پاکستان پیپلز پارٹی آزادکشمیر کے صدر لطیف اکبر نے کے
ایچ خورشید اسٹیڈیم شہدائے زلزلہ کی سالانہ تقریب سے خطاب میں کہا تھا
نالائق ٹیم اچھے کیپٹن کو مروا دیتی ہے اس کا اُلٹ کریں تو نالائق کیپٹن
بھی اچھی ٹیم کا بیڑہ غرق کر دیتا ہے ‘ لطیف اکبر وزیر خزانہ تعمیرنو تھے
جب اپنے خطاب کے آخر میں یہ جملہ استعمال کیا جو ان کی بے بسی اور مصلحت
مجبوری ظاہر کر رہا تھا حکومت کا فریضہ انتظام کیلئے وسائل فراہم کرنا اور
ول پاور دینا ہوتا ہے سرکاری مشینری سے اس کے باوجود مطلوبہ مقصد میں
کمزوریاں خامیاں رہ جائیں تو کوئی بات نہیں مگر سب کچھ اُلٹ پلٹ کر دیا
جائے تو تکلیف ناقابل بیان ہوتی ہے اس تقریب میں آج کے وزیراعظم فاروق حیدر
بطور قائد حزب اختلاف موجود تھے ‘ کوئی شبہ نہیں کہ سابقہ حکومت نے
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی سربراہی میں جس کا اہم کردار لطیف اکبر تھے
بہت سے بڑے اچھے کام کیے آج کی حکومت کے سربراہ راجہ فاروق حیدر خان نے بھی
کمال کام کیے ہیں جن کے حصے میں آزادکشمیر کے ایکٹ 1974ء کو واقعتا آئین
میں بدلنے کا عظیم کارنامہ نیشنل ریجنل مفادات کو یکجا کر کے سرانجام پایا
تو پبلک سروس کمیشن ‘ فیملی کورٹس ‘ این ٹی ایس جیسے بڑے کام ہیں ‘ ترقیاتی
بجٹ کا دوگنا ہونا ان کا مقدر ہے دیگر بھی بہت سے فیصلے اقدامات ہیں جن سے
انکار نہیں کیا جا سکتا بامقصد تعمیری اختلاف کرنا بھی صاحب الرائے لوگوں
کا حق ہے فریضہ بھی ہے ‘ طریقہ کار پر خود ان کی پارلیمانی پارٹی میں مختلف
رائے ہے یہ مردہ کے بجائے زندہ جوش ولولے ‘ صاف پانی کی علامتیں ہیں مگر
ظلم یہ ہے کہ جب حیران کن لطیفے ہوتے ہیں تو بڑے چھوٹے تمام غلطیوں کا
الزام حکومتوں پر لگادیا جاتا ہے یہ وہ سب سے بڑی منافقت ہے جو سیاستدانوں
سے لے کر تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ماسوائے کچھ لوگوں کے سب کرتے
ہیں اور اصل محرک کا نام یا اصل وجہ کو چھپا لیا جاتا ہے جس کا سلسلہ آج تک
جاری ہے صاحب علم کہتے ہیں جب تک دنیا میں نیک لوگ موجود ہیں قیامت نہیں
آئے گی اسی طرح سیاست بیورو کریسی سمیت تمام شعبہ جات میں اچھے باعمل لوگ
موجود ہیں اس لیے نظام چل رہا ہے ورنہ بغیر عمل کے اچھے اور اپنے منہ سے
اچھے کہلانے والوں تک ہوتا تو شاید بیڑہ غرق ہو چکا ہوتا جن کے باعث باعمل
اچھے بھی برباد ہو جاتے ہیں یا مایوس ہو کر سرپیٹتے ہیں کہ ہم سے کیا گناہ
ہو گیا ہے۔
اِک دو زخم نہیں سارا بدن چھلنی ہے ۔۔ درد بے چارہ پریشان ہے کہاں سے اُٹھے
یعنی نیلم جہلم ہائیڈرل پراجیکٹ میں پہاڑوں جیسی کرپشن کرنے والوں کو بے
نقاب کرتے ہوئے سزا مل جاتی تو آج کوہالہ کی باری لوگ دھرنا دیکر نہ بیٹھے
ہوتے سوکھی لکڑی کے ساتھ گیلی بھی جل جاتی ہے کوہالہ پراجیکٹ لگنا چاہیے ‘
احتجاج کرنے والوں سمیت کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر نیلم جہلم کے
وقت ماحولیاتی پانی سیوریج سمیت تمام مطلوبہ کام بھی کر لیے جاتے تو شاید
