تبدیلی کے نام پہ بننے والی حکومت کی ہنڈیا آٹھ ماہ بعد
ہی بیچ چوراہے پھوٹ گئی بڑے پیمانے پہ وفاقی کابینہ میں ردو بدل کر دیا گیا
کپتان کا ’’بلا‘‘ اپنے ہی کھلاڑیوں پہ چل گیا اور ایک ہی وار میں کئی وکٹیں
اڑ گئیں اور آؤٹ ہونے والے کھلاڑیوں نے پو یلین کی راہ لی عوام کو تبدیلی
کی راہ دکھانے والوں نے اپنی ہی کابینہ میں ’’تبدیلی‘‘ پیدا کر کے الیکشن
مہم کے دوران لگایا جانے والا ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ مستانہ سچ ثابت کر
دکھایاحالانکہ عوام کو تبدیلی کی نوید یہ سنائی گئی تھی کی وطن عزیز کی
سابقہ حکومتوں کی ساری پالیساں غلط اور سب چور ہیں اور عوام کو بتایا گیا
کہ ہم جیسے ہی اقتدار کے سنگھاسن پہ براجمان ہونگے ملک عزیز میں شہد اور
دودھ کی نہریں بہا دیں گے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کر دیا جائے گا
پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے گا
غیر مستحکم معاشی پالیسیوں کو مستحکم بنا کر ملک کو ترقی کی راہ پہ گامزن
کر دیا جائے گابے لگام ڈالر کو لگام ڈال کر بڑھتی ہوئی مہنگائی کو بریک لگا
دی جائے گی بھولی بھالی عوام بھی موجودہ حکمرانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں
پھنستی گئی حکومت بنتے ہی 100دنوں میں تبدیلی کا انقلاب لانے کی باتوں سے
عوام کو دلاسہ دیا گیا دلاسے، وعدے اور تبدیلی کے سب دعوے ہوا ہو گئے حکومت
کو پہلے دن ہی سے اپوزیشن نے ملکی معیشت کی بہتری کے لئے ’’میثاق معیشت‘‘
کی یقین دہانی کرائی لیکن اقتدار کے چڑھتے نشے نے آنکھوں پہ تعصب کی پٹی
باندھ دی اپوزیشن کے پرخلوص تعاون کوحقارت سے ٹھکرا دیا گیا ہر فورم پہ
وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کا دفاع کیا نیوز چینل پہ وزراء کو ہٹائے جانے
اور تبدیلی کی بازگشت سنائی دی میڈیا رپورٹس پہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار نظر
آئی پیمرا کے ذریعے نجی نیوز چینل کو جھوٹی خبریں چلانے کے نوٹس بجھوائے
گئے وزراء کی اکھاڑ بچھاڑسے وزارت اطلاعات کو بھی بے خبر رکھا گیا جب ایک
صحافی نے سابق وزیر خزانہ سے عہدے سے ہٹائے جانے کا سوال کیا تو سابق وزیر
خزانہ مسکرائے اور ایک شعر’’ خواہشیں اتنی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘سنا دیا
ابھی اس شعر کی بازگشت سنائی دے رہی تھی کہ سابق وزیر خزانہ میڈیا پہ آئے
اور ایک دھواں دھار پریس کانفرنس میں مستعفی ہونے کا اعلان کر رہے تھے ان
کے مستعفی ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور ساتھ ہی وفاقی کابینہ
میں وسیع پیمانے پہ تبدیلی کی خبریں سامنے آگئیں سابق وزیر خزانہ کی
علیحدگی کے متعلق جب وزیر اطلاعات سے پوچھا گیا تو انہوں نے سختی سے تردید
کر دی سابق وزیر اطلاعات اتنے بے خبر تھے کہ انہیں اپنی وزارت کی تبدیلی کی
بھی خبر نہ ہو سکی وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اسد عمر کے وزارت
چھوڑنے سے لاعلمی کا اظہار کیا میڈیا سے بات چیت کے دور ان شیریں مزاری نے
اسدعمر کے ٹوئٹ پررد عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ٹوئٹ فوٹو شاپ لگتی ہیں انہوں
نے کہا کہ اسد عمر کیوں استعفی دیں گے؟ ابھی انہوں نے توانائی اجلاس کی
صدارت کی ہے۔مستعفی وزیر خزانہ کے متعلق شنید تھی کہ وہ بہتر معاشی پالیسی
لائن بنانے سے ڈوبتی ملکی معیشت کے لئے امید کی کرن ثابت ہونگے لیکن آٹھ
ماہ بعد ہی اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت سے الگ ہوگئے انہوں نے
پریس کانفرنس میں جن باتوں کی نشاندہی کی وہ بہت خوفناک منظر پیش کر رہی
ہیں’’نئے وزیر خزانہ سے کوئی امید نہ رکھے کہ تین مہینے میں بہتری ہوگی،
آئی ایم ایف میں جارہے ہیں، آیندہ بجٹ پر آئی ایم ایف پروگرام کا اثر پڑے
گاپاکستان کے لیے کچھ کرنے آیا تھا، جو سازشیں کررہا ہے وہ کرے، سازشوں
جیسے معاملات میں نہیں پڑتا، اگر جلد بازی کریں تو کھائی میں گرنے کا خطرہ
ہے جو بھی مشکل فیصلے ہوں گے ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ اگلے تین ماہ
میں معجزے ہوں گے اور دودھ یاشہد کی نہریں بہیں گی‘‘۔
ترجمان وزیر اعظم آفس کے مطابق فواد چوہدری کو وزارت اطلاعات سے ہٹا کر
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر مقرر کیا گیاہے غلام سرور خان ایوی ایشن ،اعجاز
احمد شاہ وفاقی وزیر داخلہ اورشہر یار آفریدی کو وزیر مملکت برائے سیفران
مقر رکیا گیا ہے وفاقی وزیر میاں سومرو سے ایوی ایشن کا اضافی چارج واپس لے
لیا گیا ہے حفیظ شیخ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ہونگے جبکہ اعظم سواتی
کو پارلیمانی امور کی وزارت دے دی گئی ہے فردوس عاشق عوان معاون خصوصی
برائے اطلاعات ہو نگی ظفر اﷲمرزا وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت
ہونگے ندیم بابر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ڈویژن ہونگے وفاقی
کابینہ میں تبدیلی وزیر اعظم کا صوابدیدی حق ہے لیکن ان حالات میں جب وزیر
اعظم خود اپنے وزراء کی کارکردگی پہ نہ صرف خوش بلکہ انہیں شاباش دے رہے
تھے اچانک ’’تبدیلی کی لہر‘‘ سے اپوزیشن تو حیران تھی ہی خود پی ٹی آئی اور
وزراء کے لئے حیرانی کے ساتھ ساتھ ایک دھچکا ثابت ہوا اور جب وفاقی بجٹ آنے
میں صرف ایک ماہ باقی رہ گیا ہو ان حالات میں اکھاڑ بچھاڑسب کے لئے حیران
کن ہے نئے وفاقی وزیر داخلہ مشرف کابینہ کے اہم کردار تھے اور سابق وزیر
اعظم بے نظیر بھٹو نے انہیں اپنی زندگی کے لئے خطرہ قرار دیا تھا ابھی چند
روز قبل یہی موصوف اپوزیشن کو ’’چھترول‘‘ کا اشارہ دے چکے ہیں ایسی گھمبیر
صورت حال میں ایسے شخص کو وزیر داخلہ کا قلمدان سونپنے سے حالات میں بہتری
کی بجائے ابتری کے زیادہ چانس ہیں نئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی تعیناتی سے
حکومت اب اس حق سے محروم ہوگئی ہے کہ اپنی ناکام پالیسیوں کا سارا ملبہ
سابقہ حکومتوں پہ ڈال سکے کیونکہ نئے مشیر خزانہ پی پی پی کے بھی وزیر
خزانہ رہ چکے ہیں وفاقی کابینہ میں صرف آٹھ ماہ بعد ہی وسیع پیمانے پہ
تبدیلی سے حکومت کو سبکی کے ساتھ ساتھ نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا
وفاق میں وزراء کی تبدیلی کی لہر بہت جلد پنجاب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے
سکتی ہے عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کسے ہٹایا گیا اور کس کو کس کی
جگہ لگا دیا گیا پاکستان کی عوام صرف اور صرف مہنگائی میں کمی اور تبدیلی
کی منتظر ہے ۔
|