتے اور کتے والے کا شکریہ ادا کرنے کے لیۓ بہت ڈھونڈھا لیکن وہ پھر نہ ملے ورنہ ایک دو ہفتے میں ہی ایک آدھ من تو کم ہو ہی جاتا۔۔۔۔

ایک دن پتا ہے کیا ہوا ۔۔اماں نے رشتہ والی کو ڈبل فیس دے کر کسی مناسب رشتے کو پھسلانے کا کہا۔۔اور وہ بچاری پھسلا کر لے بھی آئی مگر عین اس وقت جب ہم ڈرائینگ روم میں لوازمات کی ٹرے لئےحیا کی ایکٹنگ میں مشغول تھے کہ نیچے والوں کا منحوس نومی پیغام لے کر آیا ۔۔۔امی کہہ رہی ہیں روشن آپا کو کہیۓکہ آہستہ چلیں ۔۔دادی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہےڈر جاتی ہیں کہ کہیں زلزلہ تو نہیں آگیا۔۔۔بس پھر کیا تھا وہ رشتہ بھی ہاتھ سے گیا۔۔۔۔رشتے کے جانے کا کچھ دن تو میں نے اور اماں نے سوگ منایا لیکن پھر اچانک ایک بھاری بھرکم رشتہ آگیا۔۔۔اماں نے لڑکے کا وزن من میں پوچھا کلو کا بولتے ہوۓ خود بندہ ہلکا لگتا ہے چار من کا سن کر ہم نے اماں کی طرف خونخوار نظروں سے دیکھا لیکن اماں نے بھی نظروں ہی نظروں میں ہمارے اپنے وزن کا طعنہ دے ڈالا۔۔۔۔خیر ان کی اماں نے میری پیدائش کا تاریخی واقعہ سن کر کہا۔۔۔ارے بھئی یہ تو عجیب اتفاق ہے ۔۔۔میرے بچے کی بھی پیدائش کے بعد کی تصویریں ہمارے قریبی کلینک پر لگی ہوئی ہیں دراصل یہ جب پیدا ہوا تھا اتناکمزور تھا کہ دیکھنے والوں کو بتانا پڑتا تھا کہ یہ انسان کا بچہ پیدا ہوا ہے۔۔۔پھر میں نے اور سب گھروالوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اس کو اتنا کھلایا کہ اب آپ کے سامنے ہے۔۔۔لیکن سب ملنے والوں کا کہنا ہے اس کی شادی کرادو وزن خود ہی واپس ہونا شروع ہوجاۓ گا۔۔۔
ٹھیک ایک سال بعد ان کی بات سچ ٰٰ نکلی ۔۔۔۔میں چار من کی ہوگئی اور وہ دو من کے۔۔۔۔ابھی تو یہ سفر جاری ہے،،،،،

azra faiz
About the Author: azra faiz Read More Articles by azra faiz: 47 Articles with 93240 views I am fond of writing stories, poetry, reading books.
I love to help and motivate the people who are for some reason helpless. I want to raise the vo
.. View More