آج یہ بداعتمادی نہ ہوتی جس کا اظہار کرنے والے یا نہ کرنے والے اصل بیماری
کا اظہار نہیں کرتے جو کرپشن ہے اور ظلم یہ ہے کہ وہاں والے یہاں والوں کے
یہاں والے وہاں والوں کے آئین قانون اختیار میں نہیں آتے اس لیے اصل مافیا
دونوں طرف بربادی مچائے ہوتے ہے سزا ملک ملت عوام کو کاٹنی پڑتی ہے ڈاکو کو
گجرات میں پکڑے جانے کا خطرہ ہو تو سماہنی آ جائے سماہنی میں ہو تو گجرات
چلا جائے یہی حال سرکار کے اصل ہاتھ پاؤں مشینری میں بیٹھے چھوٹے چھوٹے
مودیوں کا ہے جن کی نمائندگی سرکاری غیر سرکاری ہر شعبہ زندگی میں پوری قوت
کے ساتھ موجود ہے بظاہر ایک دوسرے کے خلاف مگر عملاً ہر جماعت ‘ محکمہ ‘
شعبہ زندگی میں ہونے کے باوجود ان کا نیٹ ورک ایک ہے جس کو ہمارے سارے سماج
کے اس مرض کا بہت بڑا فائدہ ہے کہ اصل جرم کرنے والے مجرم اور مرض وجہ کا
نام لیتے نشاندہی کرنے کے بجائے گلوسلو غصہ کر دیتے ہیں تاکہ ناراضی ہو نہ
تعلق پر فرق آئے نتیجہ اپنی اور آئندہ نسلوں کی بربادی کینسر جیسے مرض کی
طرح تباہی کرتی جا رہی ہے ذاتی طور پر اس حوالے سے اسٹیلشمنٹ کی حمایت کرتا
ہوں کہ ملک میں کرپشن کے خلاف حکومت ‘ عدلیہ کی پشت بان بنی ہے تو دفاع وطن
سے زیادہ مقدس کام کر رہی ہے یہ احسان بھی کرے نیلم جہلم پراجیکٹ کم خرچ
میں مکمل ہو سکتا تھا تو زیادہ میں کرنے والوں کو اڈیالہ جیل بند کرائے جن
کی کرپشن کیلئے تمام تر توجہ کے باعث عوامی مفاد کے بارے میں ایک بار بھی
نہیں سوچا خمیازہ ملک ملت سمیت عام عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے جو کرپشن کی
فصل کے نتیجہ میں مہنگائی ناقابل برداشت ضرور ہے مگر قوم قربانی دے رہی ہے
کہتے ہیں کہ بلکہ روز روشن کی طرح عیاں ہے بڑے سے بڑا گناہ گار ہو یا کافر
ہو جو اللہ پر ایمان نہ رکھتا ہو وہ بطور حکمران انصاف سے کام لے تو اللہ
خلق خدا کے ساتھ نیک سلوک کے عزم و عمل پر اس پر بھی اور رعایا پر انعام
فرماتا ہے ساری دنیا بشمول ہمارے ملک کے ماہرین کی رپورٹس بتا رہی تھیں کہ
ماحول موسم پانی اور پھر ان سے منسلک عوامل کے حوالے سے بہت بڑے خطرے
چیلنجز ہیں جو دنیاوی تحقیق کے لحاظ سے سو فیصد درست تھیں مگر اس بار برف
باری بارشوں نے 30سالہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں یہ بھارتی جہازوں کی تباہی کی
طرح خالصتاً اللہ کا انعام ہیں جس کے تسلسل میں ضروری ہے کہ انصاف سب کے
لیے ایک جیسا ہو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خالصتاً فوجی پیشہ
وارانہ باعمل انداز ‘ خیالات ‘ پالیسیوں سے فوج کا وقار بلند ہو چکا ہے یہ
بھی قدرت کا انعام ہے جس کے ثمرات کے تسلسل کیلئے ضروری ہے کہ نیلم جہلم
پراجیکٹ کی کرپشن والوں کو بھی سزا ملے پھر یہاں تعمیر نو کے تحت چار ارب
کے واٹر ‘ سیوریج پلانٹ کی ناکامی کے ذمہ داروں کو بھی جیل بھجوایا جائے
اگر چار ارب کا پراجیکٹ ناکام ہو گیا تو ہماری حکومت ایک ارب سے واٹر
سپلائی پراجیکٹ کس طرح کامیاب کریگی ‘ اس لیے ملک کے دشمن سامراج اور بھارت
سے زیادہ خطرناک کرپشن ہے اس کے خاتمے کے لیے مصلحت مجبوری حالات نہیں ایک
