• آج ارض سپین کے بہت ہی تاریخی شہر قرطبہ کو دیکھنے کے
لئے رخت سفر باندھے تیار بیٹھے ہیں۔اس شہر کےنام نامی کے بارے میں ،اس کرہ
ارض پر بسنے والے بیشتر لوگ کسی نہ کسی رنگ میں اس نام سےآشنا اور مانوس
ہیں۔ایک مسلمان جب اس شہر کی جانب رخ کرتا ہے تو فطرتی طور پر اس کے قدم
بوجھل ہوجاتے ہیَں اور اس کے چہرے پر دکھ درداوریاسیت کے بادل چھا جاتے
ہیں۔اورساتھ ہی آنکھوں کے سامنے ایک فلم سی چل پڑتی ہے۔جس میں کئی ادوار
پر مشتمل مناظر پردہ سکرین پر نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
• آپ کو جبل طارق سے، طارق بن زیاد کی وہ تاریخی تقریر کے االفاظ فضا میں
گونجتے محسوس ہوتے ہیں۔کہیں آپ کو گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور تلواروں کی
چھنچھناہٹ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
• میرے تخیل میں قرطبہ کی جامع مسجد جسے کسی دور میں دنیا بھر کی بڑی مسجد
ہونے کا اعزاز تھا۔اس میں اذان کی صدا گونج رہی ہےاور لوگ عربی لباس میں
زیب تن ہیں ۔جن کے قدم جلدی جلدی پکارنے والے کی آواز حی علی الصلوۃ کے
جواب کےلئے بے اختیار مسجد کی جانب اٹھ رہے ہیں۔تھوڑی ہی دیر میں اقامت کے
بعد امام اللہ اکبر کہتا ہے تو پھر ہر جانب صفوں میں اپنے خالق ومالک
کےحضور دستہ بستہ رازونیاز میں لگ جاتے ہیں۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
لیکن بدقسمتی سے یہ ایک چرچ میں تبدیل ہوچکی ہے۔
مسلمانوں کی اس خطہ میں آمد سے اس قوم کی قسمت کاستارہ کچھ یوں چمکا کہ
دیکھتے ہی دیکھتے یہاں سے سر بلند ہونے واال شعاوں سے دنیا بھر کی مشعلیں
روش ہونا شروع ہوگئیں
علم وعرفان کے سمندر
الفضل ما شھدت بہ الاعداء
حقیقی شرف وہ ہوتا کہ جس کا اظہاراغیار کریں
علم دوست، مسلمان حکمرانوں کے سایہ عاطفت میں ایسے گوہر نایاب پیدا ہوئے کہ
جن کی فکری،علمی ،تحقیقی اور قلمی کاوشیں اب امر ہوچکی ہیں۔
اپنے تو کیا ،اغیار بھی اس بات کے معترف ہیں ،کہ مسلمان حکمرانوں کے اس
سنہری دور میں جو خدمت بنی نوع انسان کی بھلائی اور فلاح و بہبود کی خاطر
منصہ شہود پر ظاہر ہوئی ۔وہ بس اپنی مثال آپ ہے۔
اس سنہری دور میں دنیا سے بے خبر علماء کہیں فضا کو مسخر کرنے کے لئے سر
جوڑ ےمحو فکر ہیں ،کوئی وقت پر قابو پانے کے لئے گھڑیاں ایجاد کرنے میں
مصروف عمل ہے الغرض ہر جانب یہ لوگ مختلف علم ودانش کےخوابوں کو حقیقت کی
تعبیر دینے میں شب وروز اپنی اپنی الگ الگ دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔جس کے
نتیجہ میں واقعی اس قوم نے اپنا نام پوری دنیا میں نمایاں اور درخشندہ
بنالیا۔لیکن الہی قانون کے مطابق جب ہم ان شرائط پر پورے نہیں اترتے تو پھر
پھرتلک الایام نداولھا بین الناس کا الہی ارشاد بھی تو سچا ہے۔جس سے مفر
نہیں۔کیونکہ تھور کی کاشت سے گلاب کی خوشبوئیں تو فضا کو معطر کرکے داد
تحسین نہیں پا سکتی ہیں۔وہی ہواجو ہونا چاہیے تھا۔
اس افق پر ایک اداس سور ج طلوع ہوتا ہے
اس کے بعد نظارہ بدل جاتا ہے۔مسلمان ارباب اقتدارمیں دینی غیرت کا فقدان،
محلات کی زیب و زینت میں سامان حرب کی بجائے عیش وعشرت کے سازو سامان ،طاوس
ورباب جگہ بنا لیتے ہیں۔سیف ذوالفقار کی جگہ پازیب کی جھنکار فضا میں
گونجنا شروع ہوجاتی ہیں ،۔
ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا
حصول اقتدار کے لئے اندرون خانہ منافقت کی گھناونی سازشیں درودیوار کا جزو
بن جاتی ہیں۔پھر نتیجہ ظاہر ہے ،کہ ایسے کرتوت قوم کو ترقیات کے زینہ سے
زوال اور ذلت کی اتھا ہ گہرائیوں میں لے جاتی ہیں ۔پھر وہی ہوا جس کا ڈر
بلکہ یقین تھا۔
ناقابل یقین حقیقت
صلیبی طاقتوں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خؒلاف نفرت کینہ اور تعصب کی جو
چنگاری صدیوں سےدبی ہوئی سلگ رہی تھی۔ہوا لگنے سے، دیکھتے ہی دیکھتے شعلے
کی صورت اختیار کرجاتی ہے صدیوں کی عرق ریزی اور جانفشانی سے سینچا ہوا
،سرسبز وشاداب گلستان پل بھر میں جل کر خاکستر ہوجاتاہے۔مسلمانوں پر حملے
کئے۔ خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی ، شہروں کے درودیوار انسانی خون سے سرخ
ہوگئے۔ ان گنت مسلمانوں کو تہہ تیغ کر کے وحشی فطرت نام نہاد انسانوں نے
خون کی پیاس بجھائی ہوگی۔
آج کے علم دوست اور علمی میدان میں ترقی کے دعویداروں نے دنیا کی بہترین
علمی درس گاہوں کا پامال کرکے رکھ دیا،کتب کے بیش قیمت خزانے جل کر ابدی
نیند سوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی عند التلاقی
|