وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹیم بدلی بہت اچھا کیا
وزیرخزانہ اسد عمر کے حوالہ سے میں نے بہت پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا
کہ کپتان اپنے اس چہیتے سے جتنی جلدی ممکن ہوسکے جان چھڑوالیں تو یہ انکے
لیے ملک کیلیے اور قوم کے لیے بھی بہتر ہوگا اسی طرح پنجاب میں بھی اگر
عمران خان قومی دولت لوٹنے والوں کو اپنے ساتھ رکھیں گے تو پھر یہ نظام
کیسے چلے گا ہماری آدھی سے زیادہ بیوروکریسی ابھی تک عمران خان کو بطور
وزیراعظم تسلیم ہی نہیں کررہی ہمارے سیاستدان جو کروڑوں روپے لگا کر
اسمبلیوں میں آئے ہوئے ہیں انکے پیسے ابھی تک کہیں سے پورے نہیں ہورہے اور
جو اربوں روپے قوم کے لوٹ کر صاحب اقتدار ہوچکے ہیں وہ پھر کسی نئی لوٹ مار
کی تلاش میں ہیں مگر عمران خان کے ڈر کی وجہ سے وہ کھل کر کھیل نہیں رہے ہم
پر حکمرانی کرنے والے بہروپیوں نے کیسے کیسے بھیس بدل کر ہمیں لوٹا اسکی
مثال نہیں ملتی مگر ہم پھر بھی انہیں ہی اپنا لیڈر مان رہے ہیں ہمارا ایک
ادارہ ہوا کرتا تھا این ڈی ایف سی کے نام سے جو انتہائی کم مشرع سود پر
قرضے دیا کرتا تھا جسکا مقصد ملک میں انڈسٹری کا فروغ تھا مگر ہمارے حکمران
سیاستدانوں نے اپنے ہی ہاتھوں اس ادارے کا نہ صرف بیڑہ غرق کردیا بلکہ
اربوں روپے کا قرضہ بھی ہڑپ کرلیا اس ادارے کے چیئرمین میاں سعید نے جب ان
قرضہ خوروں سے پیسے واپس لینے کے لیے اپنی کوششیں تیز کی تو اس وقت کے
وزیرخزانہ شوکت عزیز نے یہ کہہ کرانہیں منع کردیا کہ چوہدری شجاعت وغیرہ سے
ہماری ڈیل چل رہی ہے اس لیے ان سے متعلقہ قرضوں کو دفعہ کرو جب ملک
کاوزیرخزانہ ہی قرضہ خوروں کے ساتھ ملا ہوا ہو تو پھر وہاں پر نوکری کرنے
کا کیا فائدہ یہی وجہ تھی کہ میاں سعید نے استعفی دیدیا ایسے محب وطن اور
قوم کا درد دل رکھنے والے افراد گوشہ نشین ہوگئے ابھی چند دن پہلے جناب
امتیاز علی کھبڑواور قمر زمان کا مجھے ایک میسج آیا جس میں این ڈی ایف سی
کے حوالہ سے کچھ تفصیلات درج تھیں کہ سال 2000ء میں جب مشرف دورتھا اور
انکے حکم پر اپنے چیئرمین میاں آصف کی زیرنگرانی غلام مصطفی جتوئی ،یوسف
رضا گیلانی ،چوہدری شجاعت ،چوہدری پرویز الہی ،توکل گروپ،دادا بھائی گروپ ،شون
گروپ ،پاک لینڈ سیمنٹ ،انوار زیب وائٹ سیمنٹ متعددایسے افراد سے 88ارب روپے
ریکوری کروا رہے تھے اور یہ افراد بلکل تیار تھے مگر اس وقت کے وزیرخزانہ
اور بعد کے وزیراعظم شوکت عزیز نے نہ جانے کس ڈیل کے تحت قومی دولت لوٹنے
والوں سے ریکوری رکوا دی این ڈی ایف سی نے اس وقت تقریبا 12 کھرب 76ارب کا
قرضہ اپنے ڈیفالٹرز سے لینا ہے انہیں افراد کی ایک درد بھری تحریر بھی اپنے
پڑھنے والوں کی نظر کرنا چاہتا ہوں FTC کے 6 فلور 7 فلور پر پاکستان کے سب
سے بڑے قومی مالیاتی ادارے NDFC کا ہیڈ آفس تھا اور NDFC نے سال 1973 سے
پاکستان کی ترقی کے لیئے پاکستان میں بڑی بڑی انڈسٹریز یعنی شگر ملز،
ٹیکسٹائیل ملز، سیمینٹ انڈسٹریز، پاور پلانٹس اور اس کے علاوہ مختلف
انڈسٹریز لگواکر پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر سال 2000
میں چیئرمیں NDFC میاں آصف سعید نے NDFC سے لیا ہوا قرض تقریبا 88 ارب
روپیہ واپسی کے لیئے سخت اقدامات کیئے جس کی وجہ سے سال 2000 میں ہی تقریبا
22 ارب روپے NDFC کے نادہندگان سے واپسی ہونے والی تھی مگر پاکستان کی
اشرافیہ بڑے بڑے سیاستدانوں نے NDFC کے کچھ بڑے آفیسرز سے ملکر سال 2001
میں اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز سے NDFC کو بند کروادیا اور یوں
پاکستان کی قوم کی ترقی کے نام پرآئی ایم ایف ،ورلڈ بنک اور دنیاکے بڑے
بینکوں سے لیا ہوا قرضہ پاکستان کی غریب قوم کے کھاتے میں ڈال کر بڑے لوگوں
محفوظ کردیا گیا جس کا تمام ریکارڈ FTC BUILDING کے 6 فلور پر تھاجسکو بعد
میں جلانے کی کوشش بھی کی گئی اور اس وقت ملک کی معاشی صورتحال بہتر نہ
ہونے کے سبب وزیراعظم عمران خان سمیت ہر محب وطن شخص پریشان ہے اور تمام
وفادار ادارے ملک کو بچانے کے لیے پاکستان کے لٹیروں سے غریب قوم کی لوٹی
ہوئی دولت واپس کروانے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیئے NDFC کا ریکارڈ جلانے کی
کوشش کی گئی مگر اﷲ تعالی نے اس قوم پر اپنا رحم کیا اور NDFC کا تمام
ریکارڈ نہ صرف بچ گیابلکہ یہ ہمارے پاس مکمل موجود اور محفوظ ہے اور جس طرح
وزیراعظم ملک کو ترقی اور خوشحالی کے راستہ پر لانے دن رات کوششوں میں
مصروف ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ قومی دولت لوٹنے والے لٹیروں سے ایک ایک
پائی واپس لائیں تو پھر انہیں ایک بار پھر سے این ڈی ایف سی کے پرانی
ریکوری ٹیم کو اختیار ات دیکر میدان میں اتارنا ہوگا اور میرا یہ ان سے
وعدہ ہے کہ ہم صرف چھ ماہ میں 50فیصد ریکوری کرکے رقم قومی خزانہ میں جمع
کروادیں گے ورنہ جو سزا بھی وہ ہمارے لیے تجویز کریں گے ہمیں قبول ہوگی ۔امتیاز
علی کھہڑو سابق ریکوری آفیسر این ڈی ایف سی |