موجودہ وفاقی حکومت کی گزشتہ
کابینہ میں خارجہ امور کے لئے دو وزیر تھے ایک وفاقی وزیر خارجہ جناب شاہ
محمود قریشی صاحب یعنی بڑے وزیر جبکہ دوسرے وفاقی وزیر مملکت برائے خارجہ
امور جناب نوابزادہ ملک عماد خان آف کا لاباغ یعنی چھوٹے وزیر، دونوں ہی
بڑے گھرانوں کے چشم چراغ ہیں اس لئے عوام کو بھی ان سے بڑی بڑی امید وابستہ
تھیں کہ وہ ملک و قوم کا بیرونی دنیا میں امیج بہتر بنانے کے لئے اپنا اپنا
کردار ادا کریں گے۔ خصوصاً وظاہراً شاہ محمود قریشی بڑی دلکش شخصیت کے مالک
ہیں سرائیکی پٹی سے تعلق رکھنے والے خارجہ امور کے ماہر سابق وزیر خارجہ
انگریزی ایسے" بجاتے" تھے کہ جیسے یہی ان کی مادری زبان ہو انگریزی زبان پر
اس قدر دسترس کے باوجود وہ محترمہ ہیلری کلنٹن سے زیادہ کسی کو خوش نہیں کر
سکے۔ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی اردو بھی اتنی ہی بلیغ ہے جتنی کہ
انگریزی، لیکن انہوں نے چند دن پہلے ایک اردو پریس کانفرنس کر کے ہمیں
حیران کر دیا۔ریمنڈ ڈیوس کے متعلق لوگ حیران ہیں کہ وہ چار زبانیں سمجھ
سکتا ہے جبکہ ہمارے سابق وزیر خارجہ صاحب نہ صرف سمجھ سکتے ہیں بلکہ بول
بھی سکتے ہیں جو کہ ان کی اہلیت کا واضح ثبوت ہے لیکن ہمارے خیال میں وہ
اپنی اہلیت کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، ان کی وزارت کی تبدیلی کے
پیچھے مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن کچھ ایسی وجوہات بھی ہیں جو اس تبدیلی
کے پس پردہ کسی محرک کے طور پر تو نہیں لی جا رہی ہیں لیکن یہ وجوہات اہم
ہیں اور آنے والوں کو ان وجوہات سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے، وزیر اعظم
صاحب نے یوں تو آٹھ وزارتوں کا بوجھ اپنے مضبوط کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور
وزارت خارجہ کو بھی شاید کوئی غیر اہم وزارت سمجھ کر اسے کسی وزیر کے سپرد
نہیں کیا گیا لیکن حکومت وقت کو جہاں پر داخلی مسائل کا سامنا ہے جن میں
دہشت گردی، غربت بے روزگاری اور مہنگائی وغیرہ شامل ہیں وہیں پر خارجی
محاذوں پر بھی پاکستان کو کئی مشکلات کا سامنا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ
فوری طور پر کسی اہل وزیر کو مقرر کیا جائے تاکہ بڑھتے ہوئے مسائل پر بر
وقت قابو پایا جا سکے۔
بلوچستان رقبے اور اہمیت کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن
پچھلے کچھ عرصہ سے اس کے حالات بدستور خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں،
بگڑتی ہوئی اس صورت حال کے پیچھے بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کا اشارہ وزیر
داخلہ کئی بار دے چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے حالات کی
خرابی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے اور یہی ہاتھ بلوچستان سے کچھ لوگوں کو
دوسرے ملکوں میں لے جا کر باقاعدہ ان کی تشہیر کر رہا ہے اور انہیں
بلوچستان کے علیحدگی پسند اور بہت بڑے بڑے لیڈروں کے طور پر متعارف کروایا
جا رہا ہے۔یہی لوگ بلوچستان کے مسئلے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کی
بھی بات کرتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ میٹنگز ہوتی ہیں یہاں تک کہ جلسے جلوسوں
کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور ان ممالک میں موجود بلوچوں کے ساتھ ساتھ
مقامی لوگوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ بات یہیں تک ہوتی تو کوئی بات بھی
تھی۔ ہم نے آج تک نہ اس خفیہ ہاتھ کو روکنے کے لئے کوئی تدبیر کی اور نہ ہی
اسکے خلاف کوئی مؤثر آواز اٹھائی اور نہ ہی ان ممالک کے میڈیا یا عوام کو
کوئی ایسا پیغام پہنچایا ہے جہاں اس خفیہ ہاتھ کے تخلیق کردہ بلوچ لیڈر
جلسے جلوس یا میٹنگز کرتے پھر رہے ہیں کہ دراصل حقیقت کیا ہے؟ عوام تو عوام
ان ممالک کا سرکاری میڈیا انہیں بلوچ علیحدگی پسندوں کے نام سے خوب کوریج
دیتا ہے اور اسے ایک بہت بڑی تحریک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی
سرگرمیوں کی تفصیل آپ بآسانی انٹرنیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔لیکن ہمارے خارجہ
امور کے ماہر وزارء خارجہ اور ان ملکوں میں ہمارے سفارت کار چین سے بیٹھے
ہیں۔ حالات کے بدلتے ہوئے تیور ہمیں اس معاملے پر سستی کی قطعاً اجازت نہیں
دیتے، بھارت نے جب عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریاؤں پر ڈیم
تعمیر کرنے کے منصوبے بنائے تو ہم سیاست سیاست کھیل رہے تھے، جب اس نے ڈیم
تعمیر کر لئے تو ہم اب بھی اسی پرانے کھیل میں مشغول ہیں ہمیں شاید اس کا
احساس تب ہو گا جب ہم بوند بوند پانی کو ترس رہے ہوں گے اس وقت ہمارے لیڈر
عالمی عدالت انصاف کی چوکھٹ پر کٹورے لے کر پانی کی بھیک مانگ رہے ہوں گے
اور عالمی ادارے ہمارے مسائل کو حل کرنے کے لئے شاید قراردادیں بھی پاس کر
دیں لیکن ان قرادردوں کی اہمیت ایسی ہی ہو گی جیسے مسئلہ کشمیر پر پاس کی
گئی قراردادیں! حکومت پاکستان آج تک کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ
عالمی برادری کے سامنے پیش نہیں کر سکی۔ اس مسئلے پر جتنی ہماری نیت صاف
ہوتی ہے اتنا ہی عالمی برادری ردعمل بھی ظاہر کرتی ہے۔بلوچستان کے شرپسند
عناصر اور کشمیری مجاہدین یا علیحدگی پسندوں میں فرق ہے اور اس فرق کو قائم
رکھنے کے لئے کسی مخلص سفارت کار کی ضرورت ہے نہ کہ کسی سیاسی اداکار کی۔
دوسری طرف پاکستان کے اندر طالبان کی شکل میں ہونے والی دہشت گردی کو بھی
عالمی میڈیا اپنے مفادات کے تحت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ
سے جانے نہیں دیتا۔ غیر ملکی تنظیمیں پاک فوج پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ
دہشت گردوں کا ماورائے عدالت قتل عام کر رہی ہے ہماری حکومت اس مسئلے پر
بلکل خاموش ہے پاک فوج ہی اپنا مؤقف پیش کرتی ہے جو ناکافی ہے، حکومت یا تو
اپنی اس ذمہ داری سے غافل ہے یا وہ ان غیرملکی تنظیموں جن کے مفادات دراصل
کسی اور کے مفادات ہیں چاہے وہ طالبان کی صورت میں ہوں یا ان تنظیموں کی
شکل میں! بہرحال ایک ہیں کو جھٹلانے کی ہمت نہیں رکھتی۔
مسئلہ بلوچستان کا ہو ،کشمیر کا یا مسئلہ پاک فوج کے ہاتھوں دہشت گردوں کی
ہلاکتوں کا، حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے اور تاحال
حکومت کی ان معاملات میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی، لیکن مستقبل قریب میں
ان واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان کو مزید بدنام کرنے اور اسے عالمی
برادری میں نیچا دکھانے کے سامان تیار ہیں۔ ہمارے سیاستدان اپنے گھریلو
خارجہ امور کو کب تک نبٹا پاتے ہیں کچھ پتہ نہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ
خارجہ امور کے ماہرین اور اچھے سفارت کاروں کے لئے یہ گھڑی امتحان کی گھڑی
ہے انہیں گھروں سے باہر نکلنا ہوگا۔ ورنہ..... |