عنوان پڑھ کر آپ لوگ چونک گئے
ہونگے کہ میں نے یہ بات کیسے کہہ دی؟ واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی مرحوم
جیسے جید عالم دین،مفکر اور مجتہد سے یہ بات منسوب کرنے والے دراصل مخالفت
برائے مخالفت میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ان کو اس بات کا احساس ہی نہیں
ہے کہ مرنے کے بعد اللہ کو بھی جواب دینا ہے ورنہ جس فرد کی پہلی تصنیف ہی
اسلام کے فلسفہ جہاد کے بارے میں ہو،جس کی جماعت جہاد کی پر زور حامی ہو تو
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ جہاد کے حرام ہونے کا فتویٰ دیں؟ ۔ دوسری بات یہ
کہ ایسے بات کہنے والے دو قسم کے لوگ ہیں اول وہ لوگ جنہوں نے سوچے سمجھے
منصوبے کے تحت مولانا مرحوم سے یہ بات منسوب کر کے ان کی کردار کشی کی
انتہائی بھونڈی کوشش کی تھی ۔ یہ جنریشن وہ تھی جو مولانا مرحوم کے معاصرین
میں شمار ہوتے تھے اور ان کے دور میں انکی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ ان
لوگوں کو اصل بات کا اچھی طرح پتہ تھا لیکن جانتے بوجھتے یہ لوگ حق کو
چھپاتے رہے اور مولانا کی کردار کشی کرتے رہے۔
دوسری قسم کے لوگ میرے نزدیک بددیانت اور جھوٹے ہونے کے ساتھ ساتھ بیوقوف
بھی ہیں کیوں کہ آج مولانا مودودی مرحوم پر یہ الزام لگانے والوں کو اصل
واقعے کا ذرہ برابر بھی علم نہیں ہے لیکن جو کچھ انہوں نے لوگوں سے سنا ،بغیر
سوچے سمجھے اسے آگے بڑھا دیا نہ صرف آگے بڑھا دیا بلکہ یہ لوگ ایک قومی اور
دینی خدمت سمجھ کر یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے
کہ جیسے آج لوگ البدر و الشمس کے حوالے سے جماعت اسلامی پر بڑھ کر حملے تو
کرتے ہیں لیکن جب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ بتائیں آپ لوگ البدر و الشمس
کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ تو یہ لوگ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ (اے لوگوں!
جو ایمان لائے ہو،اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لیکر آئے تو تحقیق
کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی گروہ کو نقصان پہنچا بیٹھو اور
پھر اپنے کئے پر پشیمان ہو ۔الحجرات آیت5)۔
بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ اس ویب سائٹ پر مولانا مودوی مرحوم پر یہ الزام
دہرائے جاتے ہیں اور ہمیں اس بہانے اصل بات لوگوں تک پہنچانے کا موقع ملتا
ہے ورنہ ہم اگر خود سے یہ باتیں لکھیں تو لوگ تنظیمی وابستگی کے باعث ایسی
کوشش کو ہماری خودستائشی یا خود نمائی سمجھتے۔بہرحال اب ہم اصل بات کی طرف
آتے ہیں کہ یہ مولانا مرحوم سے یہ بات کب اور کیسے منسوب کی گئی؟ اور اس
واقعے کا پس منظر کیا ہے؟ دراصل یہ الزام پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان
لیاقت علی خان کے دور حکومت میں لگایا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان
بننے کے بعد مولانا مودودی نے یہ مطالبہ اٹھایا تھا کہ ’’چونکہ پاکستان
اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے۔اور یہاں کے باشندوں کی اسلام کے ساتھ وابستگی
ہے اور وہ دین اسلام کو اس خطے میں نافذ کرنا چاہتے ہیں اس لئے حکومت جلد
از جلد اسلامی قوانین کے نفاذ کا اعلان کرے،جبکہ لیاقت علی خان صاحب کی
حکومت اس کام میں سنجیدہ نہیں تھی۔ اسی لئے قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم
کے انتقال فرمانے کے فوراً بعد انہوں نے یہ جھوٹا الزام لگا کر مولانا
مودوی مرحوم کو گرفتار کرلیا ۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح جماعت اسلامی اور
مولانا مودودی پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے مطالبے سے باز آ جائیں
گے ۔
ڈاکٹر عمر حیات ممبر دستوریہ اور سابق وائس چانسلر جامعہ پنجاب نے اپنے ایک
انٹرویو میں اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ یہ بات غالباً مارچ
1948کی ہے کہ جب پہلی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس کراچی میں ہورہا تھا
مولانا مودودی کے خصوصی نمائندے (چوہدری غلام محمد) اسمبلی کے ارکان سے ملے
تاکہ انہیں پاکستان کے بنیادی نظریئے اور مقاصد پر مبنی قرارداد پاس کرنے
پر آمادہ کرسکیں اس وقت صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اسمبلی کے اکثر لوگ اس
بات پر آمادہ نہیں ہیں کہ پاکستان کے نظریاتی مملکت ہونے کا کوئی اعلان
کرے۔میں نے اس کیفیت اور عملی صورت حال سے مایوس ہوکر مولانا مودودی کو ان
کے خصوصی نمائندے کی زبانی پیغام بھجوا دیا کہ یہ لو گ نہ تو اسلامی حکومت
چاہتے ہیں اور نہ اسے قائم ہونے دیں گے اور نہ ہی اس سے انکار کریں گے،اگر
آپ اس ملک میں اسلامی نطام کا نفاذ چاہتے ہیں تو ارکان اسمبلی کو ان کے حال
پر چھوڑ کر عوام کا شعور بلند کریں کیوں کہ رائے عامہ کے دباؤ سے مجبور
ہوکر ہی یہ لوگ پاکستان کو نظریاتی اور اسلامی مملکت بنانے کے اصول کو
تسلیم کرنے پر مجبورو تیار ہوسکیں گے۔چنانچہ اس کے بعد ہی جماعت اسلامی نے
اسلامی نظام کے مطالبے کی مہم کا آغاز کیا،جس سے تجدد پسند مغرب زدہ مسلم
لیگی اور اشتراکی عناصر بری طرح بوکھلا اٹھے انہوں نے اس مطالبے کو سبوتاژ
کرنے کے لئے طرح طرح کی سازشیں کیں حتیٰ کہ مرکزی کابینہ کے اجلا س میں
مولانا مودودی کو کڑی سزا دینے کی تجویز بھی پیش کردی اور وہاں چوہدری محمد
علی (سابق وزیر اعظم پاکستان ) نے بہ دلائل اس تجویز کا پس منظر بیان
کیا۔بالآخر قائد اعظم نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کردیا ۔شومئی قسمت سے
انہی دنوں قائد اعظم وفات پاگئے اور اربابِ اختیار کو موقع ہاتھ آگیا اور
چند روز بعد ہی مولانا مودودی کو (جہاد کشمیر کے خلاف فتویٰ دینے کے الزام
میں ) گرفتار کرلیا گیا ( انٹرویو ڈاکٹر عمر حیات ملک روزنامہ جسارت کراچی
25 جون 1982 )۔
قائد اعظم کے انتقال کو ابھی 24دن ہی ہوئے تھے کہ 4اکتوبر 1948لو مولانا
مودودی کو انکے دو ساتھیوں امین احسن اصلاحی اور میاں طفیل محمد کے ہمراہ
گرفتار کرلیا گیا۔گرفتاری کی وجہ مولانا مودودی کا جہاد کشمیر کے بارے میں
’’فتویٰ ‘‘ بتایا گیا۔واقعہ یہ ہوا کہ مولانا مودوی مرحوم اپریل 1948میں
جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے ارکان و متفقین کے ایک اجتماع میں شرکت کے لئے
پشاور گئے تو وہاں نبی بخش نظامی جو کہ آزاد کشمیر حکومت کے پروپگینڈہ
سیکرٹری تھے انہوں نے تخلئے میں مولانا مودوی مرحوم سے ایک ملاقات کی اور
کشمیر میں جاری جنگ کے بارے میں پوچھا،اور پھر دوسرے دن ان کی باتوں کو توڑ
موڑ کر اخبارات میں ’’ مولانا مودوی جہاد کو حرام قرار دیتے ہیں ‘‘ کی
سرخیوں کے ساتھ شائع کرا دیا۔خود مولانا مودودی مرحوم نے اس واقعے کی
تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ میں نے اس قسم کا کوئی فتویٰ نہیں دیا ،بات
صرف اتنی ہوئی کہ تھی کہ حکومت آزاد کشمیر کا پبلسٹی سیکرٹری (نبی بخش
نظامی ) ایک دن پشاور میں میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے تخلیئے میں کچھ
بات کرنی چاہی ،میں نے اسے تنہائی فراہم کی تو اس نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ
آخر جہاد کشمیر میں حصہ کیوں نہیں لے رہے؟ میں نے اس سے کہا کہ اس کی وجہ
میں دانستہ بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن جب اس نے اصرار کیا تو میں نے کہا کہ
اگر مجھے جہادِ کشمیر میں حصہ نہ لینے کی وجہ بیان کرنا پڑی تو میں یہ کام
خود کرتا اس کے لئے مجھے آپ کی مدد لینے کی کیا ضرورت تھی کہ میں آپ کو
بیان کروں اور آپ اُسے دنیا کے سامنے بیان کردیں۔وہ بولا میں یہ بات محض
اپنے اطمینان کے لئے پوچھ رہا ہوں میرا مقصد اس معاملے کی ترویج و اشاعت
کرنا نہیں ہے۔میں نے کہا اگر واقعی یہ بات صرف اپنے اطمینان کے لئے پوچھ
رہے ہیں تو سنئے!’’ جہادِ کشمیر کے سلسلے میں میرے نزدیک یہ کوئی معقول بات
نہیں ہے کہ وہاں لڑائی بھی ہورہی ہو اور نہیں بھی ہو یعنی ایک طرف ہماری
قوم حکومت دنیا کے سامنے اعلان کرے کہ ہم لڑ نہیں رہے بلکہ لڑنے والوں کو
روک رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لڑے بھی تو اس سے نہ صرف ہماری اخلاق پوزیشن
کمزور ہوگی بلکہ ہم لڑ بھی نہیں سکیں گے۔ میرا بیان کردہ حکومت کا یہ مؤقف
خود ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ میں بیان کیا تھا جو آج بھی ریکارڈ موجود
ہے۔ ‘‘ بہر صورت گفتگو ختم ہوئی تو اس سے اگلے روز اخبارات میں یہ خبر شائع
ہوئی کہ’’ مودودی نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ کشمیر میں جہاد حرام ہے اور جو اس
کا میں جان دے گا وہ حرام موت مارا جائے گا۔‘‘ میں نے اس خبر کی تردید
بھیجی تو وہ کسی اخبار نے شائع نہیں کی۔دوسرے دن موقع ملتے ہی ہندوستان
ریڈیو نے میرے اس ’’فتویٰ ‘‘ کو اچھالنا شروع کردیا۔اس صورتحال کو دیکھتے
ہوئے میں نے ریڈیو پاکستان سے درخواست کی کہ وہ مجھے اس بات کی تردید کرنے
کا موقع دے لیکن اس نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا‘‘۔ (مولانا مودودی کے
انٹرویو حصہ دوم صفحہ 183,184 )جہاد کشمیر کو ’’حرام ‘‘ قرار دینے کے الزام
کے بارے میں مولانا مودودی مرحوم کے خلاف پروپگینڈہ حقیقت میں اس وقت کی
حکومت کا اسلامی نظام کے نفاذ سے فرار تھا۔
تو دوستوں ! یہ وہ ساری بات تھی جس کو بنیاد بنا کر مولانا مودودی مرحوم کے
خلاف آج تک پروپگینڈہ کیا جاتا ہے لیکن اصل بات کو جاننے کی کوئی کوشش نہیں
کرتا۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ مولانا مودودی مرحوم سے الگ ہونے والے
معروف عالم دین اور اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے بھی اپنے ایک مضمون
’’امت مسلمہ کی نصرت الہیٰ سے محرومی ‘‘ میں مولانا مودوی کے موقف کی تائید
کی تھی۔ان کے الفاظ میں ’’جہاد کشمیر کے آغاز میں مولانا مودودی کی جو رائے
سامنے آئی وہ خالص اسلامی اور قرآنی بنیادوں پر استوار تھی،اس کی رو سے
پاکستان کو چاہئے تھا کہ وہ ہندستان کے ساتھ جنگ کا باقاعدہ اعلان
کرتا۔سفارتی تعلقات بھی قائم ہو اور خفیہ طور پر دشمن کے خلاف کاروائی ،یہ
طرزِ عمل اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا ۔(روزنامہ نوائے وقت 11مارچ
1999) ان سب باتوں کو سامنے رکھیں اور پھر یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ جس فرد
(نبی بخش نظامی ) نے یہ سارا ہنگامہ کھڑا کیا اور مولانا مودودی مرحوم کے
خلاف اتنا بڑا جھوٹ گھڑا اس نے مولانا مودودی مرحوم سے اس حرکت پر معافی
بھی طلب کی،مولانا مودودی نے بتایا کہ ’’یہ شخص جس نے اپنی نوکری کے لئے
میرے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ بول کر یہ ہنگامہ کھڑا کیا تھا، وہ ابھی چند
روز ہوئے(فروری 1974) میں میرے پاس جماعت کے اس مرکز میں آیا اور میرا ہاتھ
پکڑ کر بھری محفل میں کافی دیر تک زار و قطار روتا رہا،کہنے لگا مولانا
مجھے معاف کردیجئے مجھ سے سخت غلطی ہوئی،نادم ہوں پیٹ کی خاطر میں نے یہ
شرمناک افتراء پردازی کی اور میری اس غلط بیانی سے آپ کو اس قدر صعوبتیں
اٹھانی پڑیں‘‘ (مولانا مودودی کے انٹرویو حصہ دوم صفحہ 183,184)۔
اب ذرا غور فرمائیں کہ ایک فرد نے اپنی نوکری پکی کرنے کی خاطر،اپنے پیٹ کی
خاطر ایک جھوٹ گھڑا، افتراء پردازی کی اور اس جھوٹ کو آج تک پھیلایا جارہا
ہے۔ یہ جھوٹی بات کہنے والے فرد نے اگرچہ مولانا مودودی مرحوم سے اپنے اس
گناہ کی معافی مانگ لی تھی لیکن افسوس کہ جو بیج انہوں نے بویا تھا جماعت
اسلامی آج تک اس بیج کی فصل کاٹ رہی ہے۔ اور لوگ بغیر سوچے سمجھے مولانا
مودودی مرحوم اور جماعت اسلامی پر ایسے الزامات کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔
آئندہ مضمون میں ہم مولانا مودودی پر دیگر الزامات کے حوالے سے اپنی بات
کریں گے۔
اس مضمون کی تیاری میں افتخار احمد صاحب کی کتاب ’’عالمی اسلامی تحریکِ
اسلامی کے عظیم قائدین سید ابو الاعلیٰ مودودی ‘‘ سے مدد لی گئی ہے ۔اور ان
کے لئے ہم ان کے مشکور ہیں۔ |