قلم بہت ہی متبرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھائی
ہےقلم کا احترام اور اسکے استعمال میں احتیاط ہر ایک پہ لازم ہے۔ بزرگوں
سےبارہا سنا ہے کہ اللہ رب العزت نے چار اشیاء اپنے ہاتھ سے بنائی ہیں۔ ان
میں سے ایک قلم بھی ہے۔ کئی حضرات جن کا پیشہ کالم نویسی ہے۔ اپنے آپ کو
بڑے فخر سے قلم کا مزدور کہتے ہیں۔ اور دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم کبھی بھی
قلم کا غلط استعمال نہیں کرتے۔ یعنی قلم کی مزدوری حلال طریقہ سے کی ہے۔
زرد صحافت کو اپنے پاس پھڑکنے نہیں دیا۔ آج کی زبان میں لفافہ صحافت سے دور
رہے ہیں۔ یقیناً ایسے صحافی کسی بھی معاشرہ کے لئیے باعثِ فخر اور قابلِ
تقلید ہوتے ہیں۔
ایوبی دور میں صحافت بہت محترم پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ چند لکھاریوں کے بارے
کہا جاتا کہ یہ حکومت کے زر خرید ہیں اور حکومت کے لئیے لکھتے ہیں۔ بھٹو
دور میں زرد صحافت معروف ہوئی۔ بلکہ صحافی دو واضع گروپس میں تقسیم ہوئے۔
دائیں اور بائیں بازوؤں کے لکھاری کے طور پہ جانے اور پہچانے جانے لگے۔
مبالغہ آرائی کا سرِعام آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔
لیکن اگر کسی کی غلط بیانی پکڑی جاتی تو لکھاری شرمندگی کے ساتھ ندامت بھی
محسوس کرتا۔ پرویز مشرف دور میں لکھاریوں کی فوج بھرتی کرنے کا رواج عام
ہوا۔ اور پھر اس رواج نے ایسا طول پکڑا کہ غیر جانبدار لکھاری کمیاب سے
نایاب کادرجہ اختیار کر گئے۔ ماسوائے روزنامہ اسلام کے کسی بھی اخبار کو
اٹھا کر دیکھ لیں۔ لکھاری بہت واضع شکل میں نواز شریف، زرداری ، عمران خاں
گروپس میں نظر آئیں گے۔ ہر ایک اپنے اپنے گروپ کے لئیے دوسروں پہ بہتان
بھرے کیچڑ نہیں پورا گھٹر انڈیلتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ شرافت ، اخلاقیات ،
رواداری ، سچائی ، قلم کی حرمت ، یا آخرت کی جوابدہی قصۂ پارینہ بن چکے
ہیں۔ ڈالرز اور پاؤنڈز میں تنخواہیں پاتے ہیں۔ اور اپنے اپنے باس کے لئیے
دوسروں کی عزت وناموس کوچیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ان فن میں جو جس اعلیٰ
درجہ کا ماہر ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑھیا معاوضہ پاتا ہے۔ آج کی زبان میں
اسکی اتنی ہائی ریٹنگ ہوتی ہے۔ ہمارے علاقہ میں حال ہی میں ایک کالم نویس
کے والد آنجہانی ہوئے تو بڑے بڑے سیاستداں حتٰی کہ وزراء تک انکے جنازے میں
شریک ہوئے۔ اس لئیے کہ وہ ہائی ریٹنگ کے لکھاری ہیں۔ وگرنہ ایک اخبار نویس
کی کیا حیثیت۔
ان کالم نویسوں میں کچھ کالم نویس ایسے بھی ہیں۔ جو کسی نہ کسی گروپ میں
شامل تو ہیں۔ مگر اپنے آپ کو اسلام پسند اورشریعت پسند کے طور پہ متعارف
کراتے ہیں۔ اور دین اسلام کے متعلق ہائی ریٹنگ لکھاریوں کا طریقہ واردات
اپناتے ہوئے۔ اپنی من پسند توجیعات اور تشریعات پیش کرتے رہتے ہیں۔ جموریت
جو کہ مغرب نے اپنی عسکری ، مالی طاقت اور میڈیا کے زور سے مسلمان معاشرہ
میں اس طرح نافذ کر دیا ہے کہ اب وہ اس معاشرہ کی ضرورت بن چکا ہے۔ اور
اسکی تقدیس اس طرح لوگوں کو ذہن نشین کرا دی گئی ہے کہ اسکے خلاف زبان پہ
حرف لانا گناہ اور جرم بنا دیا گیا ہے۔
ان لکھاریوں میں جناب غامدی صاحب کے شاگرد سب سے آگے ہیں۔ اور وہ غامدی
صاحب کے شاگرد ہونے کا فخریہ اعلان بھی کرتے رہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سب
سے زیادہ ڈالرز اور پاؤنڈز میں اجرت یہی لوگ پاتے ہیں۔ انکا کام مغرب کے
رائج کئیے گئے نظام کو موجودہ زمانہ کے لئیے سود مند اور اس سے ہٹ کر خسارہ
ہی خسارہ ثابت کی رٹ لگا کرعوام الناس کی ذہن سازی کرنا ہے۔ اور پھر اس کو
عین اسلام کے طور پہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ گو کہ انہیں شیطان کا مکمل تعاون
حاصل ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی کام ذرا مشکل ہے۔ اس لئیے معاوضہ لمبا چوڑا
پانے کے ساتھ انکو ریٹنگ بھی بہت ہائی دی جاتی ہے۔
ان میں ایک صاحب خورشید ندیم صاحب جو کہ سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی ) پہ ایک
پروگرام کے ہوسٹ ہیں۔ اور روز نامہ دنیا میں کالم لکھتے ہیں۔ دنیا ٹی وی
غامدی صاحب کا (گمراہ کن ) دینی پروگرام علم و حکمت کے عنوان سے نشرکرتا
ہے۔
ان دنوں پاکستان میں پارلیمانی نظام کو میڈیا میں چند گروپس ناکام کہہ رہے
ہیں۔ انکی رائے کے مطابق پارلیمانی نظام چونکہ ناکام ہو چکا ہے۔ اس لئیے اس
نظام کو خیرآباد کہہ کر صدارتی نظام نافذ کر دینا چاہئیے۔ صدارتی نظام کی
حمایتی صدارتی نظام کی حمایت میں کالم لکھ رہے ہیں۔ اور پارلیمانی نظام کے
طرفدار اپنا زورقلم پارلیمانی نظام کی حمایت میں صرف کر رہے ہیں۔ افسوس
دونوں اطراف کے لکھاری اپنے آقاؤں کی خوشنودی اور ڈالرز ،پاؤنڈز حاصل کرنے
کے لئیے زور آزمائی کر رہے ہیں۔ اسلامی نظام ِحکومت کے فیوض و برکات اور
بنی نوع انسان کے فلاح کے لئیے خالق کائینات رب العزت کے بنائے گئے نظام کا
ذکر کرنابھی ان ڈالرز کے غلاموں کو گوارا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ
سبحانہ وتعالیٰ نے ہوس کے پجاریوں کو حرصِ دنیا کے مرض میں مبتلا کر کے ان
سے توفیق چھین لی ہے۔ اور سزا کے طور ان پہ اغیار کی غلامی مسلط کر رکھی
ہے۔ اگر اسلام کا ذکر کیا بھی جاتا ہے تو اسی جمہوریت کی حمایت میں استعمال
کرتے ہیں۔ میرے نزدیک یہی سب سے افسوس ناک اور خطرناک پہلو ہے۔ اس پہلو کو
عامتہ الناس کے لئیے وضاحت کے ساتھ بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ تاکہ عام آدمی
اسلام کے نام پہ اسلام مخالفپروپیگنڈہ سے آگاہ رہے۔ اور دین کے نام پہ بے
دینی کا شکار نہ ہو۔
آج کے رائج الوقت مغربی نظامِ حکومت جمہوریت کی حمایت میں خورشید ندیم صاحب
لکھتے ہیں کہ جمہوریت کی نفی اجتماعی دانش کا انکار ہے۔ اور جمہوریت اسلامی
نظام ِحکومت کے قریب ترین نظام ہے۔( دروغ گوئی کی انتہاء ) جبکہ بقول شاعر
جمہوریت وہ نظام حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
جمہوریت ایسا نظام ہے کہ اگر نو افراد جن میں علماء اکرام ، یونیورسٹی
پروفیسرز ، ڈاکٹرز ، قانون دان شامل ہوں۔ اور دس افرادجن میں چرسی ،
افیونچی ، چور ، ڈاکو شامل ہوں تو ان دس افراد کے بالمقابل معاشرہ کے پڑھے
لکھے لائق ترین افراد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ قانون وہ بنے گا جو یہ دس
چاہیں گے۔ نظام وہ چلے گا جو یہ دس چاہیں گے۔ اور اس جمہوری نظام میں آئین
سب سے مقدس اور بالا ترین ہوتا ہے۔ آئین کا تقدس ہر طرح سے افضل سمجھا جاتا
ہے۔ ٹی وی بحث و مباحثہ میں اکثر کہا جاتا ہے اور اخبارات میں لکھا جاتا ہے
کہ آئین کی پاسداری ہر ایک پہ ہر حالت میں لازم ہے۔ جو آئین کی بالادستی کو
نہیں مانتا اسے غدار ِوطن کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ نظامِ اسلام میں
انسان کےتشکیل کردہ آئین کی بجائے قرآن و حدیث کومقدس اور بالا ترین سمجھا
جاتا ہے۔ اور قرآن و حدیث سے روگردانی کو ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے۔
قرآن و سنت کی پیروی ہر ایک کے لئیے لازم ہے۔ مندرجہ بالا تضادات کی وجہ سے
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم جمہوریت کو اس دور کا شرکِ اعظم کہا کرتے تھے۔
اور خورشید صاحب جمہوریت کو اجتماعی دانش کہہ رہے ہیں۔ یعنی عالم دانا نہیں
ہے۔ پروفیسر ،ڈاکٹر دانا نہیں ہیں۔ ڈاکو دانا ہے۔ چور دانا ہے۔ بدمعاش ،
رسہ گیر دانا ہے۔ یہ جمہوریت کے دانشور ہیں۔ اور جمہوریت کو دین اسلام کا
قریب ترین نظام لکھ رہے ہیں۔ یہ بے دینی کو دین کے نام پہ پھیلانے کی
شیطانی کوشش ہے۔
مغرب نے پوری دنیا میں اپنا تسلط قائم کرنے اور رکھنے کے لئیے یہ جمہوری
نظامِ حکومت مسلط کر رکھا ہے۔ اور مغرب اس نظام کے توسط سے اپنے ایجنٹوں کے
ذریعے پوری دنیا پہ حکومت کر رہا ہے۔ اس نظام کے قیام کی ضمانت کے لئیے
ضروری ہے کہ لوگ تعلیم یافتہ نہ ہونے پائیں۔ دنیا میں مغرب کے ماسوا جہاں
بھی جموری نظام رائج ہے۔ وہاں پسماندگی کے ساتھ ناخواندگی بھی راج کرتی نظر
آئیگی۔ مغرب کے لئیے اقوامِ عالم کو مطیع (غلام )رکھنے کے لئیے پسماندہ اور
ناخواندہ رکھنا لازم ہے۔ اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئیے اپنے ظالمانہ
نظام ِحکومت کو اسلام کا تڑکا لگانا بھی ضروری ہے۔ خورشید ندیم ہر ملک میں
وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ڈالرز اور پاؤنڈز میں چمک بہت ہے اس لئیے
ڈھونڈنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ |