انسانوں کے رویوں کو اپنی مٹی اور کلچر سے جدا کر کے
سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ہر مٹی کی اپنی تاثیر ہے اور یہی وجہ ہے کہ علاقائی
رسم ورواج انسانوں کی شخصیت کا تعین کرتے ہیں ۔ انسانوں کو ان کی کی مٹی کی
تاثیر سے ہی پہچانا جاتا ہے کیونکہ ان کا میلانِ طبع اپنی مٹی اور ثقافت سے
ہی ارتقاء پذیر ہو تا ہے۔اپنی مٹی سے جڑے رہنے کی کی یہ سوچ قومی سوچ میں
منعکس ہو کر ان کا مائنڈ سیٹ بن جاتی ہے جسے بدلنا ممکن نہیں ہوتا۔اہلِ
دانش اسے پتھر پر لکیر سے بھی تعبیرکرتے ہیں ۔برِ صغیر میں رہنے والوں
کیلئے ہندوترا اور اسلام کی باہمی کشمکش یہاں کے افراد کی زندگیوں کا جزوِ
لا ینفک ہے جس نے ان کی زندگیوں پر گہرے نقوش مرتب کئے ہیں۔اسلام کے شیدائی
ہندو ترا کو انسانیت کش رویوں کا مذہب قرار دیتے ہیں کیونکہ اس مذہب کے
ماننے والوں نے مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں جبکہ ہندو ترا
کے پجاریوں کوپنے ہی گڑھ میں صدیوں پر محیط اسلامی حکومت کے قیام کا صدمہ
ہے جس سے وہ تاحال نجات نہیں پا سکے۔وہ اس قبضہ کو اپنی ثقافت اور مذہب پر
کسی یلغار سے کم نہیں سمجھتے۔مسلمانوں کے لئے ہندو کی غلامی کسی بھی دوسری
قوم کی تابعداری سے زیادہ سنگین ہے ۔ اگر پاکستان کا کوئی حکمران بھارتی
حکمرانوں سے دوستی اور میل جول کی راہ اپناتا ہے تو قوم میں غم و غصہ کی
لہر دوڑ جاتی ہے۔ذولفقار علی بھٹو اس نفسیاتی سوچ سے بخوبی آگاہ تھے تبھی
تو وہ بھارتی حکمرانوں کو للکارتے تھے ۔وہ مسز اندا گاندھی کو مائی کہہ کر
پکارتے تھے حالانکہ وہ ان کی ہم عمر تھی۔در اصل ایسا کہنے سے قوم میں احساسِ
برتری کا جذبہ اجاگر کرنا مقصود تھا۔بھارتی حکمرانوں کو آہن گداز بن کر
ملنے والے حکمران سدا عوام کی آنکھ کا کا تارا بنے رہے ۔ ایک ہزار سال تک
جنگ کا اعلان کرنے والے ذولفقارو علی بھٹو پلک جھپکنے میں مقبولیت کی
انتہاؤں کو چھونے لگے تھے۔۱۹۶۵ کی جنگ میں جنرل ایوب خان کی تقریر کا یہ
جملہ کہ بھارت کو علم نہیں کہ اس نے کس قوم کا للکارا ہے عوامی جذبات کا
حقیقی ترجمان بناتھا۔بھارت کے سامنے لوہے کی دیوار بننے والے حکمران عوام
کی محبتوں کے امین بنتے رہے ہیں لیکن اس کے لئے بھی بڑے دل گردے کی ضرورت
ہوتی ہے۔اپنے سے بڑی طاقت کو للکارنا غیر معمولی بات ہو تی ہے اور ہر کوئی
للکارنے کی جرات نہیں رکھتا ۔ جنرل پرویز مشرف نے شروع شروع میں بڑی اڑان
بھری تھی اور آگرہ اور دلی میں بھارت کو خوب آنکھیں دکھائیں تھیں ۔ لیکن
بعد میں عالمی دباؤ کے تحت انھیں سارک کانفرنس میں بھارتی وزیرِ اعظم اٹل
بہاری واچپائی کے سامنے انتہائی بھونڈے انداز میں دستِ دوستی دراز کرنا پڑ
گیا تھا جسے قوم نے پسند نہیں کیا تھا۔،۔
ہندو کی مکاری اور اس کی عیاری نے قوم کو ایسے چرکے دئے ہیں کہ کوئی
پاکستانی بھی ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔سات سو سالوں تک ہندوستان
پر حکومت کرنے والی قوم نے ہندو کی تنگ نظری سے جس طرح زخم اور کچکوچے
کھائے ہیں وہ انھیں سدا بے چین و بے کل رکھتے ہیں۔مسلمانوں کو محض اس وجہ
سے کہ وہ مسلمان ہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیاتھا۔ان کی املاک کو تباہ
کیا گیا تھا اور ان کے اہلِ خانہ کو یرغمال بنایا گیا تھا اور یہ سلسلہ
ہنوز اسی طرح سے جاری و ساری ہے۔میرے بہت سے بھارتی مسلمان دوست جو میرے
ساتھ ایک ہی فرم میں کام کرتے تھے ہندو کی خو شنو وی کی خاطر ہندو سے بھی
زیادہ پاکستان کی مخالفت کرتے تھے حالانکہ ان کا دل اندر سے مخالفت کی
گواہی نہیں دیتا تھا اور انھیں بعد میں اظہارِ تاسف بھی کرنا پڑتا تھا۔اس
کی وجہ بڑی سادہ تھی کہ ہندو سے دشمنی رکھ کر کوئی مسلمان بھارت میں پر امن
رہنے کا گمان نہیں کر سکتا ۔نریندر مودی نے گجرات میں جس طرح کشت و خون کا
بازار گر م کیا تھا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جدید دنیا میں اس طرح کی
سفاکیت کی مثال تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔کشمیر میں سنگینوں کے سائے میں
کشمیریوں کو جس طرح شہید کیا جا رہا ہے وہ سمجھ میں آتا ہے کہ کشمیری آزادی
کا مطالبہ کرتے ہیں اور آزادی مانگنے والوں کو ہمیشہ سولیوں پر لٹکایا جا
تا ہے اور آزادی کے دیوانے پھانسیوں سے گھبرا کر آزادی کی راہ سے ہٹا نہیں
کرتے۔بسالتوں کا ستعارہ مظفر وانی اسی لئے تو کشمیریوں کی آنکھ کا تارا ہے
کہ اس نے جبر کے سامنے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا لیکن گجرات میں تو
ایسی کوئی کیفیت تھی ہی نہیں بلکہ وہاں پر تو ہندو مسلم باہم شیرو شکر تھے
لہذاگجرات میں نریندر مودی کی سفاکیت مسلمانو ں سے صدیوں کا حساب چکتا کرنے
کی کوشش تھی۔
برِ صغیر میں رہنے والے افراد کی سوچ کا موازنہ عربوں کی سوچ سے نہیں کیا
جاسکتا۔وہ قوم جس سے برِ صغیر کے مسلمانوں کے لہو سے اپنی شمشیروں کی پیاس
بجھائی اور ان کے بے گناہ خون سے اپنے ہاتھ رنگے وہ عربوں کے بہترین دوست
ہیں کیونکہ ان کی سر مایہ کاری پاکستان کی نسبت بھارت میں کہیں زیادہ ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ عربوں کے تعلقات بھارت سے بڑے گہرے ہیں جس کا واضح
ثبوت وہ مندر ہے جو آجکل یو اے ای میں زیرِ تعمیر ہے ۔بت پرستی کے مراکز کی
عربوں کے ہاں تعمیر کسی سانحہ سے کم نہیں ہے لیکن یہی سچ ہے ۔جہاں سے بت
پرستی کو حرفِ غلط کی طرح مٹا یا گیا تھا وہاں پر ہی بت پرستی کا احیاء ہو
رہا ہے۔کیا اس سے اس بات کے اشارے نہیں ملتے کہ عربوں کو ہندوترا کی کوئی
فکر دامن گیر نہیں ہے اور انھیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہندوؤں نے
مسلمانوں کو کس طرح جبر کے سائے میں قیدی بنا یا ہوا ہے ؟ان کی نظر میں
اسرائیل دشمنی ہر چیز پر بھاری ہے۔عربوں کے ہاں اگر یہودیت کی مخاصمت ہے تو
ہمار ے ہاں ہندوترا کی مخاصمت ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان نے عربوں سے
اظہارِ یکجہتی کی وجہ سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور پھر عرب اسرائیل
جنگ میں جس طرح ہماری ائر فورس نے اسرائیل کو سبق سکھایا تھا وہ اسرائیل کو
خوب یاد ہے ْ جس کی وجہ سے اسرائیل بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑکر کے ہماری
سالمیت پر حملے کرتا رہتا ہے ۔جنرل پرویز مشرف نے بہت کوشش کی تھی کہ
اسرائیل کے بارے میں قومی سوچ کو بدلا جائے لیکن انھیں منہ کی کھانی پڑی
کیونکہ قوم نے ایسی کسی سوچ کا ساتھ دینے کی بجائے جنرل پرویز مشرف کو آڑے
ہاتھوں لیا جس سے انھیں اپنی سوچ کو بدلنا پڑا تھا۔ پاکستانی قوم کی ایسی
فکری راہنمائی کا فریضہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے ادا کیا تھا۔بڑے ادیب
کا یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ قوم کا مائنڈ سیٹ تشکیل دیتا ہے اور جو مائنڈ
سیٹ انھوں نے تشکیل دیا تھا س میں امتِ مسلمہ کا درد اور اس کی عظمت کا
تصور پنہاں تھا ۔ جس طرح اسرائیل کے معاملہ میں پاکستان مضبو ط دیوار کی
طرح کھڑا رہا عربوں نے بحثیتِ مجموعی ایسے رویوں کا اظہار نہیں کیا۔عراق کے
صدام حسین ،فلسطین کے یاسر عرفات ،عمان کے شاہ حسین کشمیر پر بھارت کی مذمت
نہیں کرتے تھے بلکہ در پردہ ان کے موقف کی تائید کرتے تھے ۔ کشمیر کا مسئلہ
ہو یا بھارت میں مسلمانوں کی بقا کا سوال ہو اسے صرف پاکستان کے عوام ہی
محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ انھوں نے اسے بھگتا ہوا ہے اور پھر پڑوسی ہونے کے
ناطے وہ اس سے براہِ راست متاثر ہیں۔ آگ اور خون کے دریا کو ۱۹۴۷ میں
انھوں نے ہی عبور کیا تھا لہذا ان کے ا حساس کی گہرائی تک کسی دوسری قوم
اور ملک کا پہنچنا ممکن نہیں ہے ۔ ہندوترا کو ان سے بہتر کوئی جان نہیں
سکتا لہذا جب تک برِ صغیر میں مسلمانوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہو جا تا اور
کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا پاکستانیوں کی بے چین روح کو قرار نہیں آ
سکتا۔احساس کا یہی بندھن کشمیر کے حریت پسندوں اور بھارتی مسلمانوں کے لئے
امید کی کرن ہے اور ہم نے بحثیتِ قوم امید کے اس دئے کی لو کو کم نہیں ہو
نے دینا۔،۔ |