اہم قومی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل

دو روزہ اجلاس کے بعد ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے بعض انتہائی اہم اور توجہ طلب باتیں کہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ
1۔ نیب اور پولیس کی طرف سے ملزموں کو ہتھکڑیاں پہنانا، پاکستانی قانون اور اسلامی شریعت کے منافی ہے۔ اس معاملے کو جانچنے کیلئے جسٹس (ر) رضا خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ تاہم ایسے ملزموں کو ہتھکڑیاں ڈالی جا سکتی ہیں جن سے تشدد کا خطرہ ہو۔ جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزم کی میڈیا میں تضحیک اسلام میں تکریم انسانیت کے تصور کے منافی ہے
2۔ عورت مارچ میں نا زیبا نعروں اور بینرز پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ مربوط عائلی نظام کی بحالی کیلئے کونسل اس بات کا عمیق مطالعہ کرئے گی کہ ملک میں خاندانی نظام کی بڑھتی ہوئی شکست و ریخت کے اسباب کیا ہیں اور عائلی نظام کیوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
3۔ کونسل نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ کالجوں اور جامعات میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان علمی روابط زوال کا شکار ہیں۔ نصابی سرگرمیاں مفقود ہو کر رہ گئی ہیں جس کے نتیجے میں نوجوان نسل ذہنی تناو کا شکار ہے۔ وزارت تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن، اس صورت حال کے سد باب کی حکمت عملی تیار کریں کیوں کہ محض وقتی اور حادثاتی رد عمل ان مسائل کا حل نہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل ملک کا ایک معتبر اور موقر آئینی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ ستاون سال پہلے، 1962 میں قائم ہوا تھا۔ اسکے بنیادی مقاصد یہ ہیں کہ حکومت اور پارلیمنٹ کی راہنمائی کرئے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہ ہے۔ حکومت کسی معاملے پر کونسل کو ریفرنس بھی بھیج سکتی ہے۔ یہ بات بھی کونسل کے دائرہ کار میں شامل ہے کہ ملک میں اسلامی اقدار کے فروغ کیلئے تجاویز پیش کرئے۔ اگرچہ ماضی میں اس کونسل کی سفارشات کو بہت ذیادہ اہمیت نہیں دی گئی ، نہ ہی اس کی سالانہ رپورٹ کو اسمبلی میں زیر بحث لانے کا دستوری تقاضا پورا کیا گیا، لیکن یہ امر اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج بھی اس ادارے کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یہ ایک طرح کا تھنک ٹینک یا مشاورتی فورم ہے جس میں ملک بھر کے جید علماء، دانشوروں، مفکرین، ماہرین قانون اورا ساتذہ کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ کونسل کی تجاویز پر عمل ہو یا نہ ہو، انہیں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے او ر وہ بحث و مکالمے کا موضوع بنتی ہیں۔
نیب اور پولیس کی طرف سے ملزمان کو ہتھکڑیاں ڈالنے اور کسی جرم کے ثابت ہونے سے پہلے ہی میڈیا پر انکی توہین و تذلیل کا تماشا کھڑا کرنے کی طرف توجہ دلا کر اسلامی نظریاتی کونسل نے اہم کام کیا ہے۔ بنیادی طور پر تو یہ کام عدلیہ، وکلاء، دانشوروں ، معاشرے کے حساس طبقوں اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی این۔جی۔ اوز کا تھا، لیکن افسوس کہ اس معاملے کو نظرانداز کیا گیا۔ کونسل نے بجا طور پر کہا ہے کہ اسلام شرف انسانیت اور عزت نفس کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور بلا وجہ کسی بھی شخص کی تذلیل کو نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے نیب نے حشر سا بپا کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹیوں کے عزت مآب وائس چانسلرز، اساتذہ اور صحافیوں کو بھی ہتھکڑیاں ڈال کر مانے ہوئے قاتلوں، ڈاکووں اور دہشت گردوں کی طرح عدالتوں کے سامنے لایا گیا۔ میڈیا پر یہ مناظر پیش کیے گئے۔ ایک معزز استاد کا تو جیل میں انتقال ہو گیا اور قوم نے دیکھا کہ ان کا مردہ جسم ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ صورتحال اب ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ نہایت خوش آئند بات ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔ توقع ہے کہ جلد اسکی رپورٹ اور سفارشات سامنے آ جائیں گی۔ ممکن ہو تو کمیٹی اس امر کا بھی جائزہ لے کہ انصاف کا حتمی مرحلہ مکمل ہو جانے سے پہلے کسی ملزم کو سال ہا سال کے لئے جیل میں ڈال دینا، کس حد تک اسلام کے تصور انصاف سے تعلق رکھتا ہے؟ آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ایک ایسا شخص بے گناہ ثابت ہوا جو پہلے ہی کئی کئی سال کی قید کاٹ چکا تھا۔
عورت مارچ اور نا زیبا نعروں کو اسلامی نظریاتی کونسل نے وسیع تناظر میں دیکھا ہے۔ اب تک ہم بہت تو تکار دیکھ چکے ہیں۔ کچھ لوگ مارچ کے نعروں کے حق میں اور کچھ انکے خلاف دلائل بھی پیش کر چکے اور اپنی اپنی بھڑاس بھی نکال چکے۔ کونسل نے اسے عائلی یا خاندانی نظام کی کمزوری کے حوالے سے دیکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب کا یہ تکلیف دہ مرض ہمارے ہاں بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خاندانی نا چاقیا ں بڑھ رہی ہیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات بھی عام ہو گئے ہیں۔

یقینا اس ٹوٹ پھوٹ کے کئی اسباب ہیں۔ ایک بڑا سبب تو معاشی ہی رہا ہے۔ جس خاندان میں غربت ہو یا اسکی اتنی آمدنی نہ ہو کہ وہ ضروریات زندگی کی کفالت کر سکے، تو وہاں نفسیاتی اور اعصابی تناو بڑھ جاتا ہے جس کا نتیجہ گھریلو مسائل کی شکل میں نکلتا ہے۔ یہیں سے پھر اس طرح کے نعرے جنم لیتے ہیں جو ہماری دینی یا معاشرتی روایات سے تعلق نہیں رکھتے۔ کونسل نے اگر اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے تو وہ معاشرے کے مختلف طبقات سے رابطہ کرئے اور ان اسباب کا واضح تعین کرئے جو خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔ ان اسباب کے ازالے کے لئے قانون سازی سمیت ایسے ٹھوس اقدامات تجویز کئے جانے چاہیےں جو معاشرے میں ٹھہراو لائیں اور خاندانی نظام کو مضبوط و مربوط رکھنے میں مدد دیں۔
تیسرا نکتہ بھی انتہائی اہم ہے۔ شعبہ تدریس سے تعلق رکھنے کے باعث میں اس بات کی تصدیق کرتی ہوں کہ ہماری درس گاہوں ، خصوصا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ و طالبات کے مابین علمی رابطے، فکری مکالمے اور بحث مباحثہ کی روایت دم توڑ چکی ہے۔ تمام تر تعلیمی سر گرمی کلاس روم لیکچر تک سمٹ آئی ہے وہ بھی اس حال میں کبھی اساتذہ نہیں اور کبھی طلبہ و طالبات موجود نہیں۔ ایک متعین نصاب کو پڑھا دینا استاد کا مقصود ہے اور کسی نہ کسی طرح امتحان پاس کر لینا طالب علم کا سب سے بڑا مقصد بن گیا ہے۔ نہ اساتذہ میں یہ جنون باقی ہے کہ وہ اپنے طلبا کی ذہنی، فکری اور روحانی تعلیم و تربیت کیلئے سرگرمیاں ترتیب دیں نہ طلبہ کاغذی امتحان پاس کر لینے کے علاوہ کسی مشق میں حصہ لینے کیلئے تیار ہیں۔ کونسل نے وزارت تعلیم اور ہائیر ایجوکیشن کا ذکر کیا ہے لیکن حال یہ ہے کہ حال ہی میں اسکے بجٹ میں زبردست کٹوتی کر دی گئی ہے اور پہلے سے جاری اسکی سرگرمیاں بھی سمٹ رہی ہیں۔ آج نہ صرف استا د اور شاگرد کا باہمی رشتہ کمزور ہو گیا ہے بلکہ تعلیم اور علم کا باہمی تعلق بھی کم کم ہو گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ درس گاہوں سے ایسے نوجوانوں کی کھیپ نکل رہی ہے جو علمی صلاحیتوں میں بے حد کمزور ہیں اور وہ ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے نوکریوں کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ ملک کی اقتصادی بد حالی کے باعث نوکریاں بھی سکڑ رہی ہیں۔ لہذا نسل کی نسل غصہ اور اشتعال کا شکار ہو کر قومی مزاج کے بگاڑ کا سامان کر رہی ہے۔اﷲ کرئے اسلامی نظریاتی کونسل سرگرمی اور پوری توجہ کیساتھ ان مسائل کو حل کرنے کا کوئی لائحہ عمل پیش کر سکے، جن کی طرف کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے توجہ دلائی ہے۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 164 Articles with 102968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.