جیسا سلوک و عمل ضروری ہے جو رضا ئے الٰہی کو ہمیشہ کے لیے مہربان کر دے
میرے جیسے کتنے ہی رکشہ سوزوکی کے کرائے کے پیشہ نہ ہونے پر چھتر سے اولڈ
سیکرٹریٹ فٹ پاتھ پر پیدل چلتے ہوئے آ جاتے تھے یہ فٹ پاتھ ختم کر دی گئی
ہے کام کرنے والے غلطیاں کریں تو درگزر لازمی امر ہے مگر غلطی کا مداوا
ہونا چاہیے اور پھر دفاعی دفاتر مراکز سب سے مصروف اہم روڈ کے بجائے کھلی
اور فاصلے کم توجہ والی جگہوں پر ہونے چاہئیں‘ جنرل باجوہ کو اس طرح بھی
توجہ مرکوز کرنی چاہیے اگر یہ سول انتظامیہ کی سستی ‘ کاہلی کا سبب ہے تو
عمران حکومت کی طرح یہاں کی حکومت کو بھی بھرپور تعاون ملنا چاہیے وہ مافیا
کی سازشوں سپورٹ کے تاثرات سے بے فکر ہو کر کارروائی کرے بلکہ یہاں کی
حکومت کو جماعت ششم کی تاریخ کی کتاب کا جیتا جاگتا بلنڈر دیکھنا چاہیے میں
سندھ دھرتی اس کے عوام سے بہت عشق رکھتا ہوں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے
اللہ درجات بلند فرمائے جس کے علم تحقیق کے مطابق امام مہدی السلام کو ظہور
کے بعد مشرق سے جو لشکروں کی قوت ملے گی اس کا آغاز سندھ سے ہوگا جس میں
بھارت ‘ مقبوضہ کشمیر ‘ افغانستان سمیت گردونواح سے آنے والے دریا آ کر ضم
ہوتے ہیں انہی کے قرب و جوار سے تعلق رکھنے والے ملکر لشکروں کی شکل اختیار
کر کے سندھ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی کی مدد کیلئے دجالوں
کیخلاف جا ملیں گے مگر یہ جو یہاں کے چھوٹے چھوٹے دجال ہیں ان کے خاتمے
کیلئے جماعت فکر اور چہرے نہیں بلکہ نیت عمل والوں کو مدد دی جائے ورنہ
سارے نظام کے اچھے باعمل لوگ مایوس ہو کر ناکام ہوتے رہیں گے کیا یہ ظلم
نہیں کہ یہاں کے ٹیکسٹ بک بورڈ کیلئے عقل کے استعمال کو بھی اہمیت نہ دی
اور سندھ کی تاریخ والی وہاں جماعت ششم میں پڑھائی جانے والی کتاب کو صرف
اپنے نام لکھوا کر یہاں پڑھانا شروع کیا ہوا ہے یہاں کی حکومت خود بھی
ایکشن لے جو نظر آئے کہ سرکاری نظام تعلیم کو تباہ و برباد کرنے والے
سرکاری مشینری کے دجالوں کے پیروکاروں کا کتب چھپائی کا یہ حال تو باقی پھر
کیا ہو گا یہ تو مسلم لیگ (ن) کا یہاں انتخابی منشور تھا کہ یہاں کے
آفیسران ملازمین کو ملک کے دیگر صوبوں اور صوبوں والوں کو یہاں لا کر
سیکھنے سکھانے ‘ کام بہتر بنانے کیلئے پوسٹنگ ‘ ٹرانسفر کی جائے گی اس کے
بغیر اصلاح بہتری کیلئے جتنے بڑے کام کریں نتیجہ آخر پر بربادی ناکامی نکلے
گا ‘ اسٹیلشمنٹ خصوصاً آرمی حکام کو بھی اس طرف بھرپور کردار ادا کرنا
چاہیے محض پاکستان کا نعرہ یا قومی ملی مفاد کی باتیں کر کے بلیک میل پھر
اداروں کی بدنامی کا سبب بننے والے نالائق مصنف ہو یا لیڈر بیورو کریٹ ہو
یا وکیل ‘ صحافی ‘ سماجی کارکن کا لبادہ اوڑھے نوسرباز یہ اپنی نااہلی
کرپشن چھپانے کیلئے مقدس بڑے ناموں کو فروخت کرتے ہیں ان پر ہاتھ ڈالا جائے
تو نعرہ نظریہ سب کچھ بدلنے کا ڈنگ مارتے ہیں قومی مقاصد کے لیے باتیں نہیں
عملی کام کرنے والوں کو مضبوط بنائیں ۔